سوات: یونیورسٹی اف سوات کی خاتون پروفیسر ڈاکٹر (ز) کی جانب سے یونیورسٹی کے رجسٹرار کی جانب سے جنسی ہراسانی بارے درخواست ثبوتوں کے ساتھ پولیس کو دینے کے بعد رجسٹرار کے اعلیٰ حکام سے رابطوں کے بعد ان کے خلاف ایف آئی آر درج نہ ہوسکی۔ اس سلسلے میں رابطے پر ایس ایچ او کانجو نے بتا یا کہ خاتون کی درخواست پر تفتیش شروع کردی گئی ہے۔ پولیس نے موبائل ریکارڈ (سی ڈی آر) کے لئے درخواست دی ہے، جیسے ہی تفتیش میں جو کچھ سامنے آئے گا، اس کے بعد قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ سوات یو نیورسٹی میں خواتین کی جنسی ہراسانی سامنے آنے کے بعد ہفتہ کو چھٹی والے دن یونیورسٹی کی جانب سے بیان جاری کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا کہ انتظامیہ جامعہئ سوات، خاتون اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر (ز) سے منسوب اخبارات اور سوشل میڈیا پر چلنے والی اس خبر کی سختی سے تردید کرتی ہے، جس میں انتظامیہ کے مختلف افسران پر بے بنیاد الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ جامعہئ سوات 5 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کی فراہمی میں کوشاں ہے۔ ایسی بے بنیاد خبروں سے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی اور باعزت افسران کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ انتظامیہ نے ایک انکوائری کے سلسلے میں ڈاکٹر (ز) سے وومن کیمپس کی ذمہ داریاں واپس لی تھیں۔ ان کی خدمات باٹنی ڈیپارٹمنٹ کو حوالے کی گئیں تھیں جس کے ردعمل میں انتظامیہ پر الزامات لگائے گئے ہیں۔ الزامات کی مزید تحقیق کے لیے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد جمال خان کی ہدایت پر ایک اعلی سطحی انکوائری کمیٹی بھی بنائی گئی ہے۔ غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے مختلف اداروں کو بھی درخواستیں دی گئی ہیں۔انکوائری مکمل ہو نے کے بعد تمام تفصیلات قانون کے مطابق شیئر کی جائیں گی۔ اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کی جائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ جامعہئ سوات فیکلٹی سمیت طلبہ و طالبات کا گھر ہے، اور یہاں پر عزت و احترام کا رشتہ قائم ہے۔ آج تک جامعہئ سوات کے حوالے سے اس قسم کی شکایت موصول نہیں ہوئیں۔ اب بعض لوگ اپنے مفادات کے لیے جامعہئ سوات کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔