چائے کے ساتھ اگر کیک رسک مل جائیں تو چائے کا لطف بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ کیک رسک کی ایجاد سولہویں صدی میں ہوئی تھی۔ اور وہ بھی ایک ضرورت کے تحت اس کو ایجاد کیا گیا تھا۔ اس وقت کے لوگوں نے روٹی کو لمبے عرصے تک محفوظ بنانے کے لئے اس کو ایجاد کیا تھا۔

ہمارے پاکستان میں عام طور پر اس کو کیک رس بولا جاتا ہے جبکہ درست لفظ کیک رسک ہے۔ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے مطابق لفظ ”رسک“ سال ١۵٩۵ء سے تعلق رکھتا ہے۔ جب اس کا مطلب "دو بار پکائی گئی روٹی” کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ قدیم یورپ میں باسی روٹی کھانا معمول تھا۔ رومن سلطنت کے فوجیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہمراہ بسکوٹی نامی سخت روٹی رکھتے تھے، جس کے لغوی معنی ”دو بار پکائی گئی“ روٹی ہے۔ برصغیر کے کیک رسک ممکنہ طور پر ان تاریخی بسکٹوں کی نسل سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔

کھانوں کی تاریخ پر نظر رکھنے والے ماہرین بتاتے ہیں کہ ”رسک“ نام کے کھانوں کا طریقہ استعمال الزبتھ اوّل کے عہد میں سامنے آنا شروع ہوا۔

کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے رسک ایک بازنطینی بیکر نے تیار کئے تھے۔
”رسک “ روٹی کی وہ قسم ہے جو شکر، انڈے اور مکھن سے گُندھے ہوئے آٹے سے تیار کی جاتی ہے۔ ان کی ساخت ڈبل روٹی جیسی ہوتی ہے جسے پکانے کے بعد ٹھنڈا کر کے ٹکڑے کئے جاتے ہیں اور پھر کم آنچ پر اتنا خشک کیا جاتا ہے کہ وہ سخت ہو جاتی ہے۔ رسک میں پانی کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے انہیں کافی عرصے تک محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ جدید بسکٹوں کی بنیاد کی حیثیت رکھنے والے قرونِ وسطیٰ کے رسک کو بسکوٹی پانز (biscotti pans) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کا مطلب ”دو بار پکائی جانے والی روٹی“ ہوتا ہے۔ جنہیں سمندر میں بحری جہازوں اور افواج کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔

متعدد ممالک میں ایسی روٹیاں پائی جاتی ہیں جو رسک سے مماثلت رکھتی ہیں۔ اب وہ چاہے سادی ہوں جیسے اطالوی بروشیٹا، یا میٹھی قسم جیسے تقسیم سے قبل کے ہندوستان کے کیک رس۔ تاہم ان میں دیگر اجزاء بھی شامل کئے جاتے، جیسے الائچی، دارچینی، جائفل اور خشک میوے ۔ کہا جاتا ہے کہ جدید چھوٹے کیک (کو کی کیک) کی اوّلین قسم ساتویں صدی میں ایران میں سامنے آئی۔ اُس وقت وہ دنیا کے ان چند خطوں میں سے ایک تھا جہاں شکر دستیاب تھی۔ جبکہ دوسرا خطہ برصغیر تھا۔ موجودہ عہد کے کیک صلیبی جنگوں کے بعد دیگر مصالحہ جات کے ہمراہ ایشیاء سے سفر کر کے یورپ پہنچے اور پھر واپس ایشیاء آئے۔ جیسے انہیں یورپ سے درآمد کیا گیا ہے۔

۵١٠ قبل مسیح کے عہد میں ایرانی شہنشاہ دارا کے بھوکے سپاہی دریائے سندھ کے قریب تھے۔ انہوں نے ایسے سرکنڈے دریافت کئے جو مکھیوں کے بغیر شہد پیدا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایشیائی گنے سے یہ اوّلین تعلق زیادہ متاثر کن نہیں تھا، اس لئے اسے نظرانداز کر دیا گیا اور اسے پھر ٣٢۷ قبل مسیح میں سکندر اعظم نے دوبارہ دریافت کیا۔ جس نے اسے ایران کے ذریعے اپنی ثقافت میں پھیلا دیا اور اسے بحیرہ روم کے خطے میں متعارف کرایا۔ یہ درمیانے عہد میں شکر اور (کیک) کی مصنوعات کی ابتداء میں سے ایک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کیک رسک الزبتھ اول کے بحری رسد کے ورثے میں سے ایک ہے۔ دو بار پکائی گئی روٹی کے یہ چھوٹے ٹکڑے طویل تر بحری سفر میں بھی خراب نہ ہوتے۔ ان کا اوّلین حوالہ ڈریک کے بحری سفر نامے میں سامنے آیا جو ١۵٩۵ء میں تحریر کیا گیا۔ جس میں اس نے بتایا، ”سفر کے دوران ایک شخص کو سات یا آٹھ ٹکڑے رسک بطور رسد فراہم کئے جاتے ہیں۔“

اٹھارہویں صدی کے وسط سے تعلق رکھنے والے جدید اور زیادہ بہتر ”کیک رسک“ کیک کے ایسے سلائس ہیں جنہیں دوبارہ پکایا جاتا ہے۔ جب یہ خستہ ہو جاتے ہیں تو انہیں خشک کر کے محفوظ کیا جاتا ہے۔

کچھ تاریخ دانوں کے خیال میں رسک کی تخلیق گھر کے باورچیوں کی بنیادی ضرورت تھی تاکہ وہ روزانہ آٹا گوندھنے کی تکلیف سے بچ سکیں اور ایسی روٹی تیار کر سکیں جو زیادہ طویل عرصے تک قابلِ استعمال ہو۔

مقصد خواہ کچھ بھی ہو حقیقت یہ ہے کہ کیک رسک ایک انتہائی مزے دار اسنیک ہے جو چائے یا دودھ میں ڈبو کر کھانے کے لئے مثالی ہوتے ہیں۔