نویداللہ
یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ لسانی الفاظ کے حوالے اردواورخیبرپختون خوا کی دوبڑی زبانوں پشتو اورہندکو میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے خصوصاً پشتو زبان کے سلسلے میں اردو زبان کے ساتھ ہم رنگی رکھنے والے الفاظ سے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صوبے کی نمائندہ زبان پشتو بولنے والا اگر اردو میں بات کرتاہے تو وہ اجنبی دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ اس کی اپنی ماں بولی پشتو میں ایسے متعدد الفاظ موجود ہیں جو اردو زبان نے اپنے دامن میں سجارکھے ہیں جو اردو اورپشتو کے درمیان اجنبیت کے امکان کو ختم کرنے کے لیے کافی ہیں،اس اعتبار سے اردوکادائرہ بطور زبان پشتونوں کے تمام علاقوں تک پھیلاہواہے ،عام لحاظ سے پشتونوں کے کسی بھی علاقہ میں اردوکوئی ایسی زبان نہیں کہ جہاں اردو میں بات کی جائے تو وہاں کے لوگ یہ نہ سمجھ سکیں کہ مخاطب کیاکہہ رہاہے بلکہ ان علاقوں سے تعلق رکھنے والاپڑھے لکھے آدمی سے لے کر ایک دہقان تک نہ صرف مخاطب کے مفہوم کو سمجھ لیتاہے بلکہ وہ اپنی مقامی لہجے ہی میں سہی جواب اردو میں دے دیتاہے جس سے یہ نتیجہ اخذکیاجاسکتاہے کہ اردو کے اثرات تمام پشتون علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں اوریہ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ اردو ان کے لیے ناقابل فہم ہے ،جس سے ظاہرہوتاہے کہ اردو ہماری ایسی قومی اورشستہ تہذیبی زبان ہے جس میں بات کرنا عام فہم انداز میں اس عندیے کااظہار ہے کہ پڑھے لکھے اورتمدن شناس لوگوں کا ملکی سطح پر تعارف اس سے مشروط ہے کہ کون اردو میں تکلم کی استعداد رکھتاہے،سو اس لحاظ سے خیبرپختون خوا کے کسی بھی علاقے کاکوئی بھی باشندہ ایسانہیں جو اگر پوری فصاحت وبلاغت کے ساتھ نہ سہی قدرے کلام کی فہمائش کی حد تک اردو کو ضرورسمجھتابھی ہے اوراردو میں بات بھی کرنے کی اہلیت رکھتاہے
اس سلسلے میں شمالی علاقہ جات کے باشندوں نے تو صوبے اورملک کے دوسرے لوگوں کے ساتھ روابط کے لیے اردوہی کو اپنی مادری زبان کے بعد دوسری حیثیت دے رکھی ہے جب کہ قومیت کے اظہار میں سب کے سب اردو کو اولیت دیتے ہیں ،خصوصاً چترال کا اجتماعی معاشرہ ایساہے کہ جہاں کے لوگ اردو میں تکلم کرنے میں تہذیبی اورتمدنی ذمہ داریوں کو پورا کرنافرض سمجھتے ہیں ،ان کی اکثر علمی وادبی تقاریب میں اردو زبان ہی کو اپنایا جاتاہے ،شمالی علاقہ جات کے تمام ادبی حلقوں میں اردو کے فصاحتی اندازکو نمایاں حیثیت حاصل ہے ،چترال کے بازاروں میں کاروباری مشاغل میں بھی اردو زبان میں لین دین اورخرید وفروخت میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی ،اسی طرح چترال کی تاریخ وثقافت سے متعلق اب تک جوکتابیں لکھی گئی ہیں ان میں تاریخ چترال ازمرزا محمد غفران اورراموزڈاکٹرعنایت اللہ فیضی کی تصانیف کو نمایاں حیثیت حاصل ہے،یہ اردو میں ہیں،اسی طرح غلام محمد کی تصنیف”چترال کی لوک کہانیاں”بھی اردو میں لکھی گئی ہے ،چترالی موسیقی پر مشتمل تصنیف ”آلات موسیقی اورفن کار ”شیرولی خان نے اردومیںلکھی ہے اس کے علاوہ بھی کچھ تحقیقی کام ہورہاہے ،جو اردوہی میں ہے ہرچند کہ چترال کی مقامی زبان کھوار میں بھی کام جاری ہے مگر احاطہ اردو میں ہی ہے،جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ چترال میں اردو کے اثرات مسلم ہیں،چند ہفت روزے، اخبارات اوررسائل بھی اردو زبان میںجاری ہورہے ہیں ،یہی حال ملاکنڈڈویژن کے علاقہ سوات کابھی ہے،سوات کی تاریخ وثقافت سے متعلق جتنا بھی مواد دستیاب ہے وہ زیادہ تر اردو پر مشتمل ہے
اسی طرح فضل ربی راہی کی تصنیف”سوات تاریخ کے آئینے میں”بھی اردو میں ہے ،”حسین وادی سوات ” اردو میں ہے،کالام کوہستان جو سوات کوہستان کامرکزی خطہ ہے اس سے متعلق کتاب پرویش شاہین نے اردو میں لکھی ہے ،جب کہ ہزارہ کوہستان سے متعلق”اباسین کوہستان”کتاب کوبھی پرویش شاہین نے اردوکاپیراہن پہنایاہے ،ہزارہ کے زیادہ ترعلاقوں میں ہزارہ جاتی ہندکو زبان رائج ہے جوہزارہ کی مقامی زبان ہے اورمختلف علاقوں میں لہجوں کے اختلاف کے ساتھ ہزارہ جاتی ہندکو بولی جاتی ہے مگر ہزارہ میںادبی زبان اردوہی ہے یہاں کے لوگوں نے جو ادبی تخلیقات کی ہیں تقریباً80 فی صد اردو میں ہے، اس وقت ہزارہ کے دارالخلافہ ایبٹ آباد سے زیادہ روزنامے ،اخبارات اردو زبان میں ہی چھپ رہے ہیں،کاروباری مشاغل میں بھی اردوکو فوقیت حاصل ہے،شیربہادرخان پنی نے ضخیم کتاب ”ہزارہ کی تاریخ” اردوہی میں لکھی ہے،”تاریخ تنول” جو تنولی قوم سے متعلق ہے اردو میں فدامحمد نے تحریرکی ہے ،ایبٹ آباد اوردیگر مقامات پر ادبی ،سماجی اورسیاسی تقاریب اردو ہی میں منعقد ہوتی ہیں ،
مردان وصوابی سے متعلق بھی جو تاریخی اورثقافتی مواد دستیاب ہے وہ زیادہ تر اردو میں ہے ،صوابی کے قدیم ترین شہرلاہورسے متعلق تاریخ ،میرسید بخاری نے اردو میں لکھی ہے ،مردان کے ناموردانشور لکھاری ڈاکٹر ہمایوں ہمدرد اردو کے کالم نگارہیں،جنوبی اضلاع کوہاٹ ،بنوں اورڈیرہ اسماعیل خان کے اہل قلم نے اپنے اپنے علاقوں سے متعلق بہت کچھ اردو ہی میں لکھا ،پروفیسر پریشان خٹک جو نامور پشتون ادیب ،شاعر ،دانشورہونے کے ساتھ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیرمین بھی رہے چکے ہیں ،ان کی بہت سی کتابیں اردو میں ہیں ،خاص کر ”پشتون کون”جس نے شہرت دوام حاصل کرلی ہے اردو میں ہے جس میں پشتونوں کی اصل نسل کے بارے میں پروفیسر موصوف نے بست وکشاد کے ساتھ لکھاہے ،اسی طرح عصرحاضر کے مہان ادیب ،دانشوراورکالم نگار سعداللہ جان برق بھی اپنے خیالات وواقعات کو اردوہی کے زیورسے آراستہ کرتے ہیں ،
اسی طرح بنوں میں ارودزبان میں نکلنے والے اخبارات ورسائل کے متعدد نمائندے ہیں،ڈیرہ اسماعیل خان جہاںسرائیکی بولی جاتی ہے ،اس زبان سے متعلق وہاں کے لکھاری بہت محنت اورکوشش بھی کررہے ہیں لیکن زیادہ ترمواد ہمیں اردو میں دستیاب ہے،وہاں کے لوگوں کی رابطہ زبان اردو ہی ہے ،گومل یونی ورسٹی میں اردو ہی میں پڑھایاجارہاہے ،ڈیرہ کے نصیر سرمد اوردیگر اہم لکھاری اردو میں بہت اچھا لکھ رہے ہیں،مختلف علمی ،ادبی اورثقافتی تقاریب کاانعقاد اردو زبان ہی میں ہوتاہے،کوہاٹ کی ادبی اور ثقافتی محافل اردو ہی میں ہوتی ہیں،احمد فرازجوبین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر وادیب ہیں ان کا تعلق کوہاٹ ہی سے ہے ان کاسارے کاسارا کلام اردو ہی میں ہے ،ان کے والد مرحوم آغا برق کوہاٹی کاکلام اردو پر ہی مشتمل ہے ،میر عبدالصمد ناموردانشور گزرے ہیںانہوں نے اردوہی میں طبع آزمائی کی ہے وہ بہت ہی شستہ اردو بولتے تھے،ان کی شہرت یافتہ تصنیف ”خوشحال واقبال ”ہے،احمد پراچہ نے تاریخ کوہاٹ ارود ہی میں تحریرکی ہے،کوہاٹ سے نکلنے والا رسالہ ”ہمدم”نے بڑی شہرت حاصل کی وہ بھی ارود ہی میں چھپتاتھا،کوہاٹ میںاگرچہ ان باشندوں کی اپنی ہی ہندکو سے مماثلت رکھنے والی زبان کوہاٹی ،ہندکو زبان ہے مگر اس کے باوجود نہ صرف رابطے کی زبان کے طور پر لوگ اردو بولتے ہیں بلکہ اکثر دیکھا گیاہے کہ عہد حاضر میںکوہاٹ کے گھرانوں میں بچوں کے ساتھ اردو میں بول چال ہوتی ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے توکوہاٹ کے مضافات میں کوہاٹی زبان کے بعد دوسری سب سے بڑی مستعمل زبان اردو ہے،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کوہاٹ کی متعدد ایسی شخصیات ہیں جو ماضی میں تعلیم وادب کے میدان میں اعلیٰ مقام ومرتبہ پر فائز بھی رہی ہیں اورموجودہ عہد میں بھی اس مرتبے کے حامل ہیں،علاوہ اس کے کوہاٹ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ سرکاری حیثیت میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں،ان کے گھروں میں مقامی زبان کوہاٹی کے علاوہ اردو ہی رائج ہے اوربڑی شستہ اردو بولی جاتی ہے،
اسی طرح اگرخیبرپختون خواکے دارالخلافہ پشاورکی بات کی جائے تو اس شہرکو قدیم زمانے سے ایک مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے اورتقریباً ہرمورخ نے پشاورکی تاریخی اورثقافتی حیثیت کاحروف جلی کے ساتھ تذکرہ کیاہے،پشاور کا ایک نام گندھارا بھی رہاہے جب کہ گندھاراسنسکرت زبان کادیاہوانام ہے جس کے معنی ومفہوم خوشبو کاخطہ ہے ،یہ اس لیے کہ یہ باغات کی سرزمین رہی ہے ،یونانی مورخ ہیروڈوٹس نے پشاور کے باشندوں کو گندھاریون غالباً اسی نام کی مناسبت سے لکھا ہے ،مہاراجہ کنشک کے دور میں تو پشاور کو باضابطہ طور پر اس پورے گندھارا (خیبرپختون خو ا) کادارالخلافہ لکھاگیاہے اوراس کے بعد عہد بہ عہد پشاور کو یہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے،یہاں کے باشندے ہردور میں تہذیب وتمدن سے متعلق اعلیٰ روایات کے امین رہے ہیں ،باہرسے آنے والی اقوام نے یہاں آکر پشاورکے باشندوں کے ساتھ گھل مل کر وہی عادات واطوار اپنائیں جو پشاورکے خالص پشاوری باشندوں کی خاصہ رہی ہیں،پشاورکی مخصوص ثقافتی اورتاریخی حیثیت نے جو مقام حاصل کیاہے اس کی وجوہات میں ایک وجہ یہاں کے باشندوں کی لسانی حیثیت بھی ہے ،پشاور کے مقامی لوگوں کی اپنی اصلی اورنسلی زبان ہندکو ہے اورہندکو وہی قدیم زبان ہے جیسے کہ سنسکرت زبان کے گرائمر کے موجد ”نیدت’ یعنی پانینی نے ہنیان کہاہے اورجسے کہ گندھارا کی دونمائندوں زبانوں میں سے ایک نمائندہ زبان قراردیاہے ،پشاورمیں ہندکو کے ساتھ اپنے اپنے عہد میں دیگر زبانوں کابھی اثر رہاہے جس میں فارسی زبان کی اثر آفرینی کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کیوں کہ مغل اورمغلوں کے بعد درانیوں کے دور تک یہاں کی شاہی اورسرکاری زبان فارسی رہی ہے اس لیے یہاں کے لوگ اب تک اپنی ہندکو زبان کے ساتھ ساتھ فارسی زبان بڑی روانی کے ساتھ بولتے ہیں مگر جب لشکری زبان یعنی اردو زبان کا یہاں اجرائ ہوا تو پشاورکے ہندکو دان لوگوں نے اردو کی تہذیبی اورتمدنی حیثیت کو بخوبی نہ صرف تسلیم کیابلکہ اپنی تہذیبی حالت کی مسابقت کے پیش نظر عام بول چال اورلین دین میں بھی اسے قبول کیا اوراب تو یہ حال ہے کہ پشاورمیں مقیم ہندکودان اورپشتوبولنے والے دونوں گھرانوں کے لوگ اپنے بچوں کے ساتھ اردو میں بول چال کو فخریہ کردار سمجھتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ پشاورکے مضافات میں 80 فی صد بچوں کو ابتدائ ہی سے اردو کی طرف راغب کیاجاتاہے جس سے اردو پشاورکے عام گھرانوں کی زبان ہوچکی ہے ،علاوہ اس کے یہ بھی مشاہدے اورتجربے میں آنے والی بات ہے کہ پشاور کے وہ گھرانے جہاں پشاورسے باہرہزارہ ،ڈیرہ ،کوہاٹ وغیرہ سے شادیاں ہوئی ہیں وہاں تو اردو کو مروج کرلیا گیا ہے یوں گھرانوں کی سطح تک اردوکو رابطے کی زبان کے طور پر اختیارکرلیاگیاہے،
پشاورمیں سرکاری سطح پر دفاتر میں جو زبان عموماً استعمال ہوتی ہے وہ بھی اردو ہی ہے ،یہاں جتنے بھی اخبارات جاری ہوتے ہیں سب کے سب اردو اخبارات ہیں صرف دو تین پشتو زبان میں اخبارات جاری ہوتے ہیں، اسی طرح ہفت روزہ اورماہانہ رسائل بھی زیادہ تر اردو میں ہی جاری ہوتے ہیں ،سکولوں اورکالجوں کی سطح تک ذریعہ تعلیم اردوہی ہے، روزانہ لاکھوں کی تعداد میں جو چھپائی ہوتی ہے وہ اردو ہی میںہے،جس کی فی صد شرح تقریباً90ہے ،ان حالات کے پیش نظر یہ کہنا حقیقت کے قریب تر ہے کہ صوبہ کے دارالخلافہ میں اردو دانی کا معیار 90 فی صد ہے جس میں تمام مقامی زبانیں اوربولیاں بولنے والے لوگ شامل ہیں ،یہ تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ صوبائی دارالحکومت میں اردو کے اثرات نمایاں ہیں اورلوگ اردوکو ایک تہذیبی اورتمدنی زبان کے طور پر اختیار کیے ہوئے ہیں اورساتھ ہی ساتھ اردو بول چال کرنے والے لوگوں کو اپنی قومیت کابھی احساس ہوتاہے کیوں کہ اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہے جس نے ملک کے ہرحصے کے باشندے کو ایک قومیت کے دھاگے میں پرورکھاہے ،کسی بھی قوم کے لیے ایک قومیت کے دھارے میں رہنے کے لیے ایک زبان کاسہارا لینا پڑتاہے جو قومی وحدت کی علم بردار ہوتی ہے ،پاکستانی قومیت کے لیے اردو ہی اس کی قومی شناخت ہے جس کا احساس صوبے کے ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے باشندے کو بخوبی ہے اوراپنی مقامی زبان سے جتنی محبت ہے اسی قدر اردو کے ساتھ قومی زبان کے طور پربھی شفقت اورپیار ہے۔
خیبرپختون خوا کالسانیاتی ماحول اوراردو
مذکورہ بالا سطور میں خیبرپختون خوا کے تمام علاقوں اوراضلاع میں بولی جانے والی زبانوں کا احاطہ کیاگیاہے جس سے یہ بات پوری طرح سے آشکاراہوگئی ہے کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی زبانیں اوربولیاں اتنی مختلف الانواع ہیں کہ ایک علاقے کاباشندہ دوسرے علاقے کے باشندے کی زبان کے تکلم و مفہوم سے ناآشناہے ،مثال کے طور پر ڈیرہ کاباشندہ ضلع کوہستان میں بولی جانے والی زبان”شنا” کو نہ تکلم میں لاسکتاہے اورنہ ہی اس کامفہوم سمجھتاہے،اسی طرح ایبٹ آباد کی ہزارہ جاتی زبان یاپشاور کی ہندکو یابنوں کی پشتوزبان کو گاوری اورشنازبان بولنے والے نہ سمجھ سکتے ہیں اورنہ ہی بول سکتے ہیں، ڈیرہ کی سرائیکی زبان بنوں اوروزیرستان کے علاقے کے لوگ باوجود قریبی ہمسایہ ہونے کے بھی نہ بول سکتے ہیں اورنہ سمجھ سکتے ہیں غرضیکہ ہرعلاقہ کی زبان اورماحول دوسرے سے مختلف ہے چنانچہ اردو ہی ایک ایسی زبان ہے جس نے قومی رابطے کاکردار اداکررکھاہے اوراردو زبان کے ذریعے سے میل ملاپ ،لین دین اور رشتے داریوں کے رابطے استوار ہیں،ایسے میں بغیر کسی ابہام وشک کے یہ کہا جاسکتاہے کہ خیبرپختون خوا کی تمام مختلف الکلام اورمختلف المفہوم زبانوں کو اردو ہی کایہ کمال ہے کہ تمام علاقوں کے باشندوں کو ایک لڑی میں پرورکھاہے اوروہ ہے قومیت کی لڑی جس سے یہ صاف ظاہرہے کہ اردو تمام علاقوں کی اثر انگیززبان ہے اورصوبے کی لسانیات پر اردو زبان کااثرکافی اورمعیاری حدتک ہے ،کوہستان ،چترال ،سوات ،ڈیرہ اسماعیل خان ،مردان ،چارسدہ ،پشاور،نوشہرہ ،کوہاٹ،بنوں اورقبائلی علاقہ جات ان تمام علاقوں کے باشندوں کے پاس اگر کوئی رابطے کی زبان ہے تووہ اردو ہے ،پڑھے لکھے،اعلیٰ تعلیم یافتہ سے لے کر ایک دہقان تک اگر اپنے مافی الضمیر کو کسی دوسرے علاقے کے باشندے کو منتقل کرنا چاہے تو اسے اردو زبان کے ذریعے ہی منتقل کرسکتاہے، اسی طرح وہ خود اگر کسی دوسرے کے مافی الضمیر کو سمجھنا چاہے تو اردو ہی کے ذریعے ممکن ہوسکتاہے ،الغرض پاکستان کی قومی زبان خیبرپختون خو اکے ہرخطے کے باشندے کاقومی سرمایہ ہے ،لسانی تاریخ کے حوالے سے اردو زبان کی تاریخ سب سے مختصر ترین عرصے پر محیط ہے لیکن اس کے تکلماتی اثر کو جادوئی حیثیت سے سب نے قبول کیاہے۔