ایچ ایم کالامی
سردیوں میں جیسے ہی محکمہئ موسمیات برف باری کے امکانات کی نوید سناتا ہے، تو گویا سیاحوں کے من کی مراد پوری ہوجاتی ہے اور سوات کوہستان کی برفیلی وادی بحرین اور کالام میں سیاحوں کی آمد سے رونق دوبالا ہوجاتی ہے۔ وادیِ کالام کے چار سو سے زائد ہوٹلوں میں سیاحوں کے لیے ٹھہرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ ہوٹلوں میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے زیادہ تر سیاحوں کو چار و ناچار نوے کلومیٹر دور واپس منگورہ شہرجاکر رات گزارنا پڑ تی ہے۔
لیکن دوسری طرف سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کا یہ خطہ ”سوات کوہستان“ جتنا خوبصورت اور سیاحتی علاقوں سے مالامال ہے، اتنا ہی بری طرح پس ماندہ بھی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی انڈسٹری کے سبب ”ہوٹلوں کا شہر“ کا خطاب پانے والے اس علاقہ میں غربت کا دور دورہ ہے۔
یہاں پر ایک بڑا سوال سر اٹھا رہا ہے کہ ایک بڑا سیاحتی زون اور اور بڑی ہوٹل انڈسٹری میں پس ماندگی اور غربت کی مثال کیا”سمندر کنارے پیاسا“ والی بات نہ ہوئی؟
تو چلیں، آپ کی یہ کنفیوژن دور کریتے ہیں۔
یہاں کی پس ماندگی اور غربت کی سب سے بڑی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیاحتی شعبے کی ملکیت تو دور کی بات، یہاں کے مقامی باشندوں کی سیاحتی روزگار میں شراکت داری بھی ممکن نہیں۔ معاملہ ریاستِ سوات کا وطن عزیز میں انضمام کے بعد ہی بگڑتا گیا۔ انضمام کے بعد یہاں پر ترقیاتی کاموں کی غرض سے کسی منتخب حکمران نے ایک اینٹ رکھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ ریاستی دور کے سرکاری سکول والی سوات کے ہاتھ کی نشانی کی طرح جوں کے توں قائم ہیں۔
ضلع سوات کے آدھے سے بھی بڑے رقبے والے اس علاقہ میں ایک بھی ڈگری کالج موجود نہیں۔ جو سکول موجود ہیں، ان کی حالتِ زار بیان کرنے کے لیے قلم میں اتنی جنبش نہیں۔ صحت کے مراکز کی اپنی صحت اتنی خستہ حال ہے کہ ریاستی دور کے تعمیر شدہ بنیادی صحت مراکز اور اسپتال اپنی کمزور ٹانگوں پر لڑکھڑا رہے ہیں اور زمیں بوس ہونے کو ہیں۔
پورے سوات کوہستان کے لیے کالام میں موجود سول اسپتال اُسی طرح گریڈ ڈی سے آگے ترقی نہیں کرپایا۔ سرکاری اداروں کی خستہ حالی کے سبب مقامی باشندے نہ صرف مسائل کی دلدل میں پھنس چکے ہیں، بلکہ روزگار کے مواقع بھی ان کے لیے ایک خواب بن کر رہ گئے ہیں۔
ریاستِ سوات کے انضمام کے بعد مقامی باشندوں کے پاس لے دے کے ایک موسمی کاشت کاری کے علاوہ کمائی کا مزید کوئی ذریعہ ہاتھ ہی نہ لگ سکا۔ یوں سیاحت میں سرمایہ کاری میں ان کی اتنی سکت بھی نہیں رہی کہ ذاتی طور پر کوئی ہوٹل یا ریستوران تعمیر کرسکیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقامی لوگوں نے اپنی زرعی جائیداد بھی بیرونی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں فروخت کی اور اب بھی مسلسل فروخت جاری ہے۔ یوں نہ صرف یہاں کے لوگ زراعت اور کاشت کاری سے محروم رہ گئے، بلکہ مقامی سیاحت میں اپنی ملکیت بھی کھو بیٹھے ہیں۔
مال روڈ پر تو کسی کے پاس ایک انچ جگہ بھی نہیں بچی۔ اب وہاں پر قدم قدم پہ بیرونی کاروباریوں کے بڑے بڑے ہوٹل، مارکیٹیں اور ریستوران تعمیر ہوچکے ہیں۔
مقامی لوگ اپنی بیچی ہوئی جائداد پر بنے ہوٹلوں میں بیرے اور چوکیدار کی نوکریوں کے لیے ترس رہے ہیں۔
اب جن کے پاس بچی کھچی زرعی جائیدادیں موجود ہیں، ان کی پیداوار اتنی نہیں کہ گرمیوں کی ایک سیزنی فصل سے موسمِ سرما کے اخراجات پورے کیے جاسکیں۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے واحد راستہ یہی بچا ہے کہ سردیوں میں خاندان سمیت شہری علاقوں کی طرف نقلِ مکانی کرلیتے ہیں اور دہاڑی مزدوری کی خاطر شہروں میں در در کی خاک چھن رہے ہیں۔ ان کا اپنے لیے دانا پانی تلاش کرنا محال ہوچکا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق موسمِ سرما میں سوات کوہستان کی نوے فیصد آبادی شہروں کی طرف کوچ کرجاتی ہے۔ بڑی تعداد میں یہ نقلِ مکانی مزید گھمیر مسائل کا سبب بن جاتی ہے۔
قارئین، اس بڑی نقلِ مکانی سے پیدا ہونے والے مسائل کا احاطہ راقم کے لیے اس چھوٹی سی تحریر میں کرنا ممکن نہیں، لیکن جو سب سے بڑا اور سرِ فہرست مسئلہ ہے، وہ بچوں کی تعلیم کی تباہی کا ہے۔
ان حسین وادیوں میں مفلسی کے ہاتھوں لاچار لوگ ستمبر میں یہاں سے شہروں کی طرف اپنا رخت سفر باندھ لیتے ہیں اور اپریل میں بہ مشکل واپسی ہوتی ہے، جب کہ حکومت کی طرف سے سردیوں کی چھٹیاں صرف دو مہینے ہوتی ہیں اور طلبہ چھے مہینے سکولوں سے غیرحاضر رہ جاتے ہیں۔ ان کے لیے دس مہینے کا نصاب صرف چار مہینے میں مکمل کرنا ممکن نہیں رہتا۔
طویل غیر حاضری کے باعث نصاب مکمل نہ ہونے سے ان میں سیکھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ بچوں کی پڑھائی میں دلچسپی معدوم ہوکر رہ جاتی ہے۔ زیادہ غیرحاضری کی وجہ سے سکولوں سے خارج کردیے جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں طلبہ کی سکول چھوڑنے کی شرح بیس فیصد سے بڑھ چکی ہے اور طالبات کی چالیس فیصد تک۔
قارئین، اگر صورت حال اسی طرح جاری رہی اور حکومت اسی طرح بدستور غفلت کا مظاہرہ کرتی رہی، تو یہاں تعلیمی زبوں حالی اس نہج تک پہنچ سکتی ہے کہ یہ خوبصورت علاقے سیاحت کے بجائے جرائم کا مسکن بن جائیں گے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں کے باشندوں کو متبادل روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ سخت موسم سے لڑنے کے لیے گیس اور سستی بجلی فراہم کی جائے، اور اس نقلِ مکانی کو روکنے کی کوئی سبیل ڈھونڈ لی جائے۔
گیند اب اربابِ اقتدار و اختیار کے کورٹ میں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی نمائندے اپنے گریبان میں جھانک کر آئین پاکستان کے آرٹیکل 25-A کے اس معاہدے کی پاس داری کرتے ہیں کہ جس کے تحت اپنے شہریوں کو بارہویں تک معیاری اور مفت تعلیم دینا ان کا فریضہ بنتا ہے۔ یا پھر جس طرح دعوے کیے ہیں، وہ محض دعوے ہی رہتے ہیں؟