ڈاکٹر سلطان روم
اگر چہ خوشحال خان نے سوات کے بعض پہلو جیسا کہ سبزہ زاروں، دل کش ملکوتی حسن، زر خیزی، معطر ہواؤں، ارزانی اور شان دار ماضی کی تعریف و توصیف کی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس نے اس کے بعض پہلوؤں پر تنقید بھی کی ہے اور سوات کے لوگوں کی ان قدرتی عنایات کی قدر نہ کرنے اور مطلوبہ طرزِ عمل نہ اپنانے پر ان کی مذمت بھی کی ہے۔ اس نے نہ صرف سماجی و مذہبی برائیوں، خوانین، مَلَکوں، پیروں، فقیروں اور ملاؤں کا ان کے طرزِ عمل، رویوں، بے وقعتی اور اپنے رتبوں اور وقار کو دنیاوی فوائد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی مذمت کی ہے بلکہ ان کی جہالت، مذہبی عقائد، اسلامی قوانین کی پائے مالی اور ساتھ ساتھ مغلوں کے خلاف آپ کی طرف داری میں لشکر بنا کر ہتھیار نہ اٹھانے پر، آپ کے زعم میں، ’’افغان ننگ‘‘ کی پاس داری نہ کرنے پر بھی مذمت کی ہے۔
خوشحال خان کی بعض باتیں درست ہیں، مثلاً مروجہ نظام ویش کی خامیوں کا تجزیہ، خواتین وارثوں کو وراثت میں حصہ نہ دینا، وفات شدہ مرد کی بیوہ سے وفات شدہ کے بھائی یا دوسرے رشتہ دار کا بالعموم اس بیوہ کی رضامندی کے بغیر شادی کرنا اور قتل کے انتقام میں اصل قاتل کے بجائے اس خاندان کے سرکردہ اور زیادہ با اثر فرد کا قتل کرنا، خوانین اور مَلَکوں کے کردار مثلاً ان کی رشوت ستانی اور اپنی حیثیت کو ذاتی دنیاوی مفادات کے لیے استعمال کی مذمت بھی کسی حد تک درست ہے۔ اس طرح اس کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ سوات کے لوگ سوجھ بوجھ اور فہم و فراست سے کام لینے کے بجائے سنی سنائی باتوں پر یقین کرتے ہیں اور یہ بھی کہ سوات کے لوگ غلط اطوار اور امور میں ڈوبے ہوئے ہیں اور یہ کہ بد کاروں کو صحیح طور پر سزا نہیں دی جاتی۔ اس کی یہ بات بھی وزن رکھتی ہے کہ اگر کوئی مکروفریب سے ڈاکٹر بن جائے، تو کوئی بھی اس کی پول نہیں کھولتا اور اگر کوئی مکاری سے عالم یا درویش ہونے کا دعویٰ کرے، تو بھی کوئی اس کی اصلیت سے متعلق فکر مند نہیں ہوتا اور سب کچھ چلتا ہے۔
بہر حال خوشحال خان کے تمام نِکات اور قیل و قال مبنی بر حقیقت نہیں۔ اس کی تحریر سے اس کا تعصب اور جانب دارانہ پن آسانی سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔
مثال کے طور پر مذکورہ بالا تمام برائیاں صرف سوات کے ساتھ مختص نہیں تھیں۔ خوشحال خان نے سوات اور سوات کے لوگوں سے متعلق جو زیادہ تر برائیاں بیان کی ہیں، وہ دوسرے پختون علاقوں اور قبائل میں بھی رائج اور پائی جاتی تھیں بلکہ بعض تو سوات سے زیادہ شدت سے اور بڑے پیمانے پرتھیں۔
خوشحال خان نے سوات کے لوگوں کی سخت محنت کرنے پر مذمت کی ہے، جو کہ قابلِ مذمت کام نہیں بلکہ لائقِ تحسین خوبی ہے۔ اس کا سوات کے لوگوں پر یہ طعن و تشنیع بھی مبنی بر انصاف نہیں کہ یہ مہمان نواز نہیں۔ اس کی غلط فہمی شاید اس کے سوات میں سات ماہ کے طویل عرصے تک قیام کی وجہ سے ہو۔ عام طور پہ زیادہ مدت تک ٹھہرنے والے فرد کو مہمان تصور نہیں کیا جاتا، بلکہ گھر کے افراد کی طرح معمول کے مطابق اس کی رکھوالی کی جاتی ہے۔ تاہم سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ خوشحال خان جیسے مہمان کا، جو زیادہ عمر مغلوں کا حامی اور یوسف زئیوں کا مخالف رہا ہو، اگر چہ پختون روایات کے تحت مہمان داری کی جاتی ہے، لیکن یقیناًگرمجوشی اور تہہ دل سے نہیں۔ شاید اس بات کے ادراک میں خوشحال خان ناکام رہا ہے۔
جہاں تک خوشحال خان کا سوات کے لوگوں کے مذہبی اخلاص اور عمل پر سوالیہ نشان کا تعلق ہے، تو یہی حال دوسرے پختون علاقوں اور قبائل کا بھی تھا۔ اس کا سوات کے لوگوں کے متعلق ایسی باتیں اور امور جیسا کہ طور و اطوار، سطحی دوستی، معمولی ذاتی فائدہ کے لیے دوسروں کو بڑا نقصان پہنچانا، بیویوں کے ناز و نخرے برداشت کرنا اور ان کے ہر قسم کے احکام کی تابع داری اور اس طرح کی دوسری باتیں بھی تنقیدی پرکھ پر مکمل طور پر درست نہیں۔ یہ ایک ایسے فرد کی باتیں، تبصرے اور تاثرات ہیں جو سوات کو غصہ کی حالت میں بہ طور ایک ناکام فرد کے چھوڑ گیا تھا۔
اس طرح اس کی یہ باتیں کہ کوئی بھی مغل سوات میں داخل ہو، تو وہ شہزادہ بن جاتا ہے اور سوات کے لوگوں میں ہر کوئی اس سے جاہ و منصب کا طلب گار ہوتا ہے، یہ کہ ان لوگوں سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ تلوار ہاتھ میں لیے میدان جنگ میں اتریں گے، جن کے دل مرغ مارنے پر لرزنے لگتے ہیں اور یہ کہ گویا کہ اس کی بیوی کے گھر پہ پتھر برس پڑیں گے، اگر سواتی نوجوان اس کے بستر سے جدا ہو (یعنی کہ سوات سے باہر جائے) خوشحال خان کے بے بنیاد الزامات اور نامعقول دعوؤں کا کھلا ثبوت ہیں۔ اس لیے کہ مغل شہنشاہ اکبر کی کوشش کے باوجود نہ تو سوات مغلوں کے زیر تسلط رہا ہے، نہ کوئی مغل سوات آیا ہے اور نہ سوات کے لوگوں نے مغلوں کی ملازمت کے حصول کی کوشش کی ہے، بلکہ سوات کے لوگ اکبر کے دور میں، جب اس نے سوات فتح کرنے کے لیے افواج یہاں بھیجیں، کئی سالوں تک بڑی بہادری سے مغل فوجوں کے خلاف بر سر پیکار رہے اور نہ صرف مغل افواج کی کوششوں کو ناکام بنایا بلکہ اپنی آزادی کو بر قرار رکھا۔ انہوں نے خوشحال خان اور اس کے خاندان کی طرح نہ تو کبھی مغلوں کی خدمت کی اور نہ ان کے جاہ و منصب کے طلب گار رہے۔
خوشحال خان نے سوات کے سب لوگوں پر شب و ستم کیا ہے اور جو اس کے دل میں آیا اسے ضبط تحریر میں لایا ہے، جس کا اد نے خود بھی درجہ ذیل اشعار میں اقرار کیا ہے:
دا چہ وائم دا زہ نہ یم دا مے زڑہ دے
زما زڑہ د چا د زڑہ سرہ سم نہ دے
چہ خہ کڑے زما زڑہ دے کلہ بد دے
چہ بد کڑے زما زڑہ د ہغے رد دے
یعنی یہ جو میں کہتا ہوں، یہ میں نہیں بلکہ میرا دل ہے اور میرا دل کسی اور کے دل جیسا نہیں، جسے میرے دل نے اچھا مانا ہے، وہ کب برااور جسے میرے دل نے برا مانا ہے، وہ رد ہے۔
خوشحال خان کی تحریر اس کے تعصب اور خرافات و بے تکے پن کی غماز ہے۔ تاہم اصل تصویر سوات سے متعلق اس کی تحریر کے بین السطور انداز سے بھی اخذ کی جاسکتی ہے۔
خوشحال خان کی سوات کے لوگوں سے مخاصمت اور ان پر لعن طعن کی بنیادی وجہ سوات کے یوسف زئیوں کی آپ کی خواہشات کے مطابق ہتھیار اُٹھا کر مغلوں سے نہ لڑنا تھی۔ دراصل اس بابت آپ کو بے جا توقعات تھیں جو کہ آپ کے اس شعر سے بھی عیاں ہیں کہ
چہ دَ ننگ تورہ دِ واغستہ خوشحالہ !
درومہ سوات تہ سہ خٹک سہ ئے لخکرے
یعنی اے خوشحال! جب آپ نے ننگ کی خاطر تلوار اٹھالی، تو سوات کی راہ لو، اس لیے کہ خٹک کیا ہیں اور ان کے لشکر کس گنتی میں ہیں؟
سوات کے یوسف زئیوں کا یہ طرزِ عمل اور پالیسی اپنانے کی اپنی بنیاد تھی۔ وہ خوشحال خان کا اس طرح ساتھ نہیں دے سکتے تھے، جیسا کہ خوشحال خان چاہتے تھے۔ اس لیے کہ اورنگ زیب اور میدانی علاقوں کے یوسف زئی و مندنڑ کا تعلق پہلے ہی دوستانہ ہوچکا تھا۔ خوشحال خان اور میاں نور کے نقطۂ نظر اور عقائد کے اختلاف کی وجہ سے میاں نور کے کردار نے بھی سوات میں اس کا مقصد پورا نہ ہونے میں اپنا حصہ ڈال دیا، جس کے لیے خوشحال خان نے میاں نور اور سوات کے لوگوں پر خوب لعن طعن کیا ہے۔ تاہم خود خوشحال خان کو ہی اس کی ناکامی کا ذمے دار ٹھہرایا جائے گا، اس لیے کہ اس نے یوسف زئیوں کو اتحادی بنانے کی خاطر سوات کا دورہ کیا، لیکن اصل مقصد کو پسِ پشت ڈال کر اس نے اخون درویزہ کے عقائد،رتبہ اور کتاب ’’مخزن‘‘ کے ساتھ ساتھ خود میاں نور کے عقائد، رتبہ اور کردار کے حوالے سے بھی غیر ضروری تنازعات پیدا کیے۔ بہت عجیب و دلچسپ، جو وقت خوشحال خان کو میدان جنگ میں گزارنا چاہیے تھا، یعنی سات ماہ کا طویل عرصہ، وہ اس نے سوات میں دوروں، شکار، بحث و مباحثوں اور سوات کے عوام اور سیاسی و مذہبی قیادت کے ساتھ اختلافات پیدا کرنے میں گزارا۔
خوشحال خان کو اپنے سابقہ دشمنوں یعنی سوات کے یوسف زئیوں سے بلاچوں و چرا حمایت اور اتحاد کی توقع نہیں رکھنی چاہیے تھی۔ اور سوات کے یوسف زئیوں کے اتحاد کے حصول کی خاطر آپ کو لازم تھا کہ آپ اپنی تمام تر کوشش کو اپنے مقصد کے حصول پر مرکوز کرتے نہ کہ ایسے امور میں پڑتے اور مصروف ہوجاتے جو کہ مقصد فوت کرنے والے ہوں۔
یاد رہے کہ سوات کے یوسف زئیوں نے بظاہر ماضی کی مناقشات اور شکایات کو ایک طرف رکھ دیا، لیکن خوشحال خان نے نئے غیر ضروری تنازعات اور مباحثے پیدا کرکے پانسا پلٹا۔ اس وجہ سے سوات کے لوگ مغلوں کے خلاف لڑنے کی خاطر آپ کی حمایت میں لشکر نہ بنانے میں حق بجانب تھے اور یہ خوشحال خان کے ماضی کا کردار اور سوات میں اس کا طرزِ عمل ہی تھا، جس نے آپ کو سوات کے یوسف زئیوں کو بہ حیثیتِ مجموعی اپنے حق میں جیتنے میں کامیاب نہ ہونے دیا، اگر چہ بعض نے ایک لشکر بناکے ایک مغل قلعہ پر حملہ کر بھی دیا۔
(28 تا 30 نومبر 2012ء، پشاور میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس بہ موضوع، خیبر پختونخو خوا: ہسٹری اینڈ کلچر‘ میں راقم کے انگریزی میں پیش کردہ مقالے کی اردو تخلیص)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔