دعا علی

آج کل گنے کی کٹائی چل رہی ہے سوچا کیوں نہ آج گنے پر ہی لکھا جائے۔ پہلے تو ذرا پچھلے سات سالوں کے دوران گنے کے ریٹ پر ایک نظر دوڑائی جائے۔ 2012 ء میں گنے کا ریٹ 180روپے جبکہ 2013ء میں 170 روپے من مقرر کیا گیا، 2014 ء میں 153 روپے فی من نرخ طے ہوا تاہم بعد میں زمینداروں کے دباؤ پر 180 روپے فی من کر دیا گیا، 2015 ء میں بھی 180 روپے من ریٹ رہا ،2016 ء میں اس کا ریٹ 182 روپے من، 2017 ء میں 160 روپے من،2018ء میں بھی 182 روپے اور اب 2019 ء میں بھی 182 روپے فی من مقرر کیا گیا ہے۔ گویا گزشتہ سات برس میں گنے کے نرخ میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ مہنگائی میں اضافہ جاری رہا۔ حکومت کی ناقص معاشی و اقتصادی پالیسیوں کے سبب موجودہ دور میں بھی مہنگائی آسما ن سے باتیں کرتی ہوئی نظر آتی ہے اور ضرورت کی ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے سر سعداللہ شاہ کا ایک شعر ہے ع
؎ جسے کہتے ہیں مہنگائی اسے اب اور بڑھنا ہے
غریبوں کا ہی رونا ہے غریبوں ہی کا مرنا ہے
حکومت ختم کر دے گی سرے سے مسئلہ سارا
بہر صورت حکومت کو ہدف یہ پورا کرنا ہے
بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے چینی کا نرخ 50 روپے کلو سے 75 تا 80 روپے کلو ہوچکا ہے لیکن گنے کا ریٹ جو ں کا توں ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران سندھ کی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ سندھ کسی بھی قسم کی کاشت میں سب سے نچلے درجے پر رہا،کہیں پانی کا مسئلہ تو کہیں گنے کے ریٹ کا۔گزشتہ برس گنے کی پیداوار شروع ہونے کے ڈیڑھ سے دو ماہ بعد شوگرملوں نے کرشنگ کاکام شروع کیا ۔ گنا ٹرکوں میں ’’شوگرملوں‘‘کے باہر پڑا سڑتا رہا، حکومت کی ناقص پالیسی کے سبب گنا اتنی زیادہ دیر تک رکھنے کی وجہ سے سکڑ کر آدھا رہ گیا یوں کاشتکاروں کو بہت زیادہ نقصا ن اٹھانا پڑا، پیدا شدہ صورتحال میں کسانوں نے احتجاج شروع کیا، اپنے مطالبات کیلئے روڈ بلاک کئے، ریلیاں نکالیں، احتجاجی مظاہرے کئے مگر سندھ حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ حکومتی بے حسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ کاشت کار اپنی زبوں حالی سے تھک ہار کر خود اپنے ہاتھوں سے اگائے ہوئے اناج کو خود ہی جلا نے لگے۔ ایسا ہی کچھ حال خیبر پختونخوا میں بھی رہا۔ یہاں کے کسانوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا کھیل کھیلا گیا اور کئی کاشتکار اپنی فصل نذر آتش کرنے پر مجبور ہوئے۔ بقول علامہ اقبال ؒ ع
؎ جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
کئی کاشت کارو ں نے توگنے کے کھیتوں کو ہی آگ لگا کر من و عن اس شعر پر عمل کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت اس بات سے لاعلم تھی؟ یقیناً حکومت صورت حال سے آگاہ تھی لیکن دیدہ و دانستہ اس مسئلے کو حل نہیں کیا گیا۔ جب ہر چیز کے ریٹ بڑھ گئے تو پھر صرف گناکاشت کرنے والے کاشتکاروں کے ساتھ اتنی زیادتی کیوں ہوتی رہی ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ کسان جس قدر محنت و مشقت سے اپنے کھیت کھلیان آباد کرتے ہیں، ان کے پاس اتنی محنت کے بعد کیا بچتا ہے؟ اگر زمیندار کو اس کی محنت کا معاوضہ ہی نہ ملے تواس کا اسے کیا فائدہ؟ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہر حکومت ہمیشہ ہی کاشتکاروں اور کسانوں کا استحصال کرتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کسان ہی کیوں خسارے میں جاتا ہے؟ گنے کی کاشت پر آنے والے اخراجات اور اس سے ہونے والی آمدن کا جائزہ لیا جائے تووہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک ایکڑ میں کم و بیش 600 سے 800 من گنا نکلتا ہے، زمین کی تیاری میں فی ایکڑ تقریبا ً10 ہزار روپے خرچ آتا ہے، ایک ایکڑ کے لئے ایک ڈی اے پی بوری درکار ہوتی ہے جس کی قیمت 3600 روپے ہے، آٹھ سے10 بوری نائیٹروجن یوریا ڈالی جاتی ہے جو فی بوری 1850 روپے ہے یعنی10بوریاں 18,500 روپے کی آتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فی ایکڑ بیج تقریباً 20 ہزار روپے کا ہے۔ فصل لگانے سے لے کر فصل اترنے تک کا خرچہ پیسٹی سائیڈ اور کم از کم 4 بار گوڈی کا خرچہ فی ایکڑ 20 ہزار روپے آتا ہے۔ فصل تیار ہونے کے بعد فی من 15 سے 20 روپے تک کٹائی کی مزدوری ہوتی ہے۔ قریب سے قریب تر شوگر مل کو بھی دیا جائے تو 16 سے 18 روپے فی من ٹرانسپورٹ کا خرچہ آتا ہے۔ 10من گنے سے ایک من چینی نکلتی ہے اور چینی کا نرخ تقریباً75 سے80 روپے فی کلو ہے۔گنے کا ریٹ 182 روپے فی من مقرر ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس قدر اخراجات کے بعد دہقان کوکیا حاصل ہوتا ہے۔ بیج لگانے سے گنے کی کٹائی تک کی مدت 18 ماہ ہے،آدھی فصل کسان جبکہ آدھی زمیندار کے حصے میں آتی ہے۔ یعنی پورے ڈیڑھ سال کے انتظار کے بعد خرچہ نکال کر زمیندار خالی ہاتھ ہی رہتا ہے۔ کسانوں کے بچے بھوکے مر رہے ہیں،کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔ کیا یہ کسان اور زمیندار کا استحصال نہیں کہ وہ پورے ڈیڑھ سال تک ایک فصل پر دن رات محنت کریں، موسموں اور دیگر حشرات و امراض سے بچانے کی سو تدبیریں کرتے ہیں تاکہ کسی طرح ان کی روزی روٹی بچ جائے جو بچتی نہیں؟ جوکاشت کار زمینیں آباد کرتے ہیں ا ن کے بچے دن رات بھوکے پیاسے تپتی، چلچلاتی دوپہروں میں زمین پر کام کرتے ہیں۔ کبھی اگر ہم لوگ تپتی دوپہروں کی گرمی کچھ دیر برداشت کر کے دیکھیں تو یقیناً ہمیں دن میں تارے نظر آنے لگیں اور اگر اتنی محنت و مشقت کے بعد بھی آخر میں ان کے حصے میں کچھ نہ آئے تو ان کے دل پر کیا بیتے گی؟ پاکستان میں زراعت کا شعبہ اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے، زرعی ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ہر چیز کے ریٹ دوگنا بڑھ گئے ہیں مگر گنے کے ریٹ پچھلے سات سال پرانے والے ہی مقرر کیے گئے جب کہ گزشتہ سات سالوں میں مہنگائی میں50 فیصد سے بھی زائد اضافہ ہوچکا ہے۔ 2017 میں حکومت نے گنے کا ریٹ 160 روپے من مقرر کیا تھا مگر سندھ کی شوگر ملوں نے زمینداروں کوگنے کا ریٹ 130 روپے من دیا اور کہا کہ 30 روپے بعد میں دیں گے جو آج تک نہیں دیے گئے۔کچھ ملوں نے تو اصل رقم بھی زمیندارو ں کو اب تک نہیں دی۔ یہ زمینداروں کا استحصال نہیں تو اور کیا ہے؟گویا حکومت کے ساتھ ساتھ شوگر ملز مالکان بھی زمینداروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں اور رہی سہی کسر حکومت نے مہنگائی سے پوری کررکھی ہے۔ زراعت کا شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے مگر حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے ہماری زراعت بھی زوال پذیر ہوچکی ہے۔ پاکستانی معیشت کو سب سے زیادہ نقصا ن ہمارے سیاسی زعماء نے پہنچایا ہے جنہیں معیشت کی بدحالی کی کوئی فکر نہیں۔ ان سیاست دانوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی سے فرصت ملے تو وہ ملک کے حقیقی مسائل پر دھیان دیں۔ محترم سعداللہ شاہ نے اپنے ایک کالم میں ایک بار لکھا تھا کہ عمران خان کی باتیں اب تک کانو ں میں رس گھولتی ہیں۔ واقعی رس ہی گھولتی ہیں مگر اب بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سن سن کر غریبوں کے کان بھی لہو لہان ہو چکے ہیں۔ خدارا !اب توکسان کو اس کا حق دینے کی تدبیر نکالیں! یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقتدار کا نشہ شاید ایسا ہی ہوتا ہے کہ جو بھی مسند اقتدار پر براجمان ہوتا ہے ہمارا خدا بن بیٹھتا ہے، اسے عوام کی فکر نہیں رہتی بلکہ وہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے ہی اقدامات کرنے لگتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے زمینداروں اور کسانوں کے مسائل بھی حل کرنے کی راہ نکالے، جب ملکی پیداوار بڑھے گی تو معیشت بھی مضبوط ہو گی اور عوام بھی خوشحال ہوںگے اور ہمیں کسی عالمی مالیاتی ادارے کا دست نگر نہیں ہونا پڑے گا۔
؎ذرا سوچو کہ محشر میں
کھلے گا نامہ اعمال کا دفتر
بدی اور نیکیوں کا بھی
حساب اک دن تو ہونا ہے
ذرا سوچو خدا کو بھی
جواب اک دن تو دیناہے
حساب اک دن تو دینا ہے