تحریر:روخان یوسف زئی

پختونوں کی زبان، ادب اور موسیقی کی تاریخ بہت قدیم ہے.چند سال پہلے کوئی حجرہ بغیر رباب گھڑا، ڈھول، اور ستار کے مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا.ناچ کے لیے ڈھول کا خصوصی انتظام ہوتا ہے، کیوں کہ بغیر ڈھول کے ”اتھن” نامکمل سمجھا جاتا ہے


آثار قدیمہ سے برآمد ہونے والے بے شمار نمونوں کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ پشتو موسیقی اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود پختون قوم کا اپنا وجود۔ مثلاً 2000 قبل از مسیح کے دور پر دلالت کرتی ہوئی پشتو لوک شاعری کی مقبول ضف ”ٹپہ”جسے مصرعہ اور لنڈئی بھی کہا جاتا ہے میں کہا گیا ہے


سپوگمیہ کڑنگ وھہ را خیجا
یار می د گلو لو کوی گوتے ریبینہ

(اے چاند جلد نکل آ میرا محبوب پھولوں کی کٹائی کرتے ہوئے درانتی سے اپنی انگلیاں کاٹ رہا ہے) مستند تاریخ اور تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ مذکورہ ”ٹپہ” میں آریا دور کے اس پھول کا ذکر کیا گیا ہے جس پھول کا نام ”سوما” تھا اور اس کے رس کو آرین مختلف مشروبات میں استعمال کرتے تھے۔ چوں کہ دن کی روشنی میں اس کی کٹائی اس لیے نہیں ہوسکتی تھی کہ سورج کی تیز رو شنی اس پھول میں موجود ”شیرا” متاثر کرتی تھی۔ پختونوں کی زبان، ادب اور موسیقی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ اب جہاں تک پشتو موسیقی یا ناچ گانے کا تعلق ہے تو اسے جاننے اور سمجھنے کے لیے اور اس سے کماحقہ لطف اندوز ہونے کے لیے محض پشتو زبان کا سمجھ لینا ہی کافی نہیں جب تک اس کے روزمرہ اور بولنے برتنے والوں کے اجتماعی مزاج، نفسیات اور کردار سے واقفیت حاصل نہ کی جائے اور جن مخصوص جغرافیائی ، سیاسی، معاشرتی اور معاشی حالات میں اس زبان کا مزاج سمویا جاتا ہے، اس کا لب و لہجہ ڈھلتا ہے، اس کے بولنے والوں کی مخصوص ذہنیت اور طبیعت کی ساخت پرداخت ہوتی ہے جب تک یہ سب باتیں پوری طرح ذہین نشین نہ کر لی جائیں، پشتو ادب، موسیقی، ملی ناچ، اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں سے محظوظ ہونے کی تمام کوششیں بے سود رہیں گی۔ من حیث القوم پختون گانے بجانے کے اتنے ہی شوقین ہیں جتنی کوئی اور قوم، بل کہ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو دلچسپی کے دیگر اسباب یہاں بہت کم ہیں پھر مذہبی اور دیگر روایتی پابندیوں کی وجہ سے پختونوں میں اوروں کی نسبت اس طرف کچھ زیادہ ہی شغف پایا جاتا ہے۔ شادی بیاہ، رسم، تہوار، میلہ کوئی موقع ایسا نہیں جہاں اس کے خوب چرچے نہ ہوتے ہوں۔آج سے چند سال پہلے کوئی حجرہ بغیر رباب گھڑا، ڈھول، اور ستار کے مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔پختونوں کی ساری معاشرتی زندگی گانے بجانے کے ان گنت مواقع سے بھری ہوئی ہے لیکن یہ تعلق سطحی ہے عمیق نہیں، رسمی ہے علمی نہیں، فن کے طور پر موسیقی کو شوقیہ طریقے سے برتنا دل بہلاوے کا ذریعہ سمجھ کر اس سے عملی دلچسپی لینا قدیم رواج کے مطابق اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا مگر اب زمانہ بدل گیا ہے اور اچھے اچھے معزز گھرانوں سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوان اور دوشیزائوں نے موسیقی کو شوقیہ طریقے کے ساتھ ساتھ ایک روزگار کے طور پر بھی اپنایا ہے۔ پشتو موسیقی کی ان گنت شکلیں اور پہلو ہیں اور ان تمام قسموں اور پہلوؤں پر لکھنے کے لیے ایک مضمون نہیں بل کہ کئی کتابیں درکار ہیں یہاں صرف پختونوں کے ملی ناچ کی چند اقسام پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے.

پختونوں میں ملی ناچ کب اور کیسے رواج پایا؟ اس سلسلے میں مورخین کسی ایک بات پر متفق نہیں۔اگر ان کی نسلی تاریخ کے حوالے سے یہ بات مان لی جائے کہ پختون سامی النسل یاآرین ہیں جو سنٹرل ایشیاء سے آئے ہیں تو ظاہر ہے کہ اپنے ساتھ وہاں کے ناچ گانے بھی ساتھ لائے ہوں گے جہاں یہ قوم پہلے آباد تھی خواہ وہ مصر ، بابل یا سنٹرل ایشیاء ہو۔ جیسا کہ علی عباس جلالپوری اپنی کتاب ”رسوم القوام” میں لکھتے ہیں، ”برصغیر کے لوک ناچ بڑے دلچسپ ہیں ان میں مختلف موسموں اور جذبوں کی عکاسی کی جاتی ہے ہمارے ہاں بھنگڑا پنجاب اور خٹک ڈانس صوبہ خیبرپختون خوا کے معروف مردانہ ناچ ہیں جو ازبکوں ،کرغیزوں اور قزاقوں کے ناچوں سے ملتے جلتے ہیں”۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ناچ کے ضمن میں پختونوں میں بہت تنوع پایا جاتا ہے کیوں کہ جتنے بھی چھوٹے بڑے قبیلے ہیں ہرایک کا اپنا اپنا مخصوص ناچ ہے جو ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ مثلاً وزیر محسود کا ناچ بیٹنی قبیلے کے ناچ سے بالکل مختلف ہے، خٹک اور بیٹنی قبائل ناچ میں بڑی تیزی کے ساتھ مڑتے ہوئے واپس آکر ایک ہی جگہ پر گھومتے ہیں دوسری جانب وزیر اور محسود ناچ کے دوران صرف اپنا سر گھماتے اور تھرکتے ہیں باقی وجود کو کوئی خاص تیز حرکت نہیں دیتے۔

اسی طرح مروت، یوسفزئی، خلیل، مومند، آفریدی اور اورکزئی قبیلے کے ناچ کے اپنے اپنے طور طریقے اور اصول ہیں لیکن ان تمام ملی روایتی ناچوں میں سب سے زیادہ شہرت” خٹک ڈانس” کو حاصل ہے اور اس شہرت یا مقبولیت کے اپنے چند اسباب اور عوامل ہیں۔اس ضمن میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ خٹک ڈا نس کو پوری دنیا میں شہرت کے بام تک پہنچانے کا سہرا ان انگریز فوجی افسروں کے سر ہے جنہوں نے اپنی فوج میں بھرتی کئے ہوئے خٹک قبیلے کے نوجوانوں کو ناچتے ہوئے دیکھ کر ”خٹک ڈانس” کی اصطلاح عام کردی چوں کہ خٹک ایک ایسے خطہ زمین پر آباد ہیں جہاں کھیتی باڑی کرنے کے مواقع بہت کم ہیں۔ تجارت کے مراکز یعنی شہروں سے دور خشک و بے آب و گیاہ پہاڑی علاقے میں آباد ہونے کی وجہ سے خٹک قبیلہ کے اکثر نوجوان زمانہ قدیم سے فوج میں بھرتی ہوتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج میں اس قبیلے کی اکثریت سے خٹک ناچ کو بھی زیادہ شہرت ملی۔ ویسے بھی خٹک قبیلہ ناچ گانے کا بہت زیادہ شوقین ہے۔

بیلے کا ہر فرد جس وقت ڈھول کی تھاپ سنتا ہے چھوٹے بڑے دوڑ دوڑ کر اس تھاپ تک پہنچنا چاہتے ہیں اور صرف تھاپ سننے یا ڈھول دیکھنے پر اکتفا نہیں کرتے بل کہ ان کی تسکین تب ہو جاتی ہے جب وہ خود میدان میں کود پڑتے ہیں۔ اس وجہ سے خٹک قبیلہ کے متعلق طرح طرح کے قصے کہانیاں بھی مشہور ہیں کہ” ڈھول کی آواز کہیں دور پہاڑ سے آتی ہے اور خٹک اپنے گھر میں ناچتا ہے” یا ”خٹک ڈھول کی آواز سن کر بے خود اور بے قابو ہو جاتا ہے”۔ خٹک قبیلے کے ملی ناچ، خٹک ڈانس کا اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو ظاہر ہو جائے گا کہ یہ صرف تفریح طبع کے لیے نہیں بل کہ تاریخی پس منظر کے حوالے سے ایک مکمل عسکری تربیت ہے۔ خٹک نوجوان ایک دائرے میں کھڑے ہو جاتے ہیں، ہاتھوں میں تیز چمک دار تلواریں، دائیں ہاتھ میں تلوار اور بائیں ہاتھ میں ڈھال کبھی کھبار ڈھال کی جگہ دونوں ہاتھوں میں تلواریں ہوتی ہیں۔ اگر شام کے بعد کا وقت ہو تو دائرے کے بیچ میں جلنے والی آگ کے شعلوں کے نزدیک ڈھول بجانے والے اور ناچ میں حصہ لینے والے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جس وقت ڈھول بجانے والے ایک مخصوص تال میں ڈھول بجانا شروع کر دیتے ہیں، دائرے میں کھڑے نوجوان تلواروں کی چمک دکھا کر اپنی جگہ پر گھومنا شروع کردیتے ہیں اور میدان میں کود پڑتے ہیں۔ جوش و خروش کے عالم میں زور زور سے آوازیں لگانا بھی شروع کر دیتے ہیں اس مخصوص حرکت کا آغاز آہستہ آہستہ ہوتا ہے لیکن اچانک ہاتھ اوپر ہو جاتے ہیں اور ڈھول کے سامنے ایک مخصوص لے و آہنگ کے ساتھ ناچنے والے کبھی آگے اور کبھی پیچھے چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ درمیان میں اپنی جگہ پر کبھی کبھار اٹھتے بیٹھتے بھی ہیں، آہستہ آہستہ ایک دائرے میں گھومنے کا اضافہ بھی ہو جاتا ہے آگ یا شعلوں کے ساتھ قریب کھڑے ہو کر ڈھول بجانا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ قبیلے کو کہیں عسکری مسئلہ درپیش ہے ڈھول کی آواز سن کر قبیلے کے نوجوان دوڑ دوڑ کر اپنی اپنی تلوار اور ڈھال ہاتھ میں لیے فوراً قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔

ناچنے والے گروپ کا سربراہ ہاتھ میں اپنی تلوار گھماتے ہوئے آگے آتا ہے، قطار میں کھڑے نوجوان بھی اس کے جواب میں اپنی تلواریں لہراتے ہیں اور آگے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ڈھول اپنے سر تال میں بجتا ہے سربراہ (انسٹرکٹر) اپنی فوج پر نظر دوڑاتا ہے کہ لشکر اسلحہ سے لیس ہے یا نہیں اور جب وہ اپنا اطمینان کرلیتا ہے تو نیام سے اپنی تلوار نکال کر زور دار آواز لگاتا ہے اس کے بعد ہاتھوں میں ڈھال اٹھائے ہوئے نوجوان تیزی سے دوڑ کر دائرے میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ دوڑ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ لشکر اپنے دشمن پر حملہ کرنے کی غرض سے داخل ہو گئی ہے اس کے بعد آہستہ آہستہ ناچنا شروع کر دیتے ہیں ہاتھوں میں اٹھائی ہوئی تلواریں چمکنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ ڈھول کی تھاپ اور گیت کے بول ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں جو مقابلے اور جنگ کا ایک خطرناک مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔ ویسے تو ہر قبیلے کا اپنا اپنا روایتی ناچ ہے لیکن جتنی بے خودی یا خود فراموشی خٹک ناچ میں پائی جاتی ہے دیگر قبیلوں کے ناچ اس سے عاری ہیں یہ تو ہوہی نہیں سکتا کہ جہاں شادی بیاہ یا کسی اور خوشی کے موقع پر خٹک قبیلے کے افراد جمع ہو ں وہاں خٹک ناچ نہ ہو۔

پختونوں کا دوسرا سب سے قدیم اور مشہور ملی ناچ ”اتھنڑ” (اتھن) ہے جو زمانہ حال کی ثقافتی اور تہذیبی یلغار اور تبدیلی کی وجہ سے معمولی ردوبدل کے ساتھ آج بھی خیبرپختون خوا، بلوچستان اور بالخصوص افغانستان میں پیش کیا جاتا ہے۔ اتھن میں بہت سے افراد مل کر ایک بڑے دائرے کی شکل میں ناچتے ہیں۔ ناچ کے لیے ڈھول کا خصوصی انتظام ہوتا ہے کیوں کہ بغیر ڈھول کے” اتھن” نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ اتھن میں عموماً نوجوان طبقہ شامل ہوتا ہے مگر پختہ یا ادھیڑ عمر کے افراد بھی اپنے جذبات سے بے قابو ہوکر اتھن میں حصہ لیتے ہیں۔ اتھن درحقیقت ایک قسم کی جنگی مشق ہے آج بھی اگر اتھن میں شامل افراد کی حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ ایک قسم کی باقاعدہ اور منظم پریڈ اور اسلحہ رانی بالخصوص شمشیر زنی کی مشق ہے اس میں ہاتھ پاؤں، سر اور گردن کی تیز تیز حرکات، آگے جھکنا یا دائیں بائیں مڑنا اور ایسے ہی موقع بہ موقع ادھر ادھر آگے پیچھے کی جنش، تیزی سے آگے بڑھنا اور پھر اسی تیزی سے پیچھے مڑنا جھپٹنا، لپکنا، بیٹھنا، پھینترا بدلنا دراصل ”لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ”سے کم نہیں۔ اس طرح تیزی سے اٹھ کھڑے ہونا اور اپنی کلائیوں کو گھمانا، دشمن پر وار کرنے کی ایک تربیت ہوتی ہے جو کہیں حملہ اور کہیں بچاؤ کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ساتھ مختلف اوقات میں مختلف قسم کی زور دار اور گرج دار آوازیں بھی ایک ساتھ منہ سے نکالی جاتی ہیں جو عموماً دشمن پر حملہ کے وقت اپنی قوت کے اظہار اور دشمن کو مرعوب و خوفزدہ کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اتھن سے ایک تو جنگی صلاحیت و مہارت حاصل ہوتی ہے، دوسرا نوجوانوں کو چاق و چوبند رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ فرصت کے اوقات میں نوجوان اپنے گھروں ، حجروں،اور کھیتوں کھلیانوں سے نکل آتے ہیں اور اتھن کے ذریعے کھیل اور تفریح طبع کے ساتھ ساتھ ورزش، پریڈ اور جنگی مشق بھی کر لیتے ہیں۔


پاکستان کے بعض قبائل آج بھی ہاتھ میں تلوار لیے اتھن کیا کرتے ہیں کہیں کہیں تلوار کی جگہ لمبی لمبی چھریاں یا پیش قبض بھی ہاتھ میں اٹھا کر ناچ میں حصہ لیا جاتا ہے۔ خصوصاً شادی بیاہ کے موقع پر جو اتھن پیش کیا جاتا ہے اس میں نوجوان ہاتھ میں تلوار، لکڑی کا ٹکڑا یا ہاتھ میں رومال ضرور اٹھاتے ہیں اس کے علاوہ خالی ہاتھ اتھن ناچنے کا رواج بھی پایا جاتا ہے جس میں شریک نوجوان دائرے کی شکل میں گھومتے وقت ایک ساتھ جھک کر تالی بجاتے ہیں۔ اتھن کی اس قسم کو پشتو میں ”دطالبانوا تنڑ” ( طالب علموں کا اتھن)کہا جاتا ہے جو آج سے کئی سال پہلے صوبہ سرحد کے اکثر علاقوں میں نوجوان طالب علم جو سفید کپڑوں میں ملبوس ٹولیوں کی شکل میں دینی علم کے حصول کی خاطر گاؤں گاؤں پھرتے رہتے تھے، کبھی کبھار تفریح طبع کی خاطر آپس میں ”اتھن” ناچتے تھے یہاں تک کہ مسجد کے صحن میں بھی ”اتھن” کیا کرتے تھے مگر ڈھول ڈھماکے کے بغیر۔ ان میں دو چار طالب علم اتھن کے مخصوص اشعار خوش آوازی سے گاتے اور باقی کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے اور منہ سے باقاعدہ ڈھول اور رباب کی آوازیں نکالتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گول دائرے کی شکل میں ناچتے تھے۔ یہ ناچ بھی قریب قریب عام” اتھن” کا سا ہی ہوتا ہے مگر خصوصی طور پر طالب علموں کا ناچ (د طالبانو اتھنڑ) کہلاتا ہے۔ آج بھی افغانستان کے بعض دور دراز علاقوں میں ”طالبان اتھن” کا رواج موجود ہے۔

اس طرح گھروں میں عورتوں کی ملی” اتھن” بھی کسی زمانے میں بہت مشہور تھا جب کہ آج خال خال ناچا جاتا ہے۔ عورتوں کا اتھن گھر کے اندر ہوتا ہے جن میں ہر عمر کی لڑکیاں، عورتیں سب ایک جگہ جمع ہوکر حصہ لیتی ہیں۔ ان میں ڈھول بجانے والی کوئی ماہر عورت ڈھول کی آواز کے ساتھ” اتھن” کے چند مخصوص بول بھی بولتی ہے۔ آہستہ آہستہ گول دائرے کی شکل میں عورتیں جمع ہو کر ناچنا شروع کر دیتی ہیں۔ گیت گانے کے علاوہ اتھن کے دوران دونوں ہاتھوں سے تالیاں بھی بجاتی ہیں۔ اس اتھن کی ایک منفرد خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ دوشیزہ اس اتھن کے لیے اپنی زلفوں پر خوب تیل، ہاتھوں اور پاؤں پر مہندی لگا کر آبلہ پا ”اتھن” میں حصہ لیتی ہے۔ اس موقع پر عورتیں خاص قسم کے بول بولتی ہیں۔ پہلے زمانے میں اس قسم کے” اتھن” میں مخصوص بول بولنے والی دو فنکارائیں بہت زیادہ مشہور تھیں جن میں ایک کا نام گل اندامہ اور دوسری فنکارہ کا نام حسن جمالہ تھا اور دونوں کا تعلق وزیر قبیلے سے تھا۔ پاوندے جو افغانستان کا ایک خانہ بدوش قبیلہ ہے جن کا تعلق سلیمان خیل قبیلے سے ہے اور غلزئی (پشتو میں غلجئی ) کہلاتے ہیں عرف عام میں وہ ”کوچی”یا ”کوچیان” کے نام سے بھی جانے اور پکارے جاتے ہیں۔ ہر سال جب موسم سرما میں ان کے ہاں برف باری اور کڑاکے کی سردی شروع ہوجاتی ہے تو وہ پاکستان کا رخ کرلیتے ہیں اور پورا موسم سرما پاکستان میں گزار کر گرمی آتے ہی واپس لوٹ جاتے ہیں۔ ان کی مادری زبان پشتو ہے لیکن ان کا لہجہ دیگر پشتو بولنے والوں کے مقابلے میں معمولی سا کرخت اور مختلف ہے اس قبیلے کے اپنے مخصوص لوک گیت ہیں۔ بعض شادی بیاہ کی رسمیں بھی منفرد اور بڑی دلچسپ ہیں ان کے المیہ یا ماتمی گیت بڑے موثر اور درد ناک ہوتے ہیں مثلًا
(ترجمہ) اپنا خوبصورت جھالروں والا رومال لے لو
اے رومال والے (دولہا) کی ماں
یہ تیرا رومال سدا بہار رہے
گیت کے یہ بول منگنی کے موقع پر لڑکے کی رشتہ دار خواتین اس وقت بار بار گاتی ہیں جب کہ وہ ایک بڑے تھال میں شیرینی لیکر منگیتر کے گھر جاتی ہیں یہ تھال ایک خوبصورت رومال سے ڈھکا ہوتا ہے لڑکی کے ہاں پہنچ کر تھال فرش پر رکھ دیتی ہیں اور لڑکے کی ماں بہنیں اور دوسری رشتہ دار عورتوں کو حلقے میں لے کر ترنم کے ساتھ مختلف گیت گاتی ہیں ۔ ان پاوندو (خانہ بدوش) کا ”اتھن” بھی بہت مشہور ہے جس میں مرد الگ اور عورتیں الگ ناچتی ہیں اتھن شروع کرتے وقت ڈھول کی تھاپ پر پہلے دایاں ہاتھ اوپر کرتے ہوئے آگے قدم بڑھاتے ہیں پھر بایاں ہاتھ اوپر کر کے چند قدم پیچھے آتی ہیں۔ عورتوں کے اتھن میں ڈوم (میراثی) نہیں ہوتا۔ پتنوس (مجمہ) دیگچی، کھیتلی یا تانبے کی بنی ہوئی پلیٹ بجائی جاتی ہے۔ مرد بندوق ہاتھ میں اٹھائے ریشم کی قیمض پہن کر اتھن کیاکرتے ہیں۔ خانہ بدوشوں کی اتھن جنوبی وزیرستان اور افغانستان سرحد پر ”کنڈی غر” وغیرہ سے لیکر زابل ، پکتیا، ننگرہار، بلخ قندوز اور جوزجان تک آج بھی موجود ہے۔

پکتیا کا اتھن


اس میں عورتیں چاروں طرف چکر کاٹتی ہیں پہلے زمین پر بیٹھ جاتی ہیں درمیان میں ڈھولک بجانے والی عورت کھڑی ہوتی ہے پھر ڈھولک کی تیزی کے ساتھ ہر عورت اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوتی ہے اس طرح ننگرہار کی عورتوں کا اتھن بھی تقریباً پکتیا کے اتھن جیسا ہی ہے جس میں شریک عورتیں پاؤں میں گھنگھرو یا پازیب ضرور پہنتی ہیں۔ اتھن کے دوران ایک دوسرے کے کان میں ”کانہ پوسی” کے انداز میں اپنے سروں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر واپس اپنی جگہ آجاتی ہیں۔ دوران اتھن ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملا کر تالیاں بھی بجاتی ہیں۔ اتھن میں حصہ لینے والی تمام عورتیں لمبے لمبے لباس میں ملبوس ہوتی ہیں۔ افغانستان کے صوبہ پکتیا میں مرد بھی درہ خیبر کے نوجوانوں کی طرح ہاتھ میں بندوق اور کمر کے ساتھ چھریاں آویزاں اتھن کرکے ناچتے ہیں۔ بالوں پر خوب تیل لگا کر اور آنکھوں میں سرمہ ڈال کر اتھن میں شریک ہوتے ہیں جب اتھن گرم کر لیتے ہیں تو مناسب موقع پر بندوق سے فائر بھی کرتے ہیں۔

اس طرح علاقہ تیراہ کے رہنے والوں کا اپنا اور صوبہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آباد پختونوں کے مختلف قبیلوں کا اپنا اپنا اتھن اورروایتی ناچ ہے جس میں کاکڑوں کا اتھن بہت زیادہ مشہور ہے۔ قبیلہ کاکڑ میں جب کسی میلے، تہوار یا کسی دوسری خوشی اور رسم کے موقع پر عورتیں اپنے مردوں کے ساتھ اتھن میں حصہ لیتی ہیں تو اپنی اپنی کمر خم کرکے تمام مرد اور خواتین آگے بڑھتے ہیں۔ ایک جگہ ڈھول کی تھاپ پر جوڑے جوڑے کی شکل میں آتے ہیں اور پیچھے چلے جاتے ہیں۔ یہ اتھن تقریباً دو گھنٹوں کے بعد گرم ہوتا ہے۔ پختونوںکے مختلف قبیلوں کا قدیم روایتی ناچ اتھن شروع شروع میں جنگی قسم کی ورزش ہی تھی جیسے ہندوستان میں بانک، ٹپہ، بنوٹ وغیرہ جس کے مخصوص پنترے ہوتے تھے، اپنی قوم کے نوجوانوں میں جنگی مہارت کا شوق پیدا کرنے کے لیے اسے باجے گاجے کے ساتھ زیادہ دلکش بنا دیا گیا جو ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے بعد میں ایک مکمل رقص بن گیا جس کی مخصوص ادا ، طرز،اور مخصوص دھن بھی بن گئی۔ افغانستان میں مردوں کے علاوہ عورتیں بھی اس رقص میں اپنے اپنے علیحدہ گروپ بنا کر یا تو مردوں کے ساتھ مل کر شرکت کرتی ہیں یا ان سے الگ اتھن کیا کرتی ہیں۔ وہاں عورتوں کے علیحدہ اتھن کو” ایشلہ” اور مشترک اور مخلوط اتھن کو ”گنڑ اتھن” (مشترکہ اتھن) کہا جاتا ہے۔ صوبہ سرحد میں مخلوط رقص کا رواج آج کل تقریباً ختم ہو چکا ہے البتہ مردوں میں اب بھی کہیں کہیں اتھن اور بھنگڑا ڈالنے کا رواج پایا جاتا ہے۔

بھنگڑا، شاڈولہ اور بلبلہ یہ تینوں قسم کے ناچ تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ اتھن یا خٹک ناچ سے ملتے جلتے ہیں مگر یہ تینوں ناچ ایسے ہیں کہ عورتیں گھر کے اندر مل کر اور مرد باہر کسی بڑے حجرے یا میدان مل کر ناچتے ہیں۔ بعض علاقوں میں اب بھی اس طرح کے اتھن کا رواج پایا جاتا ہے تاہم بہت کم کم۔ ایک زمانے میں اس کے علاوہ ایک اور قسم کا ناچ بھی بہت عام تھا جس کو ”لختئی” کہا جاتا ہے۔ ”لختئی” اس خوبصورت لڑکے کو کہا جاتاتھا جس کے سر پر لمبے پھٹے چوڑے ہوتے تھے اور جو شادی بیاہ اورکسی خاص موقع پر ڈوموں کے ساتھ ناچتے تھے ان میں بعض خوش آواز بھی ہوتے تھے جو گا بھی لیتے۔ شہروں میں ڈوم (میراثی) عموماً اس قسم کے ایک دو لڑکے ضرور رکھتے تھے، ناچتے وقت وہ رنگ دار (اکثر سرخ رنگ کی) گھومدار شلوار اور مخمل کی لوس لگی ہوئی واسکٹ پہن کر ننگے سر ناچتے تھے جس میں سر کو جھٹکے دے دے کر بالوں کو خاص انداز میں لہراتے بھی تھے۔ تحصیل سرائے نورنگ اور کوہاٹ میں اب بھی ”لختیوں” کے نچانے کا رواج موجود ہے۔ پشاور میں لختئی کا رواج اب نہیں رہا۔ پشتو زبان میں لختئی لمبی پتلی اور لچک دار چھڑی کو کہتے ہیں۔ پختونوں میں ”لختئی” نچانے کا رواج شاید ہندوستان سے آیا ہو کیوں کہ قدیم ہندوستان اور کشمیر کے لوگ جو رقص اور نقالی کے ماہر تھے ان کے طائفوں میں اکثر اوقات کچھ اداکار قسم کے لوگ ہوتے تھے جن میں ایک خوبصورت لڑکا بھی ہوا کرتا تھا جس کے بال کمر تک لٹکتے اور پاؤں میں گھنگرو باندھ کر ناچتا۔ لختئی پر اردو زبان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز نے ایک خوبصورت نظم بھی لکھی ہے جو لختئی کو جاننے اور اس سے کماحقہ واقف ہونے کے لیے یہاں درج کی جاتی ہے

ادھ کٹے بالوں پہ افشاں کے ستارے لرزاں
کھردرے گالوں پر غازے کی تہیں ہانپتی ہیں
سرو و بے جان سے چہرے پر تھرکتی آنکھیں
جسے مرگھٹ میں چراغوں کی لویں کانپتی ہیں
ٹوٹتے جسم میں لہرانے کی ناکام امنگ
کسی سوکھی ہوئی ٹہنی کا جھکاؤ جیسے
لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کی سبک رفتاری
خشک ہوتی ہوئی ندی کا بہاؤ جیسے
رقص کرتی ہوئی پشواز پہ باہوں کی اڑان
بادباں جس طرح گرداب میں چکراتے ہیں
یا کسی جھیل میں کنکر کے گرا دینے سے
چند لمحوں کے لیے دائرے لہراتے ہیں
گرد آلود سے ماتھے پر پسینے کی نمی
رہگزاروں سے عرق پھوٹ رہا ہو جیسے
جھنجھاتے ہوئے ہر گام پہ پہلے گھنگرو
دور اک شیش محل ٹوٹ رہا ہو جیسے
زندگی بال فشاں جان بلب خاک بدرخ
منجمد سائن و حیران ہیولے کی طرح
چند تانبے کے تراشے ہوئے سکوں کے عوض
ڈھول کی تھاپ پر رقصاں ہے بگولے کی طرح

ڈومبکے


منہ سے ڈھول یا دف کی آواز نکالنا، بعض اشخاص کو اس کام میں خاصی مہارت حاصل ہوتی ہے نوجوانوں کا مل کر اتھن یا اور کوئی قومی ناچ ناچتے وقت کھڑے کھڑے منہ سے ”ڈومبکے” یا ”غومبر” کی آواز نکالنا جو تالیوں کی آواز کے ساتھ مل کر بالکل دف کی سی لگتی ہے۔ غومبر بھی اجتماعی طور پر نوجوانوں کے ناچتے وقت تالیوں کے ساتھ ساتھ منہ سے ڈھول یا دف کی سی آواز نکالنا اور بعض کا منہ سے ایک خاص قسم کی آواز سے پتلی پتلی آوازوں کے ساتھ چیخنا، یہ تمام باتیں مجموعی طور پر غومبر کہلاتی ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ٹیپ ریکارڈ یا ڈیگ وغیرہ اتنے عام نہیں تھے جب کہ آج کل اکثر نوجوان پکنک پر جاتے وقت اپنے ساتھ ریکارڈر یا ڈیک بھی لے جاتے ہیں جہاں لوگ سازوں پر مبنی کیسٹ لگا کر ناچ گانے کا شوق پورا کرتے ہیں۔ اس طرح اب اکثر شادی بیاہ کے موقع پر عورتیں بھی ٹیپ ریکارڈر یا ڈیک لگا کر اتھن، بھنگڑا اور شاڈولہ ناچتے ہیں تاہم پرانے زمانے کی نسبت آج کل جدید میوزک اور نئے نئے پشتو اور انڈین گیتوں پر مبنی کیسٹس لگاکر اس کے ساتھ ناچتی ہیں۔بہرکیف پختونوں کے اپنے قدیمی لوک ناچ کی اہمیت ضرورت اور افادیت اپنی جگہ لیکن انہیں آج اپنے اردگرد ماحول اور دنیا میں رونما ہونے والی سیاسی اور تہذیبی تبدیلیوں کا بھی کچھ نہ کچھ احساس اور ادراک ہونا چاہئے کیوں کہ زمانہ آج برق رفتاری سے بدل رہا ہے۔ صدیوں کے فاصلے گھنٹوں اور منٹوں میں سر ہو رہے ہیں ہر طرف سائنس ٹیکنالوجی اور انفارمیشن کا دور دورہ ہے عالمگیریت دنیا کے ہر خطہ زمین کی طنابیں کھینچ رہی ہے اور اس کھینچا تانی میں ایک عالمگیر تہذیب اپنے پر پھیلا رہے ہیں جس کی وجہ سے نہ صر ف ایک عالمگیر ثقافت وجود میں آرہی ہے بل کہ قوموں کی اپنی شناخت اور پہچان کو بھی طرح طرح کے خطرات کا سامنا پڑرہا ہے اور ان خطرات کا مقابلہ تب ہی مکن ہے کہ پختون دانشور، عالم اور سیاست دان اپنے کلچر کے ان عناصر اور روایات کو اجاگر کرنا شروع کر دے جن میں بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ چلنے کی بھرپور طاقت موجود ہو۔ آج قوموں کی ترقی کا اصل پیمانہ یہ رہا کہ وہ دنیا کی تہذیب کی تعمیر اور ترقی میں اپنے حصے کا کردار کتنا اور کس حد تک ادا کر سکتا ہے؟ ہم چاہیں یا نہ چاہیں لیکن ہم پر ایک عالمگیر تہذیب کا سایہ جو کسی ”خونخوار بلا” کا بھی ہو سکتا ہے اور کسی خوبصورت” پری” کا بھی آج کی دنیا کی ایک معروضی اور اٹل حقیقت ہے اس لیے
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو ابھی انقلاب پیدا کر