اسلام آباد ( آن لائن)پبلک اکائونٹس کمیٹی میں وزارت ہائوسنگ کے صرف5 کیسز میں3 ارب سے زائد کی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے، چیئرمین کمیٹی نے معاملے میں ملو ث افسران کے خلاف کارروائی اور ان سے رقوم ریکور کرنے کا مطالبہ کر دیا ۔
،نیب کو اربوں کی بے قاعدگیوں کا نوٹس لینا چاہیے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ نیب کے افسران خود کروڑوں روپے کے گھروں میں رہتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق جمعرات کے روز چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کااجلاس ہوا۔اجلاس میں وزارت ہاؤسنگ کی جانب سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
کمیٹی نے طے شدہ معاہدے سے ہٹ کر ٹھیکے داروں کو 719 ملین روپے کی ادائیگی پر اظہار شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔
سیکرٹری ہائوسنگ نے بتایا کہ650ارب روپے سے زائد کے منصوبے شروع کئے ہوئے ہیں،ایک منصوبے کو اخوت کے تحت شروع کیا ہوا ہے،اخوت کے تحت فی گھر پانچ لاکھ روپے قرض دیا جارہا ہے،نیا پاکستان ہاؤسنگ سوسائٹی کا پہلا منصوبہ اپریل میں شروع ہوجائیگا،بینکوں کے ذریعے مورگیج فنانسنگ کی جارہی ہے۔
ہاؤسنگ سوسائٹی کیلئے اب تین ماہ کے اندر ہی اجازت دیدی جاتی ہے ،وزیر اعظم ہاؤسنگ کے حوالہ سے ہفتہ وار میٹنگ کررہے ہیں،تعمیراتی شعبے میں کام تیزی سے جاری ہے،حکومت نے ایک لاکھ گھروں کیلئے 650 ارب روپے مختص کیے،اب تک نجی شعبہ 830 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی دلچسپی دکھا چکا ہے،نصف بھی منظور کرلیں تو گھروں کی تعمیر کیلئے اچھا خاصا سرمایہ موجود ہوگا ،سیکرٹری ہائوسنگ نے مزید بتایا کہ اخوت نامی تنظیم نے اب تک آٹھ لاکھ گھروں کی تعمیر کیلئے ساڑھے تین ارب روپے کا قرض دیا ہے،کم لاگت کے گھروں کی تعمیر بھی اسی سال شروع ہوجاے گی۔
اس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ عوام کو سستے گھروں کی فراہمی کے منصوبے میں حکومت کی جانب سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا جارہا،جیسے ہی جے ویز آئیں وزارت نے اس پر کام شروع کردیا۔کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وزارت ہاوسنگ کے صرف پانچ کیسز میں 3 ارب 29کروڑ روپے کی بے قاعدگیاں ہوئی ہیں جس پر کمیٹی نے پی اے سی کا طے شدہ معاہدے سے ہٹ کر ٹھیکے داروں کو 719 ملین روپے کی ادائیگی پر اظہار برہمی کیا ہے اور کہا ہے کہ اس معاملے میں ملوث افسران کے خلاف تحقیقات کرکے سزا دی جائے اورقومی خزانے کو پہنچنے نقصان کا تخمینہ لگا کر رقوم ان افسران سے ریکور کی جائے ۔کمیٹی میں پی ڈبلیو ڈی کو ایک ارب 11کروڑ 19 لاکھ روپے کی اضافی ادائیگیوں کا معاملہ بھی زیر غور آیا ۔