مولانا خانزیب

ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دِیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو، دہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ
مانندِ بتاں پوجتے ہیں کعبے کے برہمن
فارسی کی ایک کہاوت ہے کہ پیراں نہ می پرند مریدان می پرانند۔ کچھ لوگ سوات میں دم درود کیلئے آنے والے ایک پیر صاحب کی وجہ سے سارے سوات کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ کس طرح ایک اجنبی شخص سے علاج کیلئے، جن کو لوگ جانتے بھی نہیں، ہر طرف سے لوگ امڈ آئے ہیں اور ہجوم کی وجہ سے جگہ جگہ ٹریفک بھی جام ہو گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذہبی توھم پرستی انسانی سوسائٹی کا ہزاروں سالوں سے حصہ ہے جس میں انسان کو اپنی روحانی تسکین کیلئے مافوق الفطرت صفات سے متصف کرنا مرنے کے بعد بھی پوجا کی حد تک ان سے عقیدت وابستہ کرنا شامل ہے۔


زمانوں سے دنیا میں مختلف تہذیبوں سے وابستہ انسان طرح طرح کے توہمات میں جکڑے ہوتے ہیں جبکہ اسلام نے اس انسانی عقیدت کی بت کو پاش کر کے اس کے کردار و سیرت سے جوڑنے کی تلقین کی ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہؐ فرماتے ہیں کہ میری قبر کو میرے بعد بت خانہ مت بنانا میں ایک انسان ہوں بس میری سیرت کی پیروی کرنا۔ اگر ہم پختون سوسائٹی کی بات کریں تو پختونوں کی اکثریت بھی اسی مذہبی توہم پرستی کا شکار رہی ہے اور پختون عقیدت کے اندھیروں میں بھٹکے ہوئے ہیں جس کی جڑیں ماضی بعید سے ملتی ہیں۔مزارات میں پڑے بڑے بڑے لوگ ہیں جن کے ساتھ محبت ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہے نہ کہ کسی زندہ یا مردہ کو الوہیت کے مقام پر لاکھڑا کرنا، پختونوں کی اجتماعی جہالت اور بے حسی کو دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ مذہب کے حوالے سے ہم کتنے اندھے ہیں۔ قرآن تو ہمیں تاکید کرتا ہے کہ ہر مسئلے میں تحقیق کر لیا کرو تقلید جامد سے بچتے رہنا مگر ہم کبھی پیر اخون درویزہ کے لشکر بن جاتے ہیں اور کبھی فرنگی کے جاسوس مسٹر لارسن (بغدادی پیر) کی طرح بیشمار پیروں کے مصنوعی کرشمے دیکھ کر گمراہ ہو جاتے ہیں۔ مذہب کے لبادے میں سوات سے لے کر باجوڑ اور وزیرستان سے لے کر قندھار و پکتیا تک اسلام کے نام پر پختونوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے مگر ہم مذھب کی آڑ میں اندھے تقلید و اتباع کے قائل ہو چکے ہیں جبکہ پیغمبر خدا کی اس حدیث کو بھول چکے ہیں کہ ایک مومن دو مرتبہ کسی سوراخ سے نہیں ڈسا جاتا، نام نہاد جہادوں کے نام پر ہمارے گھر بار ننگ ناموس اور وطن اجڑ گیا مگر ہم پختون شائد صور اسرافیل تک ان مذھبی توہمات سے نہیں نکلیں گے اور قرآن کی تحقیق کا حکم نہ ماننے کی روش پر قائم رہیں گے۔

عالمی سطح پر بالعموم اور پاکستان افغانستان میں خصوصیت کے ساتھ تصوف اور پیر فقیری کی آڑ میں نناوے فیصد دھوکہ باز بیٹھے ہیں جنہوں نے بنی اسرائیل کی طرح دین کو بازار کی جنس بنا دیا ہے۔ یہ لوگ دین واسلام کی بدنامی کا باعث ہیں جبکہ تاریخی طور پر بھی پیروں کے لبادے میں بہت سو نے پیرنگ کی ایجنٹ کا کردار ادا کیا ہے۔ مسئلہ صرف سوات کا نہیں ہے بلکہ میرے خیال میں سوات کے پختون دیگر علاقوں کی نسبت کچھ حد تک باشعور ہیں لیکن اگر یہ پیر صاحب پختونخوا کے کسی بھی اور ضلع میں وارد ہو جائے جیسا کہ کئی مرتبہ دیکھا گیا ہے تو ہر جگہ اس سے زیادہ انسانوں کی بھیڑ ان کے سامنے اکٹھی ہو گی جو پختون معاشرے میں جہالت اور لوگوں کے عمومی شعور کی آئینہ دار ہے۔

قرآن ایک مذہبی الہامی کتاب ہے، اسے طب جغرافیہ یا سائنس کی کتاب بنانا بالکل بھی انصاف نہیں ہے۔ قرآنی آیات کو شفاء کہا گیا ہے جس کا بنیادی تعلق روحانی عقائد کی شفاء کے ساتھ ہے جبکہ بدنی امراض میں عقیدے کی پختگی کی بنیاد پر فقھا اسلام اس دم درود کے قائل ہیں جو قرآن یا احادیث کے منقول الفاظ سے ہو مگر دم درود کا ہرگز شرعاً یہ مطلب نہیں کہ آپ طبی سائنسی علاج کو چھوڑ کر صرف دم درود کے آسرے پر بیٹھ جائیں یا لوگوں کو ڈاکٹروں کے پاس جانے کے بجائے اسے صرف دم درود کی تلقین کریں۔ یہ جاہل پیر اکثر ڈاکٹری علاج چھوڑنے کی مریض کو تلقین کرتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد پھر اس بیچارے کا مرض لاعلاج ہو جاتا ہے۔

احادیث میں بیشمار ایسے طریقہ ہائے علاج عرف تجربہ اور طبی خواص کی بنیاد پر مختلف اشیاء سے علاج کی ترغیب آئی ہے جس کو بڑی تفصیل کے ساتھ علامہ ابن قیم اور دوسرے علماء نے طب نبوی کے عنوان سے جمع کر کے شائع کیا ہے جو بالکل آج کل کے علاج کی طرح تھی۔ طب نبوی سے مراد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بتایا ہوا کسی بیماری کا علاج یا ادویات ہوتی ہیں۔ نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی طبیبانہ سیرت سے خاص طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے مریضوں کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ وہ علاج کے لیے ماہر اطباء کو تلاش کریں اور کلی اعتماد کے ساتھ اپنے امراض کا حال بتائیں اور ان کی ہدایات پرعمل کریں اور طبیب جو دوا تجویز کرے اس کو استعمال کریں اور دوا کے ساتھ اللہ تعالی سے صحت وشفا کی دعا کریں کیونکہ سب کچھ اسی کے ہاتھ میں ہے۔ دعائیں بھی طبع زاد نہیں بلکہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم سے ماثور و منقول دعاؤں کو یاد کر کے پڑھیں۔

ج کل جدید میڈیکل سائنس کا دور ہے جبکہ ایک زمانے میں طب یونانی اور علاج بالغذا کا دور تھا۔ کسی مستند ڈاکٹر سے علاج چھوڑ کر صرف پیروں فقیروں کے آسرے پر بیٹھنا خودکشی کے مترادف ہے۔ طبی علاج سبب کے درجہ میں ایک انسانی تدبیر ہے، شفا اللہ دیتا ہے جبکہ علاج سبب کے درجہ میں ہے جو عین تقدیر کے مناسب ہے۔ اسی طرح صحیح البخاری اور مسلم کی ایک مستند روایت میں علاج کی ترغیب کچھ اس طرح آئی ہے، ما نزل اللہ مِن دآ لا نزل لہ شفآء۔ کسی بھی مرض کے ساتھ اس کا علاج بھی اللہ تعالی نے نازل کیا ہے۔ ایک دوسری روایت میں اسامہ بن شریک فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضور اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ لوگ آپؐ سے دریافت کر رہے تھے کہ اگر ہم بیماریوں میں دوا کر لیا کریں تو کچھ گناہ تو نہیں؟ یہ سن کر آنحضورؐ نے فرمایا کہ دوا کر لیا کرو اے اللہ کے بندو! اس لئے کہ اللہ نے جتنی بیماریاں پیدا کی ہیں ساتھ ہی ان کی دوا بھی پیدا کی ہے لیکن مرض موت اس سے مستثنی ہے۔

اگر ہم اپنی سوسائٹی کا تجزیہ کریں تو علاج کو چھوڑ کر سو فیصد اس طرح کے تعویذ گنڈوں پر عقیدہ بنانے کی کچھ بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو مسلسل جنگی ماحول اور بیروزگاری کی وجہ سے پختون سوسائٹی میں بیشمار نفسیاتی مسائل نے جنم لیا ہیں جن میں ہوشربا اضافہ مستقبل کے حوالے سے بڑا خطرناک ہے۔ ساتھ ہی زمانوں سے مذہبی توہمات کی بھرمار اسلام کی تعلیمات سے بے خبری اور جہالت کا نفوذ جبکہ تیسری بڑی وجہ غربت اور معاشی کمزوری ہے۔ جب لوگ ڈاکٹری علاج کی استطاعت سے قاصر ہوں گے، ریاست تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات دینے میں ناکام ہو، لوگ ڈاکٹروں کے اخراجات نہیں اٹھا سکتے تو پھر کسی کرشمہ کے ظہور پر یقین کر کے اپنے مرض کے علاج کیلئے انہی پیروں فقیروں کے آستانوں پر لوگوں کا اسی طرح ہجوم بنے گا۔ اگر ہم اپنی آج کی حالت کا موازنہ یورپ کے قرون وسطی سے کریں تو بالکل ہماری حالت اسی طرح ہو گئی ہے۔ ہم بالکل اسی طرح کے توہمات میں اٹکے ہوئے ہیں۔

دور قدیم آٹھویں صدی قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے اور پانچویں صدی عیسوی پر ختم ہوتا ہے۔ اسی دور میں روم کی عظیم سلطنت وجود میں آئی اور یونان سے علوم و فنون کے دریا بہہ نکلے۔ قرون وسطی سے مراد وہ زمانہ ہے جو زوال رومہ 476 سے شروع ہوتا ہے اور یورپ کی نشاۃ ثانیہ پر ختم ہوتا ہے۔ اور دور حاضر سولہویں صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے۔ اس دور کے بارے میں ڈاکٹر ڈریپر(1882) لکھتا ہے، ”قرون وسطی میں یورپ کا بیشتر حصہ لق و دق بیابان یا بے راہ جنگل تھا، کہیں راہبوں کی خانقاہیں اور چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد تھیں، جابجا دلدلیں اور غلیظ جوہڑ تھے، لندن اور پیرس جیسے شہروں میں لکڑی کے ایسے مکانات تھے جن کی چھتیں گھاس کی تھیں، چمنیاں، روشن دان اور کھڑکیاں مفقود،آسودہ حال امرا فرش پر گھاس بچھاتے اور بھینس کے سینگ میں شراب ڈال کر پیتے تھے، صفائی کا کوئی انتظام نہ تھا نہ گندے پانی کو نکالنے کے لیے نالیوں کا رواج تھا، گلیوں میں فضلے کے ڈھیر لگے رہتے تھے، چونکہ سڑکوں پر بے اندازہ کیچڑ ہوا کرتا تھا اور روشنی کا بھی کوئی انتظام نہ تھااس لیے رات کے وقت جو شخص گھر سے باہر نکلتا کیچڑ سے لت پت ہو جاتا، تنگی رہائش کا یہ عالم کہ گھر کے تمام آدمی اپنے مویشیوں سمیت ایک ہی کمرے میں رہتے تھے، عوام ایک ہی لباس سالہا سال تک پہنتے تھے جسے دھوتے نہیں تھے نتیجتاً وہ چرکین، میلا اور بدبودار ہو جاتا تھا۔“

یورپ کے اس وقت کے سماجی شعور کے حوالے سے سمیع الدین ارمان لکھتے ہیں، ”نہانا اتنا بڑا گناہ تھا کہ جب پاپائے روم نے سسلی اور جرمنی کے بادشاہ فریڈرک ثانی (1212 تا 1250) پر کفر کا فتوی لگایا تو فہرست الزامات میں یہ بھی درج تھا کہ وہ ہر روز مسلمانوں کی طرح غسل کرتا ہے۔“ مارمڈیوک پکتھال اپنی کتاب تہذیب اسلام میں لکھتا ہے کہ جب سپین میں اسلامی سلطنت کو زوال آیا تو فلپ دوم (1556 تا 1598) نے تمام حمام حکماً بند کروا دیئے کیونکہ ان سے اسلام کی یاد تازہ ہوتی تھی۔ اسی بادشاہ نے اشبیلہ کے گورنر کو محض اس وجہ سے معزول کر دیا کہ وہ روزانہ ہاتھ منہ دھوتا تھا۔ ڈاکٹر ڈریپر لکھتا ہے کہ فقر و فاقہ کا یہ عالم تھا کہ عام لوگ سبزیاں، درختوں کے پتے اور چھال ابال کر کھاتے تھے۔ متوسط طبقہ کے ہفتہ میں ایک مرتبہ گوشت کھانے کو عیاشی تصور کیا جاتا تھا۔ 1030 کے قحط میں لندن کے بازاروں میں انسانی گوشت بھی بکتا تھا۔ امرا معدودے چند تھے جن کا کام بدکاری، شراب نوشی اور جوا کھیلنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ جاگیر داروں کے قلعے ڈاکوؤں کے اڈے تھے جو مسافروں پر چھاپے مارتے اور زر فدیہ وصول کرنے کے لیے انہیں پکڑ لاتے تھے۔ حصول زر کے لیے وہ مختلف حربے استعمال کرتے تھے۔ مثلاً آدمی کے پاؤں کے انگوٹھوں کو رسی سے باندھ کر اسے الٹا لٹکا دیتے تھے یا گرم سلاخوں سے جسم کو داغتے یا گرہ دار رسی کو سر سے لپیٹ کر پوری طاقت سے مروڑتے تھے۔ یورپ میں سڑکیں نہ تھیں۔ ذرائع نقل و حمل بیل گاڑیاں، خچر اور گدھے تھے۔ جنگلوں اور پہاڑوں میں ایسے ڈاکو رہتے تھے جو آدم خور بھی تھے۔ وبائیں عام تھیں۔ صرف دسویں صدی میں دس تباہ کن قحط اور تیرہ وبائیں پھوٹیں اور لوگ مکھیوں کی طرح ہلاک ہوئے۔ پادری فریب اور جعل سازی سے کام لیتے تھے۔ پوپ جنت کی راہداریاں اور گناہ کے پرمٹ فروخت کیا کرتا تھا۔ عوام کے لیے تو سود لینا حرام تھا مگر خو د پوپ کا بینک لوگوں کو بھاری شرح سود پر قرضے دیا کرتا تھا۔ عوام گور پرست اور مجسمہ ساز تھے اور علما عشائے ربانی، کرامات اولیا، راہبانیت اور تصرفات روح کی ابحاث میں الجھے، یورپ کا مشہور مرخ گبن لکھتا ہے کہ اتنے طویل تاریخی زمانے میں بدی کی یہ کثرت اور نیکی کی یہ قلت کہیں اور نظر نہیں آتی۔ گاتھ قوم کا ایک مرخ پروکوپیس(560) لکھتا ہے کہ میں ان وحشیوں کے ہولناک افعال کے تذکرہ سے تاریخ کے صفحات آلودہ نہیں کرنا چاہتا تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے خلاف انسانیت افعال زندہ رکھنے کی ذمہ داری مجھ پر عائد نہ ہو۔

بارہویں صدی کے یورپ کے متعلق بریفالٹ لکھتا ہے کہ وہ لوگ اپنی ہر بدی کو نیکی کا رنگ دیتے تھے۔ سفیروں کا کام یہ تھا کہ وہ وحشی سرداروں کی نفس پرستیوں اور بدمعاشیوں کو ایسے حسین انداز میں پیش کریں کہ وہ خوبیاں نظر آئیں۔ منافقت، جھوٹ، ریاکاری، دھوکہ دہی ایک فن لطیف بن گیا تھا جس میں ہر شخص ماہر تھا اور مکیاولی(1527) کو اس فن کا امام سمجھا جاتا تھا۔ قرون وسطی میں زوال رومہ(476) کے بعد پاپائیت برسراقتدار آ گئی تھی اور 1546 تک سیاہ و سفید کی مالک رہی۔ پوپ مذہبی علم کے علاوہ تمام اصناف علم کا دشمن تھا اور جہاں کہیں کوئی عالم یا فلسفی یا مفکر سر اٹھاتا اسے کچل دیا جاتا تھا۔ اس دور میں مدارس حکماً بند ہوئے، لاکھوں کی تعداد میں کتابیں نذر آتش ہوئیں، کئی علما پوپ کی علم دشمنی کے ہاتھوں قتل ہوئے اور یورپ پر ہر طرف جہالت کی تاریکی چھا گئی۔
نذرانہ نہیں، سود ہے پیرانِ حرم کا
ہر خرق سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انھیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

ہم کتنے اندھے ہیں

مزارات میں پڑے بڑے بڑے لوگ ہیں جن کے ساتھ محبت ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہے نہ کہ کسی زندہ یا مردہ کو الوہیت کے مقام پر لاکھڑا کرنا، پختونوں کی اجتماعی جہالت اور بے حسی کو دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ مذہب کے حوالے سے ہم کتنے اندھے ہیں۔ قرآن تو ہمیں تاکید کرتا ہے کہ ہر مسئلے میں تحقیق کر لیا کرو تقلید جامد سے بچتے رہنا مگر ہم کبھی پیر اخون درویزہ کے لشکر بن جاتے ہیں اور کبھی فرنگی کے جاسوس مسٹر لارسن (بغدادی پیر) کی طرح بیشمار پیروں کے مصنوعی کرشمے دیکھ کر گمراہ ہو جاتے ہیں۔ مذہب کے لبادے میں سوات سے لے کر باجوڑ اور وزیرستان سے لے کر قندھار و پکتیا تک اسلام کے نام پر پختونوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے مگر ہم مذھب کی آڑ میں اندھے تقلید و اتباع کے قائل ہو چکے ہیں جبکہ پیغمبر خدا کی اس حدیث کو بھول چکے ہیں کہ ایک مومن دو مرتبہ کسی سوراخ سے نہیں ڈسا جاتا، نام نہاد جہادوں کے نام پر ہمارے گھر بار ننگ ناموس اور وطن اجڑ گیا مگر ہم پختون شائد صور اسرافیل تک ان مذھبی توہمات سے نہیں نکلیں گے اور قرآن کی تحقیق کا حکم نہ ماننے کی روش پر قائم رہیں گے۔