تحرير: عثمان خان
موت برحق ہے اور ہم سب کو اس راہ سے گزرنا ہو گا، عبدالرحیم روغانی کی جدائی کو ایک طرف قوم اور زبان کیلئے ایک بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے تو دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موت ان کو مار بھی نہیں سکتی، جیسا کہ پشتو کے مشہور شاعر خوشحال بابا فرماتے ہیں
مڑ ہغہ چی نہ یی نوم نہ یی نشان وی
تر تر تلہ پہ خہ نام پائی خاغلی
سوات سے تعلق رکھنے والے منفرد لب و لہجے کے مالک مشہور شاعر، نقاد، محقق اور بابائے قطعہ عبدالرحیم روغانی71 سال کی عمر میں اس جہانی فانی سے کوچ کر گئے۔
تئیس اور چوبیس فروری کی درمیانی شب عبدالرحیم روغانی کی وفات کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر پر مرحوم کے حوالے سے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کی رحلت کو پشتونوں کیلئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا جا رہا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کی رحلت سے پیدا ہونے والا خلا کو رہتی دنیا تک پر نہیں کیا جا سکے گا۔
قدرت کا ایک نظام ہے، ہر چیز کو بہت کثرت سے پیدا کیا ہے لیکن شخصیات کی تخلیق میں قدرت نے ایک حد تک کنجوسی کی ہے کیونکہ شخصیات ہر وقت پیدا نہیں ہوتیں۔
موت برحق ہے اور ہم سب کو اس راہ سے گزرنا ہو گا، عبدالرحیم روغانی کی جدائی کو ایک طرف قوم اور زبان کیلئے ایک بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے تو دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موت ان کو مار بھی نہیں سکتی، جیسا کہ پشتو کے مشہور شاعر خوشحال بابا فرماتے ہیں
مڑ ہغہ چی نہ یی نوم نہ یی نشان وی
تر تر تلہ پہ خہ نام پائی خاغلی
پشتو ادب کے مشہور شاعر اور ادیب نور الامین یوسفزئی کے بقول عبدالرحیم روغانی جدید دور کے شعرا میں انتہائی منفرد لب و لہجے کے شاعر تھے اور ان کی ذاتی زندگی بھی باقی ماندہ لوگوں سے جداگانہ اور منفرد تھی، وہ اپنے دل کی مانتے تھے اور وہی کرتے تھے جو دل کی پکار ہوتی تھی، ”ان کی شاعری میں انٹلیکچوول ڈیپتھ یعنی فکری گہرائی ہے، ان کی شاعری مشکل بھی ہے اور آسان بھی اور ان کا انداز بیان اور اسلوب سادہ ہے لیکن معنی میں بہت گہرائی ہے۔” نورالامین یوسفزئی بتاتے ہیں کہ اگر موجودہ وقت میں نظم اور قطعہ کے حوالے سے شعرا کو شمار کیا جائے تو ان میں عبدالرحیم روغانی کا الگ تھلگ کردار ہے اور خصوصی طور پر قطعہ میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
مرحوم عبدالرحیم روغانی نے اپنی ابتدائی تعلیم سوات کی تحصیل مٹہ میں حاصل کی تھی، وہ پشتو زبان میں ماسٹر ڈگری ہولڈر تھے، گریجویشن کے بعد انھوں نے سرکاری استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کا کام شروع کیا تھا لیکن انہوں نے سرکاری استاد کی پوسٹ سے استعفی دیا تھا کیونکہ وہ بتاتے تھے کے میں وہ حق ادا نہیں کر سکتا تھا جو ادا کرنا چاہیے تھا ۔آپ من کے سچے اور ایک خود دار انسان تھے اس لئے وقت سے پہلے سرکاری نوکری سے راہیں جدا کیں۔
سوات سے تعلق رکھنے والے شاعر فیض علی خان فیض کے مطابق پشتو ادب میں سب سے زیادہ قطعات عبدالرحیم روغانی نے لکھی ہیں اور اس کیلئے ان کو بابائے قطعہ کا خطاب بھی ملا تھا۔
عبدالرحیم روغانی نے خیال اور مضمون دونوں کے ساتھ انصاف کیا ہے، انہوں نے ہر وقت شعوری طور پر کوشش کی کہ نئے مضامین کو سامنے لائیں۔
ان کی شاعری میں عوامی رنگ یعنی عام لوگوں کی آواز زیادہ تھی اور اس لئے بہت مشہور گلوکاروں ہارون باچا، سردارعلی ٹکر اور بہت ساروں نے ان کے کلام کو گایا ہے۔ عبدالرحیم روغانی کی شاعری میں پشتون وطن اور مٹی کے ساتھ محبت نمایاں تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ مولویوں اور خوانین پر تنقید او طنز بھی نمایاں طور پر موجود ہے۔ فیض علی خان فیض بتاتے ہیں کہ روغانی صاحب کی مثال قوس قزح (بڈی ٹال) کی ہے جس میں ہر رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔
عبدالرحیم روغانی کی تصنیفات
عبدالرحیم روغانی کی شعری کتابوں میں نوی نغمہ، زوریدلی احساسات، سندریز احساس، د رنڑا ساسکی جبکہ نثری کتابوں میں خود غرض اور کوربانہ خیالونہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے خود غرض نامی پشتو کتاب کا ترجمہ انگریزی میں کیا ہے جو 2019 میں لندن میں شائع ہوا ہے۔
بنیادی طور پر عبدالرحیم روغانی ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا تعلق روغانی محمود خیل قبیلے سے تھا اور 1950 میں جنوری کی پندرہ تاریخ کو سوات کے علاقے مٹہ میں پیدا ہوئے تھے۔
عبدالرحیم روغانی کے پسماندگان
ان کے پسماندگان میں ایک بیوہ، تین بیٹے اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ مرحوم عبدالرحیم روغانی کی نماز جنازہ چوبیس فروری کو دن دو بجے مینگورہ گلدہ نمبر دو میں ادا کی گئی جس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ ان کی نماز جنازہ میں ادب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی کثیر تعداد میں موجود تھے۔