سبحانی جوہر

برصغیر کی شاعری کے نمایاں موضوعات، چاک جذبات، دھیمی دھیمی آنچ، سلگتی ہوئی تلملاہٹ اور آرزوئے تکمیل جو تقریباً کسی بھی ایسے معاشرے میں کلیدی موضوعات ہوتے ہیں جہاں دوغلاپن معاشرتی قدر ہوتا ہے، جہاں فکر و فعل میں تضاد، پارسائی کا وطیرہ ہوتا ہے اور جہاں خلوت و جلوت کے معیار دوہرے ہوتے ہیں۔ جہاں جسم پر قید، جذبات پہ زنجیریں ہوتی ہیں جہاں فکر محبوس اور گفتار پہ تعزیریں ہوتی ہیں، وہاں شاعر کی کوکھ سے ایسے ہی اشعار نکلیں گے
کس سے اظہارِ بے بسی کرلوں؟
دل یہ کہتا ہے، خودکشی کرلوں
کوئی آجائے میرے دل کے قریب
جس سے تھوڑی سی دل لگی کرلوں
جہاں دل لگی کے باب بند ہوتے ہیں اور جس سے کسی بھی سلیم الطبع انسان کو فرار نہیں، وہاں شاعر کا یہ احساس بالکل بہ جا ہے کہ خود ہی کو صفحۂ زیست سے مٹادے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے دریدہ مصلوب جذبات جب انسان کے دل کے مزار میں اُترتے جاتے ہیں، تو پھر بے بسی اور لاچارگی کے ایسے عالم میں شدتِ جذبات اور فرطِ عقیدت سے انسان، انسان کو بھی خدا بنا بیٹھنے سے احتراز نہیں کرتا، یہ کوئی انہونی جذبہ نہیں ہے۔ برصغیر کے تقریباً تمام اُردو شعرا جو اسی دم گھٹے معاشرے کی قید میں محبوس تھے، نے اسی احساس و جذبے کا اظہار کیا ہے۔
نایاب صاحب بھی انہی کی صف میں کھڑے ہوکر اپنی محبت کے حضور سر بہ رکوع ہیں۔
تراش بیٹھا ہوں محبت کا خدا
اب ذرا اُس کی بندگی کرلوں
شاعری احساس، تخیل اور کلچرل معنویت کے اظہار کا نام ہے۔ احساس اور تخیل تو شعریت کے خمیر میں شامل ہیں جب کہ کلچرل معنویت ہر شاعر کے پس منظری تجربات اور مشاہدات کا عکس ہوتی ہے۔
نایابؔ صاحب نے کچھ سماوی اور غیر ارضی موضوعات کو نہیں باندھا ہے بلکہ اپنی انفرادی تشنہ آرزو ئیں اور اجتماعی تہذیبی خلاؤں پر انگشت نمائی کی ہے۔ ایسی خلا میں جو ثقافتی غیر منطقیت اور ایک محدود مکتب فکر کی اندھی تقلید کے نتیجے میں معاشرے کے چہرے پر نمودار ہوتی ہیں۔
زیست بہت خوبصورت بھی ہے اور بہت بدصورت بھی، یہ ایک موقوف Relative رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زیست کو جنت یا دوزخ بنانے میں کئی عناصر کارفرما ہیں۔ جہاں Freedom to choose نہ ہو، جہاں سیاسی جبر اور ریاستی استبداد ہو، جہاں معاشرتی بخل اور تنگ نظری ہو اور جہاں ثقافت، تقدس کا درجہ اختیار کرچکی ہو، وہاں کسی ذی احساس اور ذی شعور انسان کا دم تو گھٹتا ہی ہے۔
نایابؔ صاحب شاعر ہے، ذی احساس ہے۔ باشعور ہے۔ اس کا نبض زیست پر ہاتھ ہے۔ وہ ایسے اشعار ضرور کہیں گے جیسے
ایک ہی دنیا میں یہ بسنے والے
کوئی خوش ہے کئی رونے والے
کسی نے بنائی ہے اس دنیا میں جنت
کوئی دوزخ میں ہیں جلنے والے
خزاں رسیدہ ایک گلاب ہوں میں
آزمائش وقت کا انتخاب ہوں میں
حالات کے جبر کا تقاضا یہی ہے
کہ افسانہ کسی کا انتساب ہوں میں
محبت کا عشق میں تبدیل ہوجانا، یا فت سے نایافت بن جاتا، بولی کا سکوت میں مدغم ہونا، حسین خواب کا سراب تعبیر بن جانا، یہ ایسے مظاہر ہیں کہ جن کے پیچھے نایابؔ صاحب کی پوری حیات کی ایک بے چین تگ و تاز اور کسی نصب العین کے حصول کے لیے ایک حسرت ناک آویزش کی موجودگی کی غمازی کرتے ہیں۔
نہ سکون نہ قرار ہے ہم کو
کسی پل ہمیں آرام نہیں
گردش وقت کی ستم ظریفی دیکھ
محفلیں ہیں مگر خیام نہیں
سچ پوچھیے تو نایاب نے اپنے لفظوں میں میرے قلبی واردات و کیفیات ڈھالے ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ کوئی بھی ہمارے معاشرے میں سانس لیتا ہو، اُسے نایابؔ کی شاعری سیدھا راس آئے گی۔ ہم سب محرومی کی زندگی جی رہے ہیں۔ ہم سب فکری حریت اور آزادیِ انتخاب کی نعمت سے محروم ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے، تو نایابؔ کی شاعری کا حلقۂ اثر کافی وسیع ہوجاتا ہے۔ اگر چہ اس مجموعے میں کوئی اک ادھ شعر غالب والا بھی مل جاتے ہیں جیسے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
نایابؔ کہتے ہیں
کبھی جھکا اور نہ ڈرا ہے یہ سحر
گلوں کے ہار کبھی دار چومے
یا وہ پوری نظم جو بے نظیر بھٹو پر لکھی گئی ہے، لیکن کتاب کا مجموعی تاثر تشنہ تکمیلی ہے۔ اس کا مرکزی موضوع (Theme) ادھورا پن ہے۔
معنوی اور موضوعاتی مواد کے علاوہ، جو چیز کتاب کو دلکش بناتی ہے، وہ اس کی اُسلوبیاتی سلاست اور روانی ہے۔ کتاب کا لب و لہجہ سادہ، الفاظ مترنم اور دریائے سوات کی طرح بہتے ہوئے۔
نایابؔ صاحب کی دلی واردات اور جذبات کی تصویر جو انہوں نے بڑی طویل کاوش کے بعد کتاب میں قید کردی ہے، کو اس مختصر مضمون میں احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ زِندانِ زیست کا ٹون اگرچہ تھوڑا غم انگیز اور مایوس کن ہے، لیکن خاصے پڑھنے کی کتاب ہے، کیوں کہ یہ ہمارے خلوتی جذبات کی آئینہ دار ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*