نوید سینا
پوری کائنات میں مثالی نظم و ضبط کے باوجود کہیں بھی یکسانیت نہیں۔ سات ارب انسانوں میں کہیں بھی مکمل طور پر دو یکساں انسان موجود نہیں۔ حتی کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک جتنے بھی انسان پیدا ہوئے ہیں، اللہ تعالا نے سب کو ایک دوسرے سے مختلف اور منفرد بنایا ہے۔ یہاں تک کہ انسانوں کی انگلیوں، ہونٹ اور آنکھوں کے نشانات مختلف ہیں۔ اربوں درختوں کے کھربوں پتوں میں کہیں بھی دو یکساں پتے نہیں ہیں۔ جہاں اللہ تعالا نے ہر چیز، ہر دن، ہر پل اور ہر انسان کو منفرد بنایا ہے، وہاں ہم اپنے بچوں کو دوسروں جیسا بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
قارئین، اللہ تعالا نے ہر انسان کے اندر صلاحیتوں کا سمندر رکھ کر اسے دنیا میں بھیجا ہے، لیکن ہم اپنے بچوں کو غور سے دیکھتے ہی نہیں۔ ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ڈھونڈنے اور ان کی انفرادیت معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے، بلکہ ان کو دوسرے بچوں (جن سے ہم متاثر ہوتے ہیں) کی طرح بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہم انفرادیت کے آفاقی قانون کو تبدیل نہیں کرسکتے بلکہ الٹا اپنے بچے کی انفرادی صلاحیتوں کو دبا لیتے ہیں۔ ان کی عزتِ نفس کو مجروح اور اعتماد کو ختم کر لیتے ہیں۔ ایک پُراعتماد بچہ معاشرے کا سرمایہ ہوتا ہے۔ بچوں کی انفرادیت کو سمجھیں گے، سراہیں گے، تو ان کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا اور قدرت کی طرف سے عطا کردہ صلاحیتوں میں بھی نکھار پیدا ہوگا۔ کسی بچے کی کارکردگی کا موازنہ دوسرے بچوں کی بجائے اس کی سابقہ کارکردگی سے کیا کریں۔ جیسے کہ بل گیٹس نے کہا تھا: ”اپنا موازنہ دنیا کے کسی بھی شخص سے مت کرو۔ اگر تم ایسا کروگے، تو اس کا مطلب ہے کہ تم اپنی بے عزتی کر رہے ہو۔“ بالکل اسی طرح اپنے بچے کا موازنہ اگر کسی دوسرے بچے سے کریں گے، تو آپ اپنے بچے کی بے عزتی کریں گے۔ جو اس بچے کی عزتِ نفس، یقین اور اعتماد کے لیے سب سے مہلک ہتھیار ہے۔