محمد شیر علی خان
زندہ قومیں اپنی تاریخ، ثقافت اوررسم و رواج کاآئینہ دارہوتی ہیں اور تاریخ کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے بڑے بزرگوں کے نقشِ قدم پرچل کر اُن کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہیں۔
راقم کاجنم بھومی برہ درشخیلہ ہے لیکن کوزہ درشخیلہ سے والہانہ محبت وعقیدت کی بڑی وجہ شاید پرکھوں کی یہاں مستقل ویش سے پہلے رہائش تھی۔ میرے پڑداداخوشحال خان اکاخیل کی آخری ’’کلویغی‘‘ (معاشرت) یہاں تھی۔ اس لیے اس گاؤں کواپنادوسراگاؤں سمجھتا ہوں اور اسی بات نے مجبورکیاکہ اس گاؤں اور اس کے باسیوں پرکچھ لکھاجائے ۔
کوزہ درشخیلہ دریائے سوات کے مغربی کنارے واقع گاؤں جنہیں ’’جنکی خیل‘‘ یعنی دریا کے کنارے والے گاؤں کہتے ہیں، یہ گاؤں تحصیل مٹہ سے شمال مشرق کی طرف برہ درشخیلہ، برنجال، جختکئی اوربیدرہ کے درمیانی علاقے میں واقع ہے۔
لفظ درشخیلہ مرکب ہے ’’درش‘‘ اور ’’خیلہ‘‘کا۔ درش سنسکرت میں درشن، دید، دیدار، زیارت اورملاقات کوکہتے ہیں، جب کہ ’’خیلہ‘‘ کیلہ، قلہ، گا، گہ، گلی، کلی اورقلعہ وغیرہ سے نکلا ہے جو ایک معنی رکھتے ہیں یعنی ’’رہنے کی جگہ‘‘ جس کا مطلب یامعنی ’’زیارت کرنے والوں کاگاؤں‘‘کے ہیں۔
اس نام کے بارے میں مختلف نظریات ہیں۔ ساجد خان ابوتلتاند صاحب کے مطابق ’’درش چترال کی ایک جگہ دروش کے نام سے ملتا جلتا ہے۔’’دروش‘‘ اور’’دورش‘‘ میں حروف کی تعدادبرابراورارکان میں بھی مماثلت ہے، لیکن ادائیگی میں خاصافرق ہے۔ کیوں کہ دروش اصل میں ’’داریوش‘‘ سے نکلاہوامعلوم ہوتا ہے۔ داریوش 500 (ق م) کو ایران کا بادشاہ تھا، ممکن ہے دروش اُس بادشاہ کی نسبت سے ہو۔
بعض لوگوں کے نزدیک دیرتیمرگرہ اور سم رانیزے میں دوش خیل نام کا ایک قبیلہ آباد ہے۔ شاید یہ اُن کے نام پر رکھاگیاہو، لیکن ابوتلتاندکے مطابق زمانۂ قریب میں یہاں اُن کی ہجرت کے شواہدوآثارنہیں ملتے۔
اسی طرح ایک اور نظریہ کے مطابق محمود غزنوی کے ساتھ یہاں درویش آئے تھے۔ اُن درویشوں کی وجہ سے یہ نام پڑگیا۔
معروف تاریخ دان خیرالحکیم حکیم زئی اس بات کی نفی کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق جب یہاں اپنی اقوام موجود تھیں، توکسی غیرکی کیاحیثیت تھی جس کے نام پرگاؤں مشہور ہوتا۔
حکیم زئی صاحب ایک اورنظریہ بھی پیش کرتے ہیں: ’’پرانے سواتی بھی پشتون تھے۔ ہماری طرح خیل اورگاؤں رکھتے تھے۔ ممکن ہے کہ وہ آج کل کے نصرت خیل اورمیرو خیل کی طرح اپنے علاقے اور گاؤں کے مالک ہوتے ہوں، اسی طرح یہ گاؤں بھی کسی ذیلی شاخ دوش خیل کا ہوگا۔‘‘
درجِ بالانظریات کے علاوہ اوربھی ڈھیر ساری نظریات ہیں لیکن سب کا یہاں تذکرہ ممکن نہیں، تاہم یہ نام ہندو مت اوربدھ مت کے دورسے چلا آ رہا ہے جس کی ساخت ’’درش کیلہ‘‘ ہے جوبعدمیں درش خیلہ بن گیا۔
1926ء کومستقل ویش (توریران ویش) کے بعد یہاں کے موجودہ رہائشی (پائندہ خیل) بوڈیگرام، باماخیلہ اوربرہ درش خیلہ سے منتقل ہو کر یہاں آئے۔ پائندہ، جو حسن بابا کے تین بیٹوں میں سے ایک تھے۔ باقی دو بازید خان اورنکرہ دین خان کے نام سے دو مشہور خیل (قبائل) جانے جاتے ہیں۔ پائندہ باباکے سات بیٹے تھے جن کے ناموں پر آج اس گاؤں میں مختلف خیل آباد ہیں۔ یہ کشر خیل، کمبرخیل، عمرخیل، ماشو خیل، کرم خیل، عیسٰی خیل اورمشرخیل کے نام سے مشہورہیں اوراس خاندان کے کچھ لوگ باماخیلہ اوربوڈیگرام میں بھی رہتے ہیں۔
اِس گاؤں میں دوسری اقوام جیسے گجر، سیّدان میاگان، پراچکان اورملیان وغیرہ بھی رہائش پذیرہیں ۔
کوزہ درشخیلہ شیخ ملی دفترکے مطابق تیس روپے دفتر (دوتر) اور تین پلو برپلو، مینزپلو اور کوز پلو پرمشتمل ہے۔ ہر پلو کا دس روپے دفتر (دوتر) ہے، تاہم ملیان اور سیّدان ’’سیریٔ‘‘ بھی رکھتے ہیں۔
قارئین، تاریخی حوالے سے دیکھا جائے، تویہ گاؤں اپنا ایک جداگانہ مقام اور حیثیت رکھتا ہے، یہاں محمودِ غزنوی کے ساتھ آئے ہوئے درویشوں کے مزارات جن میں ایک اخون درویش بابا اور دوسرا منڈاؤ بابا کا ہے، موجود ہیں۔ لوگ آج بھی ان مزارات کے ساتھ بڑی عقیدت رکھتے ہیں۔
ان درویشوں کی یہاں اولاد کوئی نہیں ۔
مستقل ویش (تقسیم) سے قبل حبیب خان المعروف (دارمئی خان) کی ’’کلویغی‘‘ اس گاؤں میں تھی۔ سراج الدین خان کے مطابق اُن کازیرِاستعمال دیرہ آج کل مرحوم محمداقبال خان ایڈووکیٹ کے خاندان کے زیرِ استعمال ہے۔
بدھ مت کے آثار کے بارے میں ماہر ِآثارِ قدیمہ مرحوم فضل قوی حاجی صاحب نے ساجد ابوتلتاند صاحب کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا:’’کوزہ درشخیلہ میں بدھ مت کے زمانے کے سٹوپوں کے آثار پہاڑوں کے دامن میں پائے جاتے ہیں۔‘‘
لوک ادب کے حوالے سے دیکھا جائے، تواس گاؤں کی مٹی بڑی زرخیز ہے۔ یہاں شاہ روان بازدا، ہمیش گل، عبدالرحیم اورحبیب گل ملنگ مرحومین جیسے شعراگزرے ہیں۔
ہمیش گل کا نمونۂ کلام ملاحظہ ہو:
ابئی مے ناقابلہ خانکے ئی مٹقوردے
دادامی دچاقوردے
(بشکریہ محمدعظیم ہیڈ ماسٹر صاحب)
موجودہ دور میں سالار یوسف زے، بہادر شیر افغان، شیر زمین ہمدرد، سلمان اور محمد شاہ روغانے وغیرہ جیسے قابلِ قدر اور قابلِ ذکر شعرا و ادبا جیوت ہیں۔ سب سے بڑھ کر بابائے قطعہ مرحوم عبدالرحیم روغانے صاحب کی جنم بومی بھی یہی گاؤں ہے۔
کوزہ درشخیلہ کے لوگ آزادانہ سوچ اور فکر رکھتے ہیں، تبھی تو ہر سیاسی پارٹی کا ورکر یہاں موجود ہے اور اپنے خیالات کا برملا اظہار بھی کرسکتے ہیں۔ یہاں تعلیمی رجحان بھی تسلی بخش ہے۔
پائندہ خیل قوم میں بڑے نامی گرامی لوگ ہوگزرے ہیں جن کی بہادری، شجاعت اور سخاوت کو دیکھتے ہوئے آج بھی لوگ انگشتِ بدندان ہیں۔ جن میں سردار خان، عجب خان، شہباز خان، پیر محمد خان، ملک نواب خان اورباچا خان وغیرہ جیسی شخصیات شامل تھیں۔
آج بھی گاؤں میں ایسی ایسی فقید المثال شخصیات موجود ہیں جنہوں سیاسی، سماجی اورتعلیمی حوالے سے اپنا ایک مقام اور رتبہ پیدا کیا۔ ان میں ڈاکٹر شیر محمد خان، سلطان احمد خکلے خان، محمدافضل خان سپندا، جہان شیرخان کٹورے، ملک اختر علی خان، محمد خان استاد صاحب، تل ودان صاحب، یحییٰ خان، حمید خان، اکرام خان، حبیب الحق صاحب، محمد امین خان، ولی خان، دولت مند استاد صاحب، منزرے خان، صادق ناظم صاحب، ساجد صاحب اور بخت الرحیم ناظم صاحب وغیرہ جیسے سپوت جیوت ہیں، جن پر آنے والی نسلیں فخرکریں گی۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دعاگو ہوں کہ اس پیارے گاؤں کوشاد آباد رکھے، آمین!
پلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں