روح الامین نایابؔ

’’سدارتھا یا سدارتھ‘‘ مشہور یورپی ناول نگار، شاعر، مصور کا ایک مختصر مگر شاہکار ناول ہے جسے انگریزی زبان سے محترم شاہین بونیری صاحب نے پشتو میں ترجمہ کیا ہے۔ مَیں اپنے عزت مند دوست ہمایوں مسعود صاحب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے نہایت پیار اور چاہت سے مجھے یہ کتاب تحفتاً عنایت کی۔ سب سے پہلے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ یوروپی یا انگریزی ادب سے پشتو زبان میں ترجمہ نگاری کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے۔ حال ہی میں بعض ادبی قابل دوستوں نے اس حوالے سے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ عزیز من سمیع الدین ارمان صاحب نے چند مشہور انگریزی ادب کے ناول نگاروں کے شاہکار ناولوں کے مختصر ترجمے پشتو زبان میں کراکر اپنی کمال ہنر مندی کی دھاک بٹھا دی ہے۔ اُس کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے مختلف حوالوں سے مغربی ادب اور مشرقی ادب کا تقابلی جائزہ بھی لیا ہے اور بعض مختلف نئی اصطلاحات بھی متعارف کرائی ہیں۔اس طرح ہمارے سوات کے پشتو شاعر، نثر نگار اور نقاد عطاء اللہ جان ایڈووکیٹ نے ’’گل گیڈئی‘‘ شائع کرکے ترجمہ نگاری میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ اس کتاب میں تاریخی و ادبی کارنامہ یہ سرانجام دیا گیا ہے کہ تمام دنیا کی منتخب مختلف زبانوں کے شاہکار فن پاروں کا پشتو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس میں اُردو، بنگالی، عربی، انگریزی، جرمن، فرانسیسی اور اطالوی زبانوں کے ترجمے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ میری نظر میں ترجمہ نگاری میں معیار کے لحاظ سے یہ ایک بہترین اور متاثرکن کتاب ہے۔مشہور یورپی ناول نگار ’’ہرمان کارل ہسے‘‘ (Herman Hesse’s)کا یہ ناول ایک خیالی خاکہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ اس ناول کا کسی تاریخی سچائی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے پہلے اس کا اُردو ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ اس میں پیچیدگی یہ ہے کہ عام طور پر ‘‘سدارتھ‘‘ کو گوتم بدھا ہی سمجھا جاتا ہے۔ ڈکشنریوں اور گوگل کو اگر کنگالا جائے، تو تمام ’’سدارتھا‘‘ گوتم بدھا ہی کا ایک نام تصور کرتے ہیں بلکہ سدارتھا کو گوتم بدھا ہی سمجھتے اور مانتے ہیں۔ لیکن اس ناول میں ’’ہرمان ہسے‘‘ نے سدارتھا کو الگ ایک شخصیت بناکر گوتم بدھا کے مقابلے میں لاکر کھڑا کردیا ہے۔ خود ترجمان شاہین بونیرے اس حوالے سے اپنے دیباچے میں یوں رقم طراز ہیں:’’اس ناول کی خاصیت یہ ہے کہ یہ کوئی گوتم بدھا کی سوانح نگاری نہیں بلکہ ’’ھرمان ہسے‘‘ کا کمال یہ ہے کہ اُس نے بودھا کی تعلیمات کی بنیاد پر ایک نئی کہانی لکھی ہے اور کرداروں کو نئی زندگی اور پہچان دی ہے۔ سدارتھ اور گوتم بدھا کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کردیا ہے۔ سچائی اور خوشحالی کی تلاش کے لیے نئے راستے کھول دیے ہیں۔‘‘مَیں اس حوالے سے تو اتنا متفق ہوں کہ یہ ایک نئی کہانی ہے اور کرداروں کی نئی زندگی اور پہچان کی بات بھی صحیح ہے، لیکن یہ کہنا کہ یہ بودھا کی تعلیمات پر ایک نئی کہانی ہے، اس کے ساتھ متفق نہیں ہوں۔ کیوں کہ پورے ناول میں بدھا کی تعلیمات کا ذکر ہی نہیں جو سر سری ذکر سدارتھ اور بدھا کی ملاقات کے حوالے سے کئی گئی ہے، اُس کی ناول کا بنیادی مقصد سے کوئی تعلق نہیں۔ بدھا کی تاریخ اور تعلیمات کے حوالے سے اس ناول کا کوئی کردار نہیں۔ بدھا کی تبلیغ، جد و جہد، نفس کشی اور شخصیت نگاری میں اس ناول کی کوئی اہمیت ہے نہ کسی شمار میں ہے۔ مَیں تو ترجمان محترم شاہین بونیری کے اس فقرے پر بار بار سوچ رہا ہوں کہ اسے کس زاویے سے دیکھوں اور جذب کروں کہ ’’ناول نگار نے سدارتھ اور گوتم بدھا کو ایک دوسرے کے مقابل لا کر کھڑا کردیا ہے۔‘‘بھلا گوتم بدھا اور سدارتھ کے مقابلے کا کیا ذکر؟ کہاں گوتم بدھا اور کہاں ایک خیالی کردار ’’سدارتھ‘‘ جس کا ناول میں بھی نہایت کمزور اور کنفیوز کردار ہے۔ ایک جانب گوتم بدھا نے سچ اور نرمان کی تلاش میں بادشاہی، عیش و عشرت، آرام اور سکون کو چھوڑ کر، بیوی بچے بھلا کر چالیس سال تک در بہ در جنگلوں، صحراؤں میں بھٹکتا رہا جب کہ دوسری طرف سدارتھ نے گوتم کی مریدی ٹکراکر اِدھر اُدھر بے مقصد بھٹکنے کے بعد ایک خوبصورت طوائف کی گود میں پناہ لے لی۔ مال و دولت، عیش و آرام کمانے اور حاصل کرنے کے لیے تمام اخلاقی اقدار، اصول اور ضوابط کو روند کر شرابی اور جواری کے ’’اعلا مقام‘‘ تک رسائی حاصل کی۔ پھر پلٹا کھایا سادگی، عبادت اور ریاضت کی طرف مائل ہوگیا اور دریا کنارے جالاوان کے ساتھ اپنا اُوڑھنا بچھونا مسکن بنایا۔ پھر جب اپنی محبوبہ اور بیٹے سے ملاقات ہوگئی، تو تمام ریاضت، عبادت چھوڑ کر بیٹے کی محبت میں دیوانہ ہوا اور اُس کی تلاش میں آخر تک در بہ در پھیرتا رہا۔ اُسے بھی رام نہ کرسکا۔ وہ سدارتھ سے باغی ہوکر بھاگ کھڑا ہوا۔ پھر اس ناول کا مقصد کیا ہے؟ بقولِ شاہین بونیری: ’’ناول کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ علم منتقل ہوسکتا ہے۔ البتہ جاننے اور سمجھنے کے لیے اپنی منزل کا تعین کرکے اُسے تلاش کرنا پڑے گا۔ دوسرا یہ کہ پیار و محبت، علم و جاننے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ یہ سب کچھ انسانیت کے خوبصورت ڈور سے باندھا رہتا ہے۔ ہاں، یہ ایک عالمی سچ ہے۔کتاب میں صفحہ نمبر 57 پر کملا کیا خوبصورت اور حساس بات سدارتھ کو کہتی ہے: ’’سدارتھ تم اگر زبردستی مجھے چھوم لوگے، تو میرے لبوں کی مٹھاس کا ایک قطرہ بھی تمہیں نہیں ملے گا۔ سدارتھ! تم ایک اچھے شاگرد ہو، تو یہ بات سیکھ لو کہ محبت سوال اور منت پر مل سکتی ہے۔ محبت کو خریدا بھی جاسکتا ہے۔ پیار اور محبت تحفہ کے طور پر بھی مل سکتے ہیں، گلی کوچوں میں بھی محبت کو تلاش کیا جاسکتا ہے لیکن اس کو چوری نہیں کیا جاسکتا۔ تم جیسے جوان کو محبت کے اس راز کو سمجھنا چاہیے۔‘‘جب سدارتھ نے کملا کو ایک بوسہ لینے کے لیے بہت تنگ کیا، تو کملا نے کہا کہ بدلے میں کیا دوگے؟ تو سدارتھ نے کہا کہ ایک غریب ملنگ کے پاس کیا ہوگا؟ میں ایک نظم سناؤں گا۔ کملا نے کہا کہ چلو نظم سناؤ۔ اگر اس قابل ہوا۔ تو بوسہ دے دوں گی۔ اب ذرا دیکھیے کہ سدارتھ کیا خوبصورت نظم سنا رہا ہے:ایک حسن کی ملکہ کملااپنے باغ کی طرف جارہی تھیاور باغ کے دروازے پرایک سادا خاکی رنگ کا سادھو کھڑا تھااور جب اُس کی نظریں نیلو فر گل پر پیوست ہوگئیںتو نہایت احترام سے اُس نے سر جھکادیاکملا بھی چاہت سے مسکرانے لگیوہ جوان سادھو سوچ میں پڑگیااور دل میں کہنے لگا کہدیوتاؤں کی عبادت سے تو بہتر ہےکہ سب کچھ کملا کے حسن پر قربان کیا جائےاس نظم کے سنتے ہی کملا نے اس زور سے تالیاں بجائیں کہ ہاتھوں میں سونے کی چھوڑیاں بجنے لگیں اور کہنے لگیں کہ تمہارے اشعار بہت خوبصورت ہیں اور اگر بدلے میں، مَیں ایک بوسہ دے دوں، تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔اس طرح کتاب جگہ جگہ پیار و محبت کی باتوں، فکر و خیالات اورمکاملات سے بھری ہوئی ہے۔ سدارتھ کے مختلف حالات و واقعات کے حوالے سے اپنے دوست گویند کے ساتھ خیالات و نظریات کا تبادلہ پڑھنے کے قابل ہے۔ نظریاتی اختلافات کو صبر و برداشت کے ساتھ سننا اور عزت و احترام کے ساتھ ملنا اور جدا ہونا دلوں میں قدر و منزلت کے جذبات پیدا کردیتا ہے۔شاہین بونیرے نے پشتو ترجمہ میں فنی باریکیوں کا خیال رکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ ترجمہ میں روانی ہو اور پھیکا پن نہ ہو۔ لہٰذا انگریزی کے اصل الفاظ کو پشتو کے روایاتی خوبصورت اور رنگین الفاظ کے جامہ سے زیب تن کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔اگر چہ املا کی معمولی غلطیاں بھی ہیں۔ جہاں باپ ’’پلار‘‘ کو ’’پلا‘‘ لکھا گیا ہے۔ پوری کتاب اس لفظ سے بھری ہے۔ معیاری کتاب میں چھوٹی سی غلطیوں کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔کتاب کے ٹائٹل پیچ پر دکھایا گیا ہے کہ سدارتھ جارہا ہے اور سدارتھ کے سامنے گوتم بدھا کی ہلکی شبیہ نظر آرہی ہے، تو کیا ٹائٹل کا مطلب یہ ہے کہ سدارتھ، بدھا کی طرف بڑھ رہا تھا؟ لیکن کتاب میں تو یہی تاثر دیا گیا ہے کہ سدارتھ آخر تک بدھا کی طرف نہیں گیا بلکہ دونوں بالمقابل تھے۔ لہٰذا ٹائٹل اور کتاب کے مین تھیم میں تضاد ہے۔ پھر بھی شاہین بونیری کی کاوش قابلِ تحسین ہے۔ مَیں اُسے خوبصورت کتاب چھاپنے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ اس سے پہلے اُس کی کتاب ’’دیوال سرہ خبرے‘‘ شعور اور آگاہی کے لحاظ سے بہترین کتاب تھی۔ اُس کا ہر صفحہ سوئے ہوئے احساس کو جگا دیتا تھا اور مردہ ضمیروں میں زندگی کی روح پھونکتا تھا۔ ’’دیوال سرہ خبرے‘‘ نے ہر ذی شعور انسان کو سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ اس وقت پختونوں کو ایسی ادب کی ضرورت ہے جو منزل کا صاف تعین کرے، منزل کی طرف بڑھنے کے لیے راہنمائی کرے۔ دوست، دشمن کی پہچان کرائے۔ بلاشبہ شاہین بونیرے یہ بات ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ بہرحال بدھا کے بارے میں مؤرخین، محققین اور نقاد اس ناول کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ناول، ناول ہے اور اس میں ناول نگار، خیالی کرداروں اور کہانی کے حوالے سے کوئی موڑ بھی دے سکتا ہے۔ کوئی بھی کمی و بیشی کرسکتا ہے۔ ناول کی کسوٹی پر یہ ایک بہترین ناول ہے۔ انسانی زندگی کے مختلف رُخ اور میلان کو جانچا گیا ہے۔ وقت کے جبر کے آگے بھی مجبور ہے اور دل کے ہاتھوں بھی مجبور اور اولاد کی محبت مردہ اور مایوس دلوں میں جو انگڑائی پیدا کرتی ہے جو حوصلہ عطا کردیتی ہے، وہ واقعی ستائش کے لائق ہے۔ اولاد کی محبت نے ناول کے آخر میں سدارتھا کو بہت رلایا، بہت تڑپایا لیکن باوجود ہزار کوشش کے وہ بیٹے کی محبت نہ جیت سکا۔ یہی تاثر سدارتھا اور پوری ناول کا المیہ ہے۔ میں شاہین بونیری کی اس قلمی کاوش کو سراہتا ہوں اور دست بہ دعا ہوں کہ خداوند کریم اُسے مزید حوصلہ اور طاقت عطا کرے، اُس کا زور قلم اور زیادہ ہو، آمین!