وادی سوات کی تمام تر خوب صورتی، رعنائی اور شادابی کا انحصار دریائے سوات پر ہے۔دریائے سوات ہی کی بدولت سوات کی تمام وادیاں قدرتی حْسن و جمال کا مظہر دکھائی دیتی ہیں اور اس کا ہر گوشہ سرسبز و شاداب نظر آتا ہے۔ سوات کی تقریباً تمام قابل دید وادیاں ، دریائے سوات ہی کے کنارے آباد ہیں۔ ان میں اتروڑ،گبرال، اوشو،مٹلتان، گلیشیئر، کالام، بحرین، مدین، باغ ڈھیرء، خوازہ خیلہ، شین، چارباغ اور منگورہ شامل ہیں۔ دریائے سوات، وادی کالام سے لے کر ملاکنڈ کے بجلی گھر تک سو میل کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ اس دوران یہ وسیع و عریض علاقے کو سیراب کر کے اس کی شادابی اور رعنائی کا باعث بنتا ہے۔ دریائے سوات اتنا ہی قدیم ہے جتنی قدامت سوات کی خوب صورت سرزمین کو حاصل ہے۔ مشہور چینی سیاح ہیون سانگ نے بھی یہاں کے سپید پانی کا خصوصی ذکر کیا ہے اور گیارھویں صدی عیسوی میں البیرونی بھی سوات کے شفاف پانی کا ذکر کرتا ہے اور موجودہ وقت میں بھی سوات کے صاف و شفاف، چاندی کی طرح چمکتے ہوئے پانی کو دیکھا جائے تو عجیب سی مسرت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ دریائے سوات کے قریب ’’سپینے اوبہ‘‘ (سپید پانی) کے نام سے ایک بستی بھی موجود ہے۔اس لئے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس علاقے کے صاف و شفاف سپید پانی کے ندی نالوں اور دریا کی وجہ سے اسے ’’سواستو‘‘ یا ’’سویتا‘‘ پکارا گیا ہو گا۔ جو بعد میں چل کر ’’سواد‘‘ اور پھر’’سوات‘‘ بن گیا۔ مشہور چینی سیاح گ یون 502ء میں کافرستان (چترال) سے ہوتا ہوا سوات آیا تھا اس نے اپنے سفر نامے میں دریائے سوات کا ذکر ’’دریائے سوٹو‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ بعض تاریخی کتب میں اس کے نام ’’دریائے سوتی‘‘ یا سواستو اور ’’سولتاس‘‘ بھی ملتے ہیں جو چار ہزار سال قدیم زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس دریا کے نام کی مناسبت سے اس علاقے کا نام بھی ’’سوتی‘‘یا ’’سواستی‘‘ مشہور تھا جو بعد میں ’’سواد‘‘ یا ’’سوات‘‘ میں تبدیل ہو گیا۔ دریائے سوات کو سنسکرت میں ’’گوری‘‘ کا نام بھی دیا گیا اور قدیم مصنّفین کے ’’سوساتوس دریا‘‘(دریائے سوات) کا ذکر مقدس رگ وید میں بھی موجود ہے اور مہا بھارت میں بھی اسے یاد کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں یونانی سیاح ایرین نے بھی اپنی تحریروں میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ بہرحال مختلف ادوار میں دریائے سوات کو مختلف توصیفی ناموں سے نوازا گیا ہے اور ہر قوم اور حملہ آور نے اس کا نام اپنے مزاج اور روایات کے مطابق رکھا۔ موجودہ دور میں اس کا معروف نام ’’دریائے سوات‘‘ ہے اور جب یہ دریا وادی سوات کی حدود سے باہر نکل جاتا ہے تو دریائے پنج کوڑہ (دیر) کا معاون ہونے کی وجہ سے اسے ’’دریائے پنج کوڑہ‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ جب کہ وادی پشاور اور چارسدہ میں یہ دریا ’’جیندی‘‘ اور’’خیالی‘‘ کے ناموں سے مشہور ہے۔قدرت نے دریائے سوات میں جو مچھلیاں پیدا کی ہیں ان میں ٹراؤٹ مچھلی سب سے زیادہ مشہور ہے۔ اس کے علاوہ مہاشیر مچھلی اور سواتی مچھلی بھی پائی جاتی ہے۔ ٹراؤٹ مچھلی بہت سرد پانی میں ملتی ہے۔ اس کا ذائقہ نہایت لذیذ اور بے مثال ہوتا ہے۔ ان مچھلیوں کا شکار کانٹے، جال، بجلی کے کرنٹ اور ڈائنامائٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ تاہم کرنٹ اور ڈائنامائٹ کے ذریعہ مچھلی کا شکار غیر قانونی ہے۔