صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوئے کئی سال گزر گئے۔ اس عرصہ میں سوات کی سیاست کو انتہائی قریب سے دیکھا۔ عرصہ پہلے سوات کی سیاست میں عوامی لیڈر ہوا کرتے تھے جو ہر وقت عوام میں موجود ہوتے تھے جن تک رسائی کیلئے سیکرٹریوں اور چمچہ نما لوگوں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ یہاں ڈاکٹر محبوب الرحمن، ابرار چٹان، رفیع الملک کاکی خان جیسے عوامی لیڈروں نے سوات کے حقوق پر ہمیشہ آواز اٹھائی اور ان کے حصول کیلئے قید و بند کی صوبتیں بھی برداشت کیں۔یہ کون بھول سکتا ہے کہ اس مٹی پر اسفندیار امیر زیب جیسے لیڈروں نے بھی جنم لیا ہے۔ اگر آج سوات کے عوام کو تعلیمی بورڈ،سوات یونیورسٹی اور میڈیکل کالج جیسی سہولیات میسر ہیں، تو اس کا سہرہ اسفند یار شہید کے سر ہے۔ سوات کی عوامی سیاست میں غریب کیلئے بھرپور آواز اٹھائی جاتی تھی۔ مجال تھی کہ کوئی طاقتور کسی غریب کے ساتھ زیادتی کرتا۔ یہاں کی سیاست پاک تھی۔ آج مذکورہ عوامی لیڈرز موجود نہیں مگر اب بھی لوگ ان کو یاد کرکے روتے ہیں ۔سوات کی سیاست میں آج یہ معتبر شخصیات موجود نہیں جس کی وجہ سے اہل سوات سیاسی طور پر یتیم ہوچکے ہیں۔ اہل سوات کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں کوئی بھی آواز اٹھانے والا موجود نہیں۔ ایسا کوئی سیاست دان سوات میں نہیں ہے جو اہل سوات کے حقوق چھین کر لائے۔ سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ لیڈر شپ کی کمی کی وجہ سے سوات کی کچھ نامور شخصیات شانگلہ سے لیڈر امپورٹ کرکے اہل سوات کی ترجمانی کر رہی ہیں جو صرف باتوں تک محدود ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی کہ ان دنوں سوات کی سیاست شانگلہ سے کنٹرول ہورہی ہے۔ ایک وقت تھا جب سوات میں ایک سے بڑھ کر ایک لیڈر موجود تھا۔ اب یہ بھی ایک وقت ہے کہ سوات کے سیاسی مشران اپنا قبلہ شانگلہ کو سمجھتے ہیں۔ شانگلہ سے ایم ایم اے کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے انجینئر امیرمقام صاحب سیاست سے پہلے ٹھیکیداری کرتے تھے۔ یہاں ایک بات بتا تا چلوں کہ پیارے پاکستان میں سیاست اور ٹھیکیداری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یار لوگوں کو اس بات کا بخوبی پتا ہے۔اگر ٹھیکیداری او رسیاست لازم وملزوم نہ ہوتے، بلدیاتی انتخابات میں ٹھیکیداروں کی فوج ظفر موج حصہ ہی نہ لیتی۔ یہ میں بہک کر کہاں نکل گیا۔ ایم ایم اے کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے انجینئر امیر مقام سے شانگلہ کے عوام نے بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں کہ یہ شانگلہ میں بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ شانگلہ میں ہسپتال قائم کریں گے۔ سڑکوں کی تعمیر ہوگی اور خوشحالی ہوگی، مگر ان کو کیا پتا تھا کہ اسلامی نظام کی جدوجہد کیلئے کامیاب بنایا جانے والے انجینئر صاحب بے وفائی کرکے ذاتی مفادات کیلئے چودھریوں کی گود میں جا بیٹھیں گے۔ پھر مشرف کے بھائی بن کر مزید پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹیں گے۔اس کے بعد مشرف کو بھی انگوٹھا دکھا کر میاں نوازشریف کی جھولی میں پکے آم کی طرح گر جائیں گے۔امیر مقام صاحب شانگلہ کی پسماندگی دور تو نہ کرسکے۔ البتہ زبردستی سوات کے عوام کے گلے ضرور پڑ گئے۔معزز قارئین، میں سوچتا ہوں کہ انجینئر امیر مقام نے آج تک شانگلہ کو کتنی ترقی دی ہے جو سوات کو بدلنے کے نعرے فر ما رہے ہیں؟ آج بھی شانگلہ سے مریض سیدو شریف ہسپتال پہنچنے سے پہلے پہلے دم توڑ جاتا ہے۔ کیا شانگلہ کے عوام کی زندگی تبدیل ہوئی ہے جو سوات کے عوام دھوکا ہورہے ہیں؟ آج یہ بات میرے ذہن میں مسلسل گھوم رہی ہے کہ دو ہزار دو سے لیکر اب تک یہ شخص کبھی اقتدار سے محروم نہیں رہا۔ مسند اقتدار پر جو بھی فائز ہو یہ اس کا ساتھی ہوتا ہے۔ آج کل موصوف مسلم لیگ ن کی شان بڑھا رہے ہیں اور سوات کی سیاست میں بے جا دخل اندازی بھی فرما رہے ہیں۔ موصوف کیلئے پارٹی آئین اور پرانے ورکرز کوئی معنی ہی نہیں رکھتے۔ جھوٹ اور فریب کی سیاست کی وجہ سے سوات کے کئی نامور مشران پارٹی کوچھوڑ چکے ہیں۔ اور تو اور موصوف کی نظر میں والئی سوات کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیدوشریف کے ودودیہ ہال میں والئی سوات میانگل عبدالحق جہانزیب کی یاد میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی مگر انجینئر صاحب نے مٹہ میں اچانک تقریب والے دن کئی جلسے منعقد کئے، تاکہ لوگ تقریب میں کم سے کم حاضر ہوسکیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موصوف خود والئی سوات کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے محفل کی رونق دوبالا کرتے مگر…… یہ تو بھلا ہو شانگلہ ،سوات اور بونیر کے غیور عوام کا جو ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوئے اور والئی سوات کو خراج عقیدت پیش کیا۔معزز قارئین، آپ انجینئر صاحب کی سیاست سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ سوات کے عوام کیساتھ مخلص نہیں ہیں۔ وہ یہاں خود ’’دوسرا والئی سوات‘‘ بننا چاہتے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے اقتدار میں موجود ہونے کے باوجود اس نے سوات کے عوام کیلئے کچھ نہیں کیا ہے۔ بس صرف اتنا کیا ہے کہ سوات کے مشران کی توہین کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔ جب بھی سوات کا کوئی مقامی ممبر کسی ترقیاتی کام کا آغاز کرتا ہے، تو انجینئر صاحب موصوف بن بلائے مہمان کی طرح اس ترقیاتی کام کا افتتاح کر ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی ترقیاتی کام پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ ایک عرصہ سے سوات کے سیاسی مشران امیر مقام کی حیثیت کو سوات میں تسلیم نہیں کرتے تھے۔ عام انتخابات میں ہر امیدوار ووٹروں سے یہی کہتا رہتا تھا کہ مجھے ووٹ نہ دو، مخالف کو دو مگر امیر مقام کو بالکل نہیں دینا۔ مگر بلدیاتی انتخابات میں سوات کے سیاسی مشران سے غلطی ہوئی۔ بلدیاتی انتخابات کے بعد امیر مقام نے سیاسی چال کھیل کر سوات کے سیاسی مشرا ن کو اپنے دربار پر بلا کراتحاد کے بہانے اپنی حیثیت ان سے منوالی۔ ہمارے سیاسی مشرانوں کی غلطیوں کی وجہ سے انجینئر امیر مقام سوات میں اپنی سیاسی قد بڑھا رہا ہے۔ اگر ہم عوام اور سیاسی مشران اپنے مسائل کے حل کیلئے ایک دوسرے پر اعتماد کریں، تو مسائل حل ہوجائیں گے۔ تمام سیاسی مشران سے بھی اپیل ہے کہ اقتدار اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سوات کے عوام کی خدمت کرکے انجینئر امیر مقام کی سیاست کو سوات سے ختم کروائیں، تاکہ ترقی کا جو پہیہ رکا ہے، یہ پھر سے رواں دواں ہو