فضل محمود روخان

(تاریخِ پیدائش 1936ء وفات 17 جنوری 2016ء)

ڈاکٹر فتح مند خان جی کو پہلی دفعہ مَیں نے اُس وقت دیکھا تھا جب اُن کی ڈیوٹی سنٹرل ہسپتال سیدو شریف میں تھی۔ انہوں نے ہمارے محلہ بوستان خیل مین بازار مینگورہ میں کلینک کھولا تھا۔ فالتو وقت میں وہاں مریضوں کا علاج بھی کرتے تھے۔ مَیں اُن دنوں سوات سے باہر تھا…… لیکن جب بھی گھر آتا تھا، تو اُن پر ایک نظر پڑتی تھی۔ڈاکٹر فتح مند خان جی بڑی پُرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ لمبا قد، گوری چٹی رنگت، بڑے بڑے بال آپ پر بہت جچتے تھے۔ غالباً 1971ء یا 1972ء کی بات ہوگی…… لیکن اُن سے علیک سلیک ابھی نہیں ہوئی تھی۔ پھر کافی عرصہ بعد میرے بیٹے نثار احمد کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے بیٹوں وقار خان، عنبر خان کی شناسائی ہوئی۔ ان کا ایک دوسرے کے ساتھ آنا جانا ہوا۔ اس دوران میں میرے بیٹے نے میری کچھ کتابیں اُنہیں گفٹ کیں جو انہیں اور ڈاکٹر صاحب کو بہت پسند آئیں۔ بعد میں وقار خان نے مجھے شاہ پور شانگلہ آنے کی دعوت دی، جو مَیں نے قبول کی۔ وہاں جاکر پتا چلا کہ ڈاکٹر صاحب خود بھی ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ ادب کو تخلیق کرتے ہیں۔ شعر و شاعری سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ڈاکٹرصاحب اپنے علاقے کے معزز ترین لوگوں میں سے ہیں۔ اُن کا دادا پیرداد خان (ڈنڈ خان) بانیِ ریاستِ سوات میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ ریاستِ سوات کو مستحکم کرنے اور توسیع دینے میں ڈنڈ خان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ریاستِ سوات میں شانگلہ کو شامل کرنے میں اُن کا کردار نمایاں ہے۔ڈاکٹر فتح مند خان جی کے والد محمد سربلند خان سوات کے فوج میں صوبیدار میجر تھے۔ خود ڈاکٹر صاحب ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے فارغ التحصیل تھے۔ وہاں انہوں نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ملازمت کے دوران میں انہوں نے سنٹرل ہسپتال سیدو شریف، کروڑہ ہسپتال اور الپوری شانگلہ کے ہسپتال میں ڈیوٹی سرانجام دی ہے۔ بعد میں ایک مقامی سنیٹر نے جو پی پی پی سے تعلق رکھتے تھے، ذاتی میں ڈاکٹر فتح مند خان جی کی تبدیلی اولاً چترال ، ثانیاً کاٹلنگ ضلع مردان میں کردی۔ ڈاکٹر صاحب ایک اصول پسند آدمی تھے۔ انہوں نے یہ دخل اندازی اپنے پیشے کے خلاف محسوس کی اور ملازمت کو خیر آباد کہہ دیا۔ شاہ پور شانگلہ میں کلینک کھولی اور غریب مریضوں کو مفت علاج مہیا کیا۔ آخر دم تک وہ خدمتِ خلق پر مامور رہے۔ڈاکٹر فتح مند خان جی کو اپنے بیٹے ڈاکٹر مبارک علی خان جی کی حادثاتی موت سے دلی صدمہ پہنچا تھا اور انہوں نے اُن کی یاد میں خان جی کا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ باندھ لیا۔ انہوں نے سیاست میں بھی حصہ لیا۔ دو دفعہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔اس طرح انہوں نے پشتو ادب میں کتب ’’گریوان‘‘، ’’خوب‘‘، ’’تصویر‘‘، ’’پرھر جلی احساسونہ‘‘ اور ’’دا خو مینہ نہ دہ‘‘ تخلیق کیں۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے اور نثر بھی لکھتے تھے۔ انہوں نے اُردو میں اپنی آپ بیتی ’’مشاہدات زندگی‘‘ بھی تصنیف کی ہے۔ڈاکٹر فتح مند ایک نامی گرامی خان تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک مسیحا بھی تھے۔ انہیں سکیورٹی گارڈ کی ضرورت قطعاً نہیں تھی…… لیکن اُن کے بیٹے ملک احمد خان کی یہ ادا مجھے بہت پسند آئی۔ وہ یوں کہ ایک رات میں اُن کا مہمان تھا۔ حجرے میں ہم رات گئے تک بیٹھے تھے۔ جب ڈاکٹر صاحب اپنے بیٹوں کے ہمراہ گھر جانے لگے، تو اُن کے ایک بیٹے ملک احمد خان نے سکیورٹی گارڈ کی طرح مشین گن اٹھائی اور اُن کے پیچھے پیچھے ہولیے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر مجھے کہا کہ یہ میرا باڈی گارڈ ہے۔ڈاکٹر صاحب جب بھی مینگورہ آتے، تو مجھ سے ضرور ملتے تھے۔ ہم نے اکٹھا پشتو ادب کے لیے کام کیا ہے۔ وہ ہمارے ساتھ چاچا کریم بخش پشتو ایوارڈ کے ممبر تھے۔ شانگلہ میں جب بھی وہ ادبی پروگرام منعقد کرتے، تو مجھے اور میرے ساتھیوں کو خصوصی دعوت پر بلاتے۔ وہاں جب وہ ہماری عزت اور مہمان داری کرتے…… وہ میرے لیے اور میرے ساتھیوں کے لیے ناقابل فراموش ہوتی۔جنوری 2016ء کو میں بیمار پڑگیا اور بعد میں آپریشن بھی کرنا پڑا۔ آپریشن کے بعد میں گھر پر صاحبِ فراش تھا کہ مجھے بذریعہ اخبار ڈاکٹر صاحب کی وفات کی خبر ملی۔ مَیں بیماری کی وجہ سے اُن کی تدفین اور جنازے میں شریک نہیں ہوا تھا، جس کا مجھے آج تک افسوس ہے۔ اُن کے بیٹے وقار خان سے میرا وہ پرانا قریبی تعلق ہے۔ وقار خان شانگلہ کی سیاست میں اپنا رول ادا کررہا ہے۔ اُس کی خاندانی اور سماجی حیثیت کا تقاضا ہے کہ وہ بغیر سیاسی پارٹی اور سیاست سے الگ نہیں رہ سکتے۔ گو کہ ہمارا سیاسی نظام اتنا مستحکم نہیں کہ ہم قابل اور مخلص لوگوں کو انتخاب میں اسمبلیوں میں بھیج سکیں، اور اس وجہ سے آئے روز ہمیں اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ ہمارا ملک ترقی نہیں کرسکتا کہ پیسے کے زور پر ٹھیکیدار قسم کے لوگ اسمبلی میں براجمان ہوتے رہتے ہیں اور لائق فائق، مخلص لوگ اسمبلیوں میں نہیں پہنچ پاتے کہ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکیں۔