ڈاکٹر سلطان روم

محترم برخوردار فضل ربی راہیؔ نے میرے کالم ’’ہمارے لکھاری اور تاریخ(3)‘‘ کے حوالے سے، اپنی سابقہ روش کو برقرار رکھتے ہوئے،ایک مرتبہ پھرعجلت پسندی کے عالم میں تحریر کیے گئے اپنے کالم بہ عنوان ’’کچھ تاریخی حقائق مستقبل کے مؤرخ کے لیے بھی چھوڑیں!‘‘ میں اپنی غلطی کو تسلیم کرنے اوراس پر معافی مانگنے،یازیرِ بحث بنیادی نِکات کے حوالے سے لکھنے، کویکسرنظرانداز کرکے غیرمتعلقہ باتیں چھیڑکرایک بار پھربات کا بتنگڑ بنانے کی لاحاصل کوشش کی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا ہے کہ اگر برخوردارمیں بنیادی نکتے کے حوالے سے یا موضوع کے مطابق لکھنے کی صلاحیت کی کمی تھی، تولکھنے سے اجتناب کرتے،یا جن دو نِکات پرمیری تحریرمحیط تھی،وہ بھی اپنی تحریرکواُن تک محدودرکھتے، تو کتنااچھاہوتا۔ علاوہ ازیں اگران نِکات کے حوالے سے ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل موجودنہیں تھی، توپھر اپنی غلطی تسلیم کرتے یاخاموش ہی رہتے۔ میرے نزدیک یہ ان کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا۔اس لیے کہ اس صورت میں ان کی ساکھ یہ کہہ کرمحفوظ ہی رہتی کہ مَیں نے اپنی غلطی تسلیم کی یامذکورہ کالم نگار میرے لیے استادکا درجہ رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے احتراماً ہی جوابی تحریر سے گریز کیا۔مَیں نے تو اس حوالے سے اپنے پہلے کالم میں نام لکھنے سے اجتناب برتتے ہوئے ایک عمومی انداز میں کالم لکھا، تاکہ کچھ پردہ داری رہے اور اس وجہ سے ’’مترجم‘‘ ہی لکھاتھا۔ کتنے لوگوں کو معلوم تھاکہ یہ مترجم کون ہے؟لیکن برخوردارفضل ربی راہیؔ نے کالم لکھ کرخود دنیاپرواضح کردیا کہ یہ مَیں ہی ہوں۔ اپنے مذکورہ بالاتازہ کالم میں انھوں نے جن نئی باتوں کو زیرِبحث لانے کی کوشش کی ہے، انھیں پڑھ کریوں محسوس ہوتاہے کہ وہ اپنے پاؤں پرخودکلھاڑی مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی نئی تحریرکے حوالے سے لکھتے ہوئے نظر آرہاہے کہ نہ صرف ان کی ساکھ کو مزیدنقصان پہنچے گا بلکہ مزید جگ ہنسائی بھی ہوگی۔ لہٰذاان باتوں کے ضمن میں لکھنے کی بجائے چندایک ایسی باتیں لکھنا چاہوں گاجن کے نتیجے میں امید ہے کہ برخورداراپنی انا کے خول سے نکل کر، ہوش وحواس سے کام لے کراپنی روش پرنظرِ ثانی کریں گے۔قرآنِ کریم میں دوقسم کے رویوں کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایک شیطان کااوردوسراآدم علیہ السلام کا۔ شیطان کارویہ یہ رہا کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے اپنی اَنانیت کے ہاتھوں مجبورہوکر غلط بات اورمؤقف پرڈٹ کراس کے دفاع کی مذموم کوشش میں لگارہا اوراس طرح مردود ہی ٹھہرا۔جب کہ آدم علیہ السلام نے بغیرکسی قیل و قال کے اپنی غلطی تسلیم کی۔ چناں چہ اللہ تعالا نے اس کی غلطی معاف فرمائی۔دوسری قسم کے رویے کاذکر، اس بابت میرے پہلے کالم میں، برخوردارفضل ربی راہیؔ کی ایک تحریرسے کچھ اس طرح نقل شدہ ہے کہ اسی طرح وہ فضل خالق کی کتاب ’’جہانِ شرق و غرب‘‘ پراپنے تبصرے میں لکھتا ہے :’’جاپان کے سفر نامہ میں مجھے ان کی اس بات نے بے حد متاثر کیا، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ یہاں مختلف لوگوں سے بات چیت کے دوران میں مجھے پاکستان کے بارے میں ایک ہی تاثر ملا اور وہ تاثر دہشت گردی کا تھا اور میں حیران تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے علاوہ بہت ساری اچھی چیزیں بھی ہیں، لیکن ان کے بارے میں یہ لوگ نہیں جانتے، مگر فضل کوجب وہاں اپنے ملک کے تعارف کا موقع ملا، تو انھوں نے واضح کیا کہ میں آج دہشت گردی سے متاثرہ ملک پاکستان سے آپ کے سامنے مخاطب نہیں ہوں بلکہ ایک ایسے ملک کے نمائندے کی حیثیت سے مخاطب ہوں جو قدیم تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے اورجہاں سندھ اور مہر گڑھ کی تہذیبوں کے علاوہ شہرہ آفاق ’’گندھارا تہذیب‘‘ نے بھی جنم لیا اور دوام پایا تھا۔ جہاں سوات اور شمالی علاقہ جات جیسی خوب صورت وادیاں دامنِ دل کھینچ لیتی ہیں۔ بدھ مت اور دیگر اقوام کی قدیم تاریخی اور تہذیبی آثار یہاں کی شناخت ہیں۔مَیں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ پاکستان آئیں اور وہاں کی حیرت انگیز خوب صورتی کے علاوہ اس کی قدیم و جدید تہذیب اور ثقافت کی متنوع طلسماتی دنیا کی سیر کریں۔فضل خالق جیسے سیلف میڈ اور باصلاحیت جوانوں کو جب عالمی سطح پر آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے تو وہ اپنے ملک کا روشن اور پُرامن رُخ سامنے لانے میں کسی بخل سے کام نہیں لیتے۔‘‘تو فضل خالق کے ’’جاپان کے سفر نامہ میں‘‘ جس ’’بات‘‘ نے برخوردار کو ’’بے حد متاثر کیا‘‘ خود اس کے برعکس بالکل اُلٹ باتیں لکھنے کے لیے انھیں اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیناچاہیے۔تیسری مثال انھوں نے خودشاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت کی ان کی تنقید کا مدلل جواب دینے کے نتیجے میں، ان سے باقاعدہ معافی مانگنے کی تحریرکی ہے۔مذکورہ بالا تینوں مثالوں میں آدم علیہ السلام،فضل خالق اورشاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی شخصیت کے رویوں کو مدنظررکھتے ہوئے، برخوردار فضل ربی راہیؔ کواپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے، اپنے معززخاندان، دوستوں اورعمومی طورپر سوات کے ان باعزت شہریوں سے معافی مانگنی چاہیے جومفت میں ان کی تحریرکی زد میں آگئے ہیں۔ نیزانھیں اپنی تحریرکے اُن حصوں کی تصحیح کچھ اس طرح کرنی چاہیے جیساکہ وہ کہتے ہیں کہ ان سے ان کامطلب کیاہے، تاکہ کوئی بھی متعصب اورمنفی ذہن والاان میں کوئی دوسرے معنی ڈالنے اوران کے دوسرے مطالب نکالنے کی سرتوڑکوشش کے باوجود ایسانہ کرپائے۔ اس طرح ان کی ساکھ بھی کسی حد تک بحال رہ جائے گی اوروہ مزیدرسوائی سے بچ بھی جائیں گے۔تاہم ایسا کرنے کے لیے انھیں بڑے دل گردے اوراعلا ظرفی کی ضرورت ہے۔یار زندہ صحبت باقی!