بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (ایف پی اے) ٹیکس میں اضافے کیخلاف دائر رٹ پر پشاور ہائیکورٹ نے واپڈا حکام سے 2روز میں جواب مانگ لیا جبکہ سماعت 10فروری تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔

رٹ میں ایف پی اے ٹیکس کو غیرقانونی وغیرآئینی قراردینے کی استدعا کی گئی ہے۔ جسٹس روح الامین خان اور جسٹس ارشدعلی پر مشتمل بنچ نے درخواست گزار پیر سجاد علی شاہ وغیرہ کی رٹ پر سماعت کی، انکے وکلاء نورعالم خان اور شبینہ نورایڈووکیٹس نے عدالت کو بتایا کہ بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ٹیکس کی آڑ میں شہریوں سے بھاری بل وصول کئے جارہے ہیں جو صارفین کے ساتھ ناانصافی ہے ۔ ایف پی اے ٹیکس لاگو ہونے سے ان بلوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ رٹ میں موقف اپنایا گیا ہے کہ جن صارفین نے 2000روپے کی بجلی استعمال کی ہو تو انہیں 4000روپے ادا کرنا ہونگے جبکہ 400روپے کی بجلی استعمال کرنیکی صورت میں 1500روپے ادا کرنا ہوںگے۔ اضافی بلوں کے خلاف صوبے کے مختلف اضلاع میں نہ صرف احتجاجی مظاہرے کئے گئے بلکہ لوگوں نے پیسکو کے دفاتر میں شکایات بھی درج کرائی ہیں۔

رٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ غربت وبیروزگاری کیوجہ سے پہلے ہی لوگ پریشان ہیں، اب ہر ماہ انہیں بجلی کے بھاری بل بھیج دیئے جاتے ہیں جو غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے اس کی ادائیگی ناممکن ہے۔ درخواست گزاروں کے وکلاء نے پشاور ہائیکورٹ سے بجلی کے بلوں میں ایف پی اے ٹیکس غیرقانونی قراردینے کی استدعا کی ،دو رکنی فاضل بنچ نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد فریقین کو نوٹسز جاری کرکے جواب طلب کرلیاجبکہ سماعت 10فروری تک کیلئے ملتوی کردی۔ واضح رہے کہ رٹ میں چیئرمین واپڈا، ایم ڈی پیسکو اور دیگرحکام کوبھی فریق بنایا گیا ہے۔