ڈاکٹر محمد طاہر بوستان خیل
فضل محمود روخان کاشمار سوات کے ان ادیبوں میں ہوتا ہے…… جنہوں نے پشتو اور اُردوادب کوتقویت بخشی۔ ان کی تقریباً 11 کتابیں جو پشتو، اُردودونوں زبانوں میں ہیں …… منظرِ عام پر آچکی ہیں۔
پاکستان نیشنل سنٹر مینگورہ سے ادبی سفر کا آغاز کرنے والے یہ ادیب سوات کی ادبی تنظیم ”سوات ادبی سانگہ“ جس کی بنیاد 1984ء میں رکھی گئی، کے بانی بھی ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے ادبی پروگراموں کا انعقاد وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔
زیرِتبصرہ کتاب فضل محمود روخان کاوہ ادبی کارنامہ ہے جس میں تقریباً 52 مختلف شخصیات کا تذکرہ ملتا ہے۔مصنف نے ایسی شخصیات کا چناو کیا ہے…… جو مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ ”ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم“ سیاسی، سماجی، مذہبی اور تاریخی اہمیت کی حامل ان شخصیات کے تذکرے ہیں جن کی طرف سوات کے دیگر ادیبوں نے کم توجہ دی۔ فضل محمود روخانؔ نے اپنی علمی بصیرت کے ذریعے ایسی شخصیات کا چناو کیا ہے…… جن میں سے کسی پر مصنف نے احسان نہیں کیا…… نہ کسی صلے یا کسی مقصد کے حصو ل کی خاطر ہی لکھا…… بل کہ ایسے ہیروں کے بارے میں قلم اُٹھایا جو واقعی تاریخ میں رقم کرنے کے حق دار ہیں۔ بلاشبہ انہوں نے ایسی شخصیات کے تذکرے لکھے ہیں …… جو اپنی خدمات کے حوالے سے ہمیشہ جانے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے مصنف نے بلاکسی امتیازی سلوک کے اور بغیر کسی خوف کے قلم اُٹھایا۔ ان میں معروف شخصیات کے علاوہ ایسی عام شخصیات بھی ہیں جن کے بارے میں پڑھ کر اندازہ ہو تا ہے کہ مصنف نے تذکرہ نگا ری کا حق ادا کیا ہے۔ مثلاً کتاب کے صفحہ 142 پہ پروفیسر محمد ہیراج ایرجؔجو ایک نہایت ہی سادہ اور مذہبی انسان تھے جنہوں نے موت تک علم کے نور سے معاشرے کو منور کیے رکھا۔ اس طرح صفحہ 182 پہ سوات کے درویش منش ادیب، صحافی، نقاد، سفر نامہ نگاراور بدھ مت کے ماہر پرویش شاہینؔ کے بارے میں معلوم سے نامعلوم حقایق تک قارئین کو پہنچا کر ادبی تاریخ پر بڑا احسان کیا۔
مصنف کے حوالے سے ضیاء الدین یوسف زئی لکھتے ہیں کہ میں وثوق سے کہتا ہوں کہ روخان ؔصاحب پشتو ادب کے ان معدودے چند سر خیلوں میں شامل ہیں جنہوں نے سوات میں شعر و ادب کی ترقی کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔
مصنف کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے ان 52 مختلف شخصیات کا نہ صرف سوات سے انتخاب کیا…… بل کہ صوبے کے دیگر علاقوں میں جہاں بھی انہیں کوئی شخصیت جو عام ہی کیوں نہ ہو، ان کی توجہ کا مرکز بنی، انہوں نے اس کے متعلق معلومات فراہم کرکے اس کا خاکہ بنا کر ”ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم“ جیسے بامعنی مجموعے میں شامل کر دیا۔ مصنف نے ادیبوں، شاعروں، اساتذہ، طب سے متعلق شخصیات اور حتٰی کہ ان لوگوں کے حوالے سے بھی لکھا جنہوں نے واقعی بڑے کارنامے سر انجام دیے…… لیکن عام لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ تھے۔ ان شخصیات میں عبد القیوم بلالا بھی شامل ہیں جو اعلا تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ سیاح بھی ہیں۔ سوات سے کراچی تک کا سفر اپنی ہی سائیکل پرطے کرنے والی یہ شخصیت کئی کتابوں کی خالق بھی ہے…… لیکن ادیبوں اور بلند بانگ دعوے دار لکھاریوں کی نظروں سے اوجھل رہے۔
اس طرح مصنف فضل محمود روخان ؔنے مذہبی پابندی اپنے اوپر عاید نہیں ہونے دی اور کتاب کے صفحہ 205 پر سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے ”منی رام“ کی زندگی کے مختلف گوشوں سے بھی قارئین کو آگاہ کیا۔ مصنف نے ”منی رام“ کے سوات میں قیام اور یہاں کے باشندوں کے ان کے ساتھ منفی رویے کے بارے میں بلا خوف و خطر لکھا۔
فضل محمود روخانؔ کی اس کتاب کے حوالے سے سوات کے ہر دل عزیز ادیب اور دانشور فضل رابی راہی ؔیوں رقمطراز ہیں: ”فضل محمود روخان ؔ نے حقیقی معنوں میں بڑے لوگوں کے خاکے بھی لکھے ہیں اور ان عام لوگوں کو بھی اپنے جادوئی قلم کے ذریعے آشکار کیا ہے جو اپنے کسی انسانی وصف کی وجہ سے غیر معمولی بن گئے ہیں۔ یہی پہلو کتاب میں موجود آئین خان،جمعہ خان، جمعہ فقیر، منی رام، شیر نواب، حاجی محمد اسماعیل اور محمد خان سپرنٹنڈنٹ وغیرہ کے خاکوں سے واضح ہو تا ہے۔“
مصنف کو اس کتاب کے لکھنے کے لیے روحانی طور پر اشارہ ملنے کی صورت میں انہوں نے دن رات ایک کرکے اس اہم اور ضروری کام کو بخوبی پایہئ تکمیل تک پہنچا کر نہ صرف ادب پر احسان کیا…… بل کہ حقیقی معنوں میں سوات میں فن خاکہ نگاری کا حق ادا کیا۔ میری دعا ہے کہ اللہ انہیں ادب کی خدمت کے لیے یوں ہی ہشاش بشاش رکھے، آمین!