ایڈوکیٹ صیاد حسین ترکئی
ساری دنیا میں ایک طریقہ رائج ہوا ہے کہ تعلیمی اداروں میں داخلوں سے لیکر نوکریوں اور بھرتیوں سے ہوتے ہوئے ترقی تک کا سفر قابلیتی ٹیسٹ کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے لیکن پوری دنیا میں سب سے پہلے ٹیسٹ کا سیلیبس،ٹیسٹ بنانا،ٹسٹ مراکز،سٹاف اور جگہ کا انتخاب ایک خاص اصولوں کے مطابق ہی کیا جاتا ہے اور ان اصولوں کی پیروی نہ کرنے کی صورت میں متبادل ذرائع بھی موجود ہوتے ہیں لیکن نہایت افسوس سے لکھنا پڑھتا ہے کہ ہمارے ہاں بد قسمتی سے تعلیمی اداروں میں داخلوں سے لیکر بھرتیوں اور تعیناتی کے ٹیسٹوں تک ذیادہ تر ٹسٹ بغیر کسی خاص اصول و قوانین کے تیار کئے اور لئے جاتے ہیں۔پاکستان کے بڑے بڑے ٹیسٹنگ ایجنسیوں کا بھی کوئی خاص لائحہ عمل نہیں ہوتا۔جسمیں FPSC اور KPPSC سے ہوتے ہوئے چھوٹے چھوٹے اداروں تک کے نظام پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ سب بالکل عجیب نظارہ پیش کرتا ہے۔
گزشتہ روز عبد الولی خان یونیورسٹی مردان )جو پاکستان کی نمبر ایک یونیورسٹی جانی جاتی ہے(مجھے LL.M کے داخلے کیلئے ایک ٹسٹ دینا پڑا جو ٪50انگریزی اور ٪50 میتھ پر مشتمل تھا۔انگریزی کے پورشن کے بعد میتھ کے پورشن میں چند سوالات بمشکل حل کئے بغیر میں نے نہاہت عزت و احترام کے ساتھ سٹاف میں سے کسی ایک کو اشارہ کرکے نزدیک آنے کو کہا کہ سر آپ ایڈمیشن سیکشن سے رابطہ فرمائے کہ آیا یہ ٹسٹ لاء گریجویٹس کیلئے تیار کیا ہے یا میتھ والوں کے ساتھ تبدیل ہوکر ہمیں غلطی سے دیا ہوا ہے تو کچھ دیر بعد وہ آکر بولا کہ نہیں بھائی ادارے کے مطابق یہ ٹسٹ صحیح اور درست ہے۔پھر میں سوچ رہا تھا لاء گریجویٹس پانچ سال مسلسل لاء پڑھنے کے بعد جب مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے کیلئے جاتا ہے تو انکی قابلیت کا اندازہ میتھ اور انگریزی کے ذریعے کیوں معلوم کرنا ضروری ہوتا ہے؟
اسی بات پر سوچ رہا تھا کہ ذہن میں اس سے منسلک چند دیگر سوالات نے بھی جنم لیا کہ ہمارے ہاں اگر کسی سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں کسی پوسٹ پر بھرتیاں ہونا ہوں تو پاکستان آرمی میں بھرتی ہونے کے علاوہ دیگر تقریباً تمام اداروں میں ٹسٹ دینے کیلئے سب سے پہلے ہزاروں روپے دینے پڑیں گے یعنی ایک ٹسٹ کیلئےApplyکرتے وقت 500 سے 3000 تک روپے دینے کے بعد ٹسٹ دینا ہوگا اور اگر ٹسٹ بھی غیر متعلقہ اور بے محل ہوں تو اسکو ہم جوان طبقے کے احساسات،جزبات،خواہشات فکر اور تعلیم و تربیت کے ساتھ کھلواڑ کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں؟
امتحانی مراکز میں سرکاری بلڈنگ کے اندر سرکاری کام پر مامور شخص موبائل فون کو محفوظ رکھنے کے نام پر سینکڑوں روپیہ ہر شہری سے وصول کرتا ہے تو یہاں ٹیسٹنگ ایجنسیوں اور حکومت پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہوتا ہے کہ آیا حکومت اور ادارے کسی ایسے شخص کو نہیں بٹھا سکتے کہ ٹسٹ کے دوران موبائل فون اور دیگر ضروری سامان کو تحفظ فراہم کرے جیسا سٹیٹ بینک،CPO پشاور اور دیگر اہم جگہوں پر بندوبست ہوا ہے اسی طرح یہاں کیوں نہیں ہوسکتا؟ سول میں تعیناتی سے پہلے غریب عوام کی جیبوں سے پیسے بٹورنا،تعلیم کو کاروبار اور کرپشن کا بازار ہر طرف گرماگرم نظر آرہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں دوسری طرف اگر ہم پاکستان آرمی میں تعیناتی کے انتظامات پر نظر دوڑائیں تو سول کی نسبت وہ کئی گناہ بہتر نظام اور اصولوں کے تحت بھرتی کے مراحل سے گزرتی ہے۔
لیکن یہاں پہلے سے ٹیکسوں اور دیگر چارجز کے ذریعے تنگ اور غریب عوام بالخصوص جوان طبقے پر اگر نظر دوڑائی جائے تو تمام تر خاموشی سے ان جیسے ہزاروں مسائل کو برداشت کر رہے ہیں اور معاشی لحاظ سے کمزور طبقے والے افراد تو مقابلے کے امتحان سے بھی لاچار رہ جاتے ہیں جو ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔تمام ذمہ دار اشخاص کو اس پر نوٹس لینا چاہئے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جتنے لوگ بھی شکایات کرنےوالے ہوں اسکا کوئی خاص حل نہیں کیا جاتا بس دعا ہے کہ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ ہمارے ملک خداداد پاکستان کا حامی و ناصر رہے اور اللّٰہ ہم سب پر رحم فرمائے آمین۔
پاکستان زندہ باد