غالباً 18 اگست 2017 ء کو اسلام آباد سرینا ہوٹل میں افغانستان کے یوم تاسیس کی پُروقار تقریب میں اس وقت کے وزیرِ خارجہ سمیت ساری پارٹیوں کے کچھ قایدین شریک تھے۔ رات دیر کو پروگرام اختتام پذیر ہوا، تو حسبِ معمول وہاں پر موجود لوگوں اور کارکنوں نے قایدین کے ساتھ تصاویر اور سلفیاں لینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس پروگرام میں مجھے مشر محمود خان اچکزئی، افراسیاب خٹک، بشریٰ گوہر، سلیم صافی اور حنیف الرحمان سمیت دیگر مشران اور صحافیوں کے ساتھ ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس اثنا میں میری نظر محترم میاں گل عدنان اورنگزیب پر نظر پڑی، جو کسی صحافی کو انٹریو دے رہے تھے۔ فارغ ہوئے، تو مَیں نے ساتھیوں سے کہا کہ چلیں! اپنے سوات کے میاں گل عدنان باچا سے ملتے ہیں۔ ساتھیوں نے بھی سیاسی اعلا ظرفی کا مظاہرہ کیا اور موصوف کے ساتھ ملنے پر متفق ہوئے۔ باچا انتہائی خوشگوار موڈ میں ملے اور خوش ہوئے۔ کافی دیر تک ان سے کھڑے رہتے ہوئے گپ شپ ہوئی۔ موصوف کے ساتھ تصاویر لینے کے بعد جب ہم نے اپنے کمروں میں جانے کی اجازت مانگی، تو عدنان باچا نے مجھے بازو سے پکڑ کر ہنستے ہوئے کہا: ’’دیولئی صاحب! آپ لوگوں نے اپنا کام تو کر دیا۔ اب میرا نمبر ہے۔‘‘ اس کے بعد اپنا موبائل نکالتے ہوئے ہمارے ساتھ تین چار تصاویر لے لیں، تو مَیں اس وقت سمجھ گیا کہ موصوف کو تصاویر لینے کا کوئی شوق نہیں۔ البتہ انہوں نے یہ تصاویر صرف اور صرف ہماری عزت افزائی اور خوشی کے لیے بنوائیں۔ مَیں اس نتیجے پر پہنچا کہ بڑے خاندانوں کے چھوٹے بھی بڑے دل والے، اعلا ظرف، تربیت یافتہ اور بااخلاق ہوتے ہیں۔ ورنہ کہاں شاہی خاندان کا چشم و چراغ اور کہاں ہم جیسے عام لوگ!
یادش بخیر، 19 نومبر 2017ء کو سوات پریس کلب میں اُس وقت کے ارنم ہسپتال کے ایم ڈی محترم ڈاکٹر شیرمحمد خان کی کتاب“In pursuit of knowledge”کی تقریبِ رونمائی میں محترم عدنان باچا مہمان خصوصی تھے۔ تقریب میں دیگر کے علاوہ ہمایون مسعود، شیرمحمد خان ایڈوکیٹ اور واجد علی خان سمیت سوات کی نامی گرامی سیاسی و ادبی شخصیات اور صحافی حضرات کثیر تعداد میں شریک تھے۔ مجھے اتفاقاً تقریب کی پہلی صف میں عدنان باچا کے ساتھ قریب بیٹھنے کا موقع ملا۔ چوں کہ موصوف کو بطورِ مہمانِ خصوصی مذکورہ کتاب پر آخری اور تفصیلی تقریر کرنی تھی، تو علیک سلیک کے بعد انہوں نے دوبارہ انتہائی توجہ کے ساتھ کتاب پر نظر جمائے رکھی اور وقت بہ وقت نوٹس بھی لیتے رہے۔ اسی دوران میں مجھے گاؤں سے فون کال آئی کہ دیولئی کی معروف سیاسی شخصیت کمال خان (امریکہ والے) کے والد حاجی بدیع الزمان المعروف باڈاخان وفات پاگئے ہیں اور مغرب کے وقت نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔ چوں کہ مجھے معلوم تھا کہ باڈاخان ولی عہد میاں گل عدنان اورنگ زیب کے انتہائی بااعتماد اور قریبی دوست تھے۔ اس حوالے سے میاں گل عدنان باچا بھی حاجی بدیع الزمان اور اس کی فیملی کا بہت احترام کرتے تھے، تو مَیں نے چھوٹا سا رقعہ لکھ کر عدنان باچا کو دے دیا۔ رقعہ پڑھ کر دیر تک سکتے میں رہے۔ اس کے بعد کہنے لگے: ’’دیولئی صاحب! چند دن پہلے باڈاخان کی بیمارپرسی کے لیے گیا تھا۔ بس اللہ مغفرت نصیب کرے۔ ہم سب کو ایک نہ ایک دن جانا ہی تو ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ مجھے بروقت نمازِ جنازہ سے آگاہ کیا۔ ورنہ مجھے تو شیر محمد خان کی کتاب پر تفصیل کے ساتھ لمبی بحث کرنی تھی۔ اب میں مختصر گفتگو کروں گا، تاکہ باڈاخان کا آخری دیدار اور نمازِجنازہ میں شرکت کر سکوں۔‘‘
مَیں نے کہا کہ باچا اس موقع پر یہ خبر دینا مناسب تو نہیں تھا، لیکن عدنان باچا فوراً بولے: ’’اگر آپ مجھے بروقت آگاہ نہ کرتے، تو یہ میرے لیے انتہائی دُکھ کی بات ہوتی۔ کیوں کہ پھر شاید مَیں اپنے چچا جیسے بڑے باڈاخان کے آخری دیدار اور نمازِ جنازہ سے محروم رہ جاتا۔‘‘
مذکورہ تقریب میں باڈاخان کی وفات کی خبر ملنے کے باوجود عدنان باچا نے جس تسلسل اور استقامت کے ساتھ ڈاکٹر شیرمحمد خان کی کتاب پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بہترین طریقے سے کتاب کی کمیوں کی نشان دہی کے ساتھ ڈاکٹرصاحب کی کاوش کو سراہتے ہوئے اپنے قریبی دوست ہمایون مسعود کو وہ کتاب اُردو میں ترجمہ کرنے کی سفارش کی، تو مَیں حیران ہوا کہ اللہ تعالا نے اس بندے کو سیاست کے ساتھ ساتھ ادب، اقتصادیات، معاشیات، اپنے مشران کے قریبی ساتھیوں کے ساتھ تعلقات اور اخلاقیات کی نعمتوں سے خصوصی طور پر نوازا ہے۔
مذکورہ پروگرام میں ڈاکٹر شیر محمد خان صاحب کی جانب سے بدستِ میاں گل عدنان اورنگزیب کتاب کا تحفہ ملنا مَیں اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہوں۔ پروگرام کے اختتام پر ریفرشمنٹ سے معذرت کرتے ہوئے وقت سے پہلے دیولئی پہنچ کر باڈاخان کا آخری دیدار کیا اور خضرحیات اور دیگر ساتھیوں سمیت نمازِجنازہ میں شرکت کی۔ اس کے بعد موصوف جب بھی ملتے انتہائی خوش گوار انداز سے ملتے۔
غالباً جون 2006ء یا 2007ء میں ہم نے خپل کور ماڈل سکول میں انتہا پسندی کے اثرات کو محسوس کرتے ہوئے ’’گلوبل پیس کونسل‘‘ کے پلیٹ فارم سے امن سیمینار کا اہتمام کیا۔ ساری پارٹیوں کے قایدین سمیت عدنان باچابھی دعوت قبول کرتے ہوئے تشریف لائے، تو بحیثیتِ جنرل سیکرٹری مَیں نے درخواست کی کہ مقررین کے لیے زیادہ سے زیادہ دس منٹ مقرر کیے گئے ہیں۔ اگر نو منٹ پر اکتفا کیا جائے، تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اُس وقت عدنان باچا نے کہا کہ مجھے ضروری کام سے اسلام آباد جانا ہے۔ اگر مجھے جلد فارغ کیا جائے، تو بہترہوگا۔ جب مَیں نے ان کو تقریر کے لیے بلایا، تو انہوں نے ہاتھ سے گھڑی اُتارتے ہوئے سامنے ڈائس پر رکھی اور موقع کی مناسبت سے محدود وقت میں بہترین اور مدلل تقریر کرتے ہوئے گلوبل پیس کونسل کے امن سیمینار کو سراہتے ہوئے ٹھیک نو منٹ بعد بولے کہ دیولئی صاحب کی ہدایات کے مطابق اپنا ایک منٹ اگلے مقرر کو تحفہ کرتا ہوں اور اجازت مانگتے ہوئے اسلام آباد روانہ ہوگئے۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر ایک انٹریو میں نرینہ اولاد کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب کچھ یوں دیا: ’’پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ ہے کہ جس نے دو بیٹیوں کی اچھی تربیت کی، تو اس کے لیے جنت واجب ہوگئی…… لیکن اللہ تعالا نے مجھے تین بیٹیاں عطا کی ہیں۔ اس حدیث کی روشنی میں ان کی تربیت کرتا ہوں اور الحمدللہ خوب مطمئن ہوں۔‘‘
میرے تجزیے کے مطابق جس طرح والیِ سوات میاں گل عبدالحق مرحوم کا ریاستی دور مثالی امن، تعلیم، صحت، کمیونی کیشن سسٹم، بڑے بڑے ہسپتال، سکول، کالج، سستا اور فوری انصاف کی فراہمی جیسے کارنامے روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں…… اور اُس وقت کے یورپ بالخصوص برطانیہ کے ساتھ قریبی تعلقات کے تناظر میں والی صاحب اگر ایک طرف سوات کو یورپ کی طرح ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے تھے، تو دوسری طرف موصوف نے اپنی ریاست کو بے حیائی، بدامنی اور جہالت سے پاک دیکھنے کا ذمہ بھی لے رکھا تھا۔ باہر سے آنے والے مہمانوں کو کھلے عام بازاروں میں کوٹ پتلون میں گھومنے پھیرنے کی اجازت نہیں تھی۔ سب سے بڑی خوبی یہ کہ مادری زبان پشتو عدالتی اور سرکاری زبان تھی۔ کمیٹی ہال مینگورہ میں ’’پھول توڑنا منع ہے!‘‘ کا بورڈ دیکھ کر سخت غصہ ہوئے۔ انتظامیہ نے راتوں رات نیا تختہ ذیل میں دیے جانے والے شعر کی شکل میں لگایا:
بویہ ول د گل پہ بوٹی کی پکار دی
دے ظالم چی شوکوی د بوٹی گل سوک
قارئین! شاہی خاندان کے کارنامے تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہیں۔ ان کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، لیکن تحریر کی تنگ دامنی کو دیکھتے ہوئے دُعاگو ہوں کہ اللہ تعالا عدنان باچا سمیت شاہی خاندان کے سارے مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے اور خضر حیات، محمد سدید خان اور کمال خان خاندانوں سمیت سارے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین!