احمد سعید
70 سالہ زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر جب ماضی میں جھانکتا ہوں، تو ریاستِ سوات کا 1960ء سے پہلے کا دور ذہن و دماغ کے سکرین پر جھلمانے لگتا ہے۔ وہ خوبصور ت دور جب ہماری بے فکری اور لڑکپن کا دور تھا۔ وادئی سوات میں فطری حسن و رعنائی اپنے جوبن پر تھی۔ چہار سو قدرتی مناظر، بلند و بالا پہاڑ جنگلات سے بھر پور اور سروں پر برف کی سفید چادریں اوڑھے قدرت کی حسین تخلیق کاری کا شان دار معجزہ لگتے تھے۔ ندی، نالوں، خوبصورت آبشاروں اور چشموں کا پاک و صاف پانی رواں دواں سورج کی کرنوں کے ساتھ آنکھ مچولی کا منظر پیش کرتا تھا۔ سادہ انسان اور سادہ ماحول اور پاک صاف آب و ہوا میں پاکیزگی بھی تھی اور حسن بھی۔ حرص و ہوا اور خواہشاتِ نفس کی جگہ صبر و شکر، راضی بر ضا اور قناعت کی وجہ سے دلوں کو اطمینانِ قلب نصیب تھا۔ ہر شخص اپنے حال میں مست، کم سہولیات اور زندگی کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہ ہونے کے باوجود مایوسی، شکست خوردگی اور احساسِ محرومی کا شکار نہ تھا۔ امن و امان کا ماحول تھا۔ معاشرے میں یک جہتی اور یک رنگی تھی۔ مال دار اور غریب دونوں کچے گھروں میں رہائش پذیر تھے۔ وسائلِ زندگی میں غریب اور مالدار کے درمیان فرق اتنا نمایاں نہ تھا۔ تقریباً سارے لوگ ایک جیسا کھانا مکئی کی روٹی، چھاچھ اور ساگ پات کے ساتھ کھاتے تھے۔ محدود اور مٹی کی چھت والے ایک بڑے کمرے جانوروں کے باڑے اور صحن پر مشتمل گھروں میں انسانوں کے ساتھ جانور بھی رہتے تھے۔ گھر میں مرغیوں، کٹڑوں اورمویشیوں کے چارے کے ساتھ ساتھ خشک گوبر بھی سردیوں میں جلانے کے لیے ذخیرہ کیا جاتا تھا، لیکن ماحول کی پاکیزگی، آب و ہوا کی صفائی اور سادگی گھر کی فضا کو آلودہ اور متعفن نہیں ہونے دیتی تھی۔ لوگ محنت کش، جفاکش اور صحت مند ہوتے تھے۔ گھر میں مہمان کو خوشی سے خوش آمدید کہا جاتا تھا اور یہ خوشی بھی ساتھ ہوتی تھی کہ صبح کو مہمان کے لیے پراٹھے اور دوپہر کو مرغ پکایا جائے گا۔ مہمان کے صدقے گھر والوں کو بھی پراٹھے اور مرغ کا شوربا نصیب ہوتا تھا۔
ریاستِ سوات اپنے اندرونی معاملات اور ریاستی نظم و نسق چلانے میں آزاد و خودمختا ر تھی۔ ریاست چلانے کے لیے جو سیدھا سادہ طریقِ کار، قوانین اور ادارے بنائے گئے تھے، وہ اتنے مؤثر، فعال اور کار فرما تھے کہ ایک مطلق العنان ریاستی سربراہ اور سیاہ و سفید کے مالک حکمران کے باوجود لوگوں کو جان و مال، عزت و آبرو کا جو تحفظ حاصل تھا، اُسے موجودہ زمانے کے لحاظ سے خواب و خیال سمجھا جائے گا۔ ریاستی حکمران والیِ سوات مرحوم میں خامیوں، کوتاہیوں کے باوجود خوبیاں، صلاحیتیں اور اپنے عوام کے ساتھ خلوص و محبت کے اوصاف موجود تھے۔ آج کے حکمرانوں کے مقابلے میں والئی سوات کی شخصیت میں انتظامی امور، عوامی فلاح و بہبود اور مستقبل میں ترقی کے لیے بہترین منصوبے تشکیل دینے کی صلاحیت بہت زیادہ تھی۔ ان کے تین بنیادی ادارے اتنے فعال، متحرک اور کار فرما تھے کہ ان کا ذکر کیے بغیر بات ادھوری اور نا مکمل رہ جائے گی۔
ایک ادارہ قانون کے نفاذ، امن و امان کے قیام اور عوام کو مفت اور بر وقت انصاف کی فراہمی کا ادارہ تھا۔ اس میں محدود اور مناسب آبادی کے لیے قلعہ یعنی پولیس سٹیشن، تحصیل نظم یعنی ابتدائی انصاف فراہمی کا عدالتی نظام اور پورے ریاستی انتظام و انصرام اور اپیل عدالتوں کا قیام شامل تھا۔ یہ انتظام اتنا سریع الاثر، سادہ، سستا اور اثر انگیز تھا کہ اکثر حالات میں ایک دن کے اندر اور بعض اوقات چند دنوں کے اندر آدمی کو انصاف مہیا کرتا تھا۔ نظامِ تعلیم کی تشکیل، نفاذ اور نگرانی کا انتظام ریاستی حکمران کی روشن خیالی اور تعلیم و علم سے محبت کا مظہر تھا۔ سکولوں کے لیے شان دار اور فراخ عمارتوں کی تعمیر، اساتذہ کا تقرر، نگران ڈائر یکٹریٹ کا مؤثر نظام اور پرائمری سے لے کر بی اے تک مفت تعلیم کا انتظام آج کل خواب و خیال تصور ہوتا ہے، لیکن اس وقت یہ ایک حقیقت تھی جو بالکل واضح اور نظروں کے سامنے تھی۔ تعلیم یافتہ افراد کے لیے مناسب اور با عزت روزگار آج کے طرح مشکل تھا نہ نا ممکن۔
صحت عامہ سے ریاستی حکمران کی دلچسپی کا اندازہ مختلف مقامات پر ڈسپنسریوں کے قیام اور سیدو شریف ہسپتال کا 1954ء میں تعمیر سے ہوتا ہے۔ ایسی ڈسپنسریاں اور ہسپتال جن میں مفت ادویہ اور کھانا بھی ملتا تھا۔ غرض یہ کہ وہ کون سی خوبی اور نعمت تھی جو 1950ء سے 1969ء کے سوات میں نہ تھی، لیکن آج جو صورتحال ہے بظاہر ترقی، نعمتوں کی فراوانی، سہولیاتِ زندگی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے آراستہ زندگی کے ساتھ پریشانیاں، مایوسیاں، احساسِ محرومی، امیر و غریب کا فرق، ماحول کی آلودگی، سامان خور ونوش کی ملاوٹ اور جانے کیا کیا مسائل و مشکلات ہیں جنہوں نے بے چارے اور غریب انسان کو گھیر کر رکھا ہے۔ بیماریوں کی نت نئی اقسام، علاج معالجے کی گرانی اس پر مستزاد۔ ایسے میں اگر موٹاپا، بلڈ پریشر، شوگر اور دل کی دھڑکنوں میں عدم توازن و اعتدال بھی ہو، تو اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ زندگی کی قدریں بدل گئی ہیں۔ شب و روز کی مصروفیات میں فرق آگیا ہے۔ حرص و آز کی زبانیں لٹک رہی ہیں اور ہر طرف ’’ہل من مزید‘‘ کی صدا ہے۔ ایسے میں اگر ڈاکٹر کہیں کہ واک کریں، وزن کم کریں، چکنائی اور گوشت کا استعمال کم کریں اور اگر ساتھ یہ بھی کہیں کہ جم جوائن کریں، تو اگر آپ کے لیے واک کرنا مشکل ہو، وقت محدود ہو اور مصروفیات زیادہ، تو پھر آپ کے لیے سوات ہیلتھ جم جوائن کرنا زیادہ مناسب اور آپ کی صحت و تندرستی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ میاں جاوید حسین کی زیرِ نگرانی سوات ہیلتھ جم میں صحت اور بیماریوں کی مناسبت سے نہایت مفید، کار آمد اور بہترین مشینری وافر تعداد میں موجود ہے۔ انتہائی پاک صاف ماحول ہر طرح کی سہولیات و انتظامات پر مشتمل یہ ادارہ آپ کو خوشگوار زندگی کی نعمت سے روشناس کرے گا اور آپ اپنی زندگی میں خوشگوار تبدیلی محسوس کریں گے۔
یادگار ماضی
