فضل محمود روخان
سرزمینِ سوات قدرتی حسن میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ تاریخی لحاظ سے یہ خطۂ زمین تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہ چکا ہے۔ فن، ثقافت اور سنگ تراشی میں یہ گندھارا تہذیب میں بہت نمایاں تھا۔ ماضیِ بعید میں سوات اُدھیانہ کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا تھا۔ بدھ مت میں سوات کی زمین مقدس حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں بدھ مت کو عروج حاصل ہوا اور یہاں سے بدھ مت تبت، جاپان، چائینہ، انڈونیشیا، کمبوڈیا، تائیوان، ویت نام، سری لنکا، افغانستان اور ہندوستان میں پھیلا۔ سوات میں بدھ مت کے آثار جگہ جگہ واقع ہیں۔ بعدمیں سلطان محمودِ غزنوی اور اُن کے مجاہدین نے اسلام پھیلایا اور اسلام کی روشنی سے سوات جگمگا اُٹھا۔
1520ء میں یوسف زئی پختونوں نے افغانستان سے ہجرت کرکے مختلف جنگوں میں مردان، رشکئی سے لے کر پورا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا…… جس میں مردان، صوابی، ضلع ملاکنڈ، باجوڑ، چارسدہ، بونیر، سوات، شانگلہ، دیر، چجھ ہزارہ اور ہری پور کا کچھ حصہ یوسف زیٔ پختونوں کا علاقہ ٹھہرا۔ یوسف زئی پختونوں نے 500 سال پہلے منگلور کے سواتی بادشاہ کو ملک احمد خان کی قیادت میں شکست سے دوچار کیا۔ اُس کے بعد یہاں سوات میں قبایلی طرزِ زندگی میں اپنی خود مختاری کو قایم و دایم رکھا۔ 1845ء میں سیدو غوث اخوند عبدالغفور صاحب سوات نے لوگوں میں اجتماعی زندگی کے لیے مقامی حکومت بنانے پر زور دیا اور 1849ء میں ستھانہ سے پیر بابا کی اولاد کی مشہور شخصیت سید اکبر شاہ کو سوات کا بادشاہ بنایا اور غالیگے گاؤں اُن کا پائے تخت ٹھہرا۔ انہوں نے سوات پر 9 سال حکومت کی اور 1857ء میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔
اس کے بعد 1876ء میں اخوند آف سوات سیدو غوث رحلت کرگئے۔ سوات میں دریا کے اُس پار غیر رسمی طور پر نوابِ دیر کی حکومت قایم رہی جو مار دھاڑ، لوٹ مار پر مبنی رہی۔ اس وجہ سے لوگوں نے تنگ آکر اُس وقت کے ایک ولی اللہ المعروف سنڈاکئی بابا کو اس بات پر آمادہ کیا کہ یہاں سوات میں باقاعدہ حکومت ہونی چاہیے۔ اس لیے اُن کی سرکردگی میں برسوات کے اکابرین کا ایک جرگہ ستھانہ گیا اور پھر پیر بابا کی اولاد میں سید عبدالجبار شاہ کو 1915ء سوات لاکر حکومت اُن کے حوالے کی…… لیکن اُن کی حکومت زیادہ دیر نہیں چلی۔ وہ باعزت طور پر ستھانہ واپس چلے گئے اور وہاں امب کے نواب نے اُنہیں وزیراعظم مقرر کیا۔
1917ء میں اخوند آف سوات سیدوبابا کے پوتے میاں گل عبدالودود نے سوات میں حکومت بنائی اور اُس حکومت نے کامیابی کی منازل طے کرنا شروع کیں۔ سوات کے علاوہ بہت سے علاقوں کو ریاستِ سوات میں شامل کیا جن میں بونیر، شانگلہ، سوات کوہستان، اباسین کوہستان کے کچھ علاقے شامل تھے۔
انگریز حکومت نے اس کے بعد مداخلت کی اور بادشاہ صاحب میاں گل عبدالودود کو مزید علاقے فتح کرنے سے منع کیا۔
اس کے بعد انہوں نے ریاستِ سوات کے عوام کی فلاح و بہبود، علاج معالجہ، تعلیم، امن و امان اور مواصلات پر توجہ دی…… اور ایک جدید ریاستِ سوات کو خطہ میں مثالی بنایا۔ فوری انصاف کو یقینی بنایا۔ سب کو روزگار مہیا کیا۔
اگرچہ میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب خود پڑھے لکھے نہیں تھے…… لیکن انہوں نے اس کے باوجود دینِ اسلام کی کئی کتب جن میں انوارِ سہیلی، فتاویٰ ودودیہ شامل ہیں، اس طرح تاریخِ ریاستِ سوات، پشتو، اُردو، انگریزی اور دیگر کتب شایع کیں اور عوام میں مفت تقسیم کیں۔
1943ء میں انہوں نے دینِ اسلام کو پھیلانے کے لیے سیدو شریف اور چار باغ گاؤں میں گورنمنٹ دارالعلوم اسلامیہ قایم کیا اور نامی گرامی علما کو اس میں تعینات کیا…… جس کا صدر اُس وقت کا ایک بہت بڑا ولی اللہ مولانا خان بہادر المعروف مارتونگ باباجی، مولانا عبدالمجید بازارگی بونیر اور اُن کے ساتھیوں کی نگرانی میں بادشاہ صاحب کے کہنے پر فتاویٰ ودودیہ کے مرتب کرنے کا کام شروع کیا۔ پہلے یہ محمد آصف خان مرزا صاحب نے پشتو زبان میں شایع کیا۔ بادشاہ صاحب نے اسے مفت تقسیم کیا۔
1960ء میں محمد آصف خان مرزا صاحب نے بادشاہ صاحب کے کہنے پر اسے اُردو زبان میں منتقل کیا۔
اس سے پہلے ڈپٹی کمشنر جنید خان صاحب نے ’’رواج نامہ سوات‘‘ کو اعلا معیار کے مطابق شایع کیا تھا…… جو انہوں نے اہلِ علم میں مفت تقسیم کیا تھا۔ واضح رہے کہ رواج نامہ سوات ناپید ہوچکا تھا۔ اس کو دوبارہ شایع کرنا وقت کی اہم ضرورت تھا۔
ایک ملاقات میں شہزادہ میاں گل عدنان اورنگزیب نے فتاویٰ ودودیہ (حصۂ اول) کا نایاب نسخہ ڈپٹی کمشنر جنید خان صاحب کو دیا۔ انہوں نے اس کی سر سری ورق گردانی کے بعد اِفادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے نئے سری شایع کرنے کا فیصلہ کیا…… لیکن اس کا دوسرا حصہ ناپید تھا۔ اس کمی کو راقم نے فتاویٰ ودودیہ کا مکمل سیٹ جنید خان صاحب کو مہیا کیا۔ اس کے بعد اس پر کام شروع کیا گیا۔ 1500 صفحات پر مشتمل فتاویٰ ودویہ کی کمپوزنگ کا آغاز کیا گیا۔ ایک دن راقم کمپوز شدہ مواد کی پروف ریڈنگ کررہا تھا کہ مولانا خلیل الرحمان صاحب (ہم دمِ دیرینہ) آئے اور استفسار کیا کہ کیا کام کررہے ہو؟ جب ان کے سامنے بات رکھی گئی، تو انہوں نے بتایا کہ مَیں اور میرے چند ساتھیوں نے فتاویٰ ودودیہ پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کیا ہوا ہے۔ یہ بات راقم نے ڈپٹی کمشنر کے علم میں لائی۔ اس کے بعد ایم فل کا مسودہ اور پہلے سے موجود کمپوز شدہ مواد کا جایزہ لیا گیا۔
بعد ازاں ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان صاحب نے فتاویٰ ودودیہ کا ایم فل کا مسودہ پسند کیا اور اسے کتابی شکل دی، جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہوگی۔
قارئین! جنید خان صاحب نے جب سے بہ حیثیت ڈپٹی کمشنر سوات کا چارج لیا ہوا ہے۔ اُس دن سے لے کر آج تک وہ اپنے دفتری فرایض احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ و ہ اگر ایک طرف اہلِ سوات کی ترقی، خوش حالی اور امن و امان کے لیے کام کر رہے ہیں…… تو دوسری جانب وہ سوات کی سیاحت، کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا ہوا ہے کہ سوات ایک ایسا خطہ ہے جس کی سیاحت سال کے بارہ مہینوں میں کی جاسکتی ہے۔ اس کی سیاحت صرف گرمیوں تک محدود نہیں۔ ان کے ان مسلسل کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ اب لاکھوں کی تعداد میں ملک اور بیرونِ ملک سے سیاح سوات کا رُخ کررہے ہیں جس سے مقامی لوگوں کو روزگار مہیا ہورہا ہے۔
ڈی سی صاحب نے کھیلوں کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کھیلوں کے میدانوں کو نئے سرے سجا دیا ہے۔ ان کے دور میں کھیل کے میدان کو آسٹرو ٹرف سے آراستہ کیا گیا ہے۔ اب کالام میں بھی اعلا معیار کا سپورٹس کمپلیکس بنانے کے لیے تگ ودو کررہے ہیں۔
قارئین! سوات بدھ مت کے آثارِ قدیمہ کا گڑھ ہے۔ ڈی سی سوات ان آثار کو بدھ مت کے پیروکاروں کے سامنے لارہے ہیں کہ مشرقِ بعید سے سیاح بھی سوات آنے میں دلچسپی لیں اور اپنے مقدس مقامات کو دیکھ سکیں۔
ڈپٹی کمشنر صاحب نے کالام، گبین جبہ، میاں دم میں سپورٹس فیسٹیولز کا کامیاب انعقاد کیا ہے۔ وہ اپنی طرف سے لوگوں میں پھر سے مطالعے کا ذوق پیدا کررہے ہیں اور لوگوں کو اپنی طرف سے مفید کتابیں مفت فراہم کررہے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ اہلِ سوات میں شعور و آگہی پیدا کرنے کے لیے کررہے ہیں۔
قارئین! 30 مئی 2022ء کو ہری پور کے مقام پر سوات کے شاہی خاندان کا چشم و چراغ پرنس میاں گل عدنان اورنگ زیب سڑک حادثے میں جاں بحق ہوگئے ہیں۔ سوات انتظامیہ اہلِ سوات کے غم میں برابر کی شریک رہی۔ سرکاری مقامات پر پاکستانی جھنڈا سرنگوں رکھا گیا اور اس دکھ، درد اور غم میں جناب جنید خان اہلِ سوات کے ساتھ برابر کے شریک رہے۔
اہلِ سوات کے لیے جنید خان کا وجود نہایت ناگزیر ہے۔ اہلِ سوات کے عوام کی یہ دلی خواہش ہے کہ سوات کی ترقی اور خوشحالی کے لیے جنید خان کو مزید چند سالوں کے لیے سوات میں رکھا جائے۔