سید ساجد شاہ
وائرس کے معنی ہیں زہر اور اس کو پہلی دفعہ ایک روسی سائنسدانDemitty Iwvansky نے 1892میں دریافت کیا تھا۔ اس کے بعد سے لے کر آج تک دنیا کے سائنسدان ان مائیکروبز کے بارے میں مزید تحقیق کر کے جاننا چاہتے ہیں۔ وائرس بیکٹریا سے بھی چھوٹے اجسام کے مالک ہوتے ہیں۔ اتنے چھوٹے کہ عموماً یہ بیکٹریا پر بھی حملہ کرتے ہیں۔ یہ زمین، ہوا، دریا، پانی کے اندر پائے جاتے ہیں اور انسان، حیوانات اور پودوں پر حملہ کرکے انہیں بیمار کرتے ہیں۔ پہلے بھی بیماریاں ان جر ثوموں کا نتیجہ تھیں مگر اس کا اندازہ نہیں لگ رہا تھا۔
اب اہستہ اہستہ وائرس اور بیکٹریا سے پھیلنے والی بیماریوں کا نتیجہ سا منے آرہا ہے۔ زمین کے اندر لاکھوں میٹر نیچے ان کی پرورش ہو تی ہے۔ 2015 میں چین اور امریکی سائنس دان دس سے بارہ ہزار سال پہلے کے گلیشیئر اور آئس برگ پر کام کرنے لگے ہیں، کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ آج کا یہ وائرس شاید ان گلیشیئرز سے ریلیز ہوا ہے کیونکہ اب تک 33وائرس اس گلیشیئر سے آزاد ہو چکے ہیں جن میں یہ کورونا وائرس ncov-2019 بھی شامل ہے۔
سمندری خوراک اور جنگلی جانوروں کی مارکیٹ میں متاثرہ جانوروں کی غیر قانونی لین دین سے پھیلے اس وائرس نے آزاد ہوتے ہی پوری دنیا کا رخ کیا۔ امریکہ، ایریزونا، جاپان، تھائی لینڈ، فرانس، پولینڈ، آسٹریلیا حتی کہ پاکستان میں بھی چا ر چینی اور ایک پاکستانی اپنے ساتھ چین سے یہ وائرس لائے۔ چین میں اب تک اس بیماری سے ہلا کتوں کی تعداد ڈھائی سو سے زائد ہو گئی ہے اور جس تیزی سے جاری ہے تو جلد ہی ہلاکتوں کا حساب سینکڑوں، ہزاروں اور خدانخواستہ لاکھوں کروڑوں میں کیا جائے گا۔ اس وائرس کی تیزی سے پھیلتے ہوئے ڈر اور خوف نے دنیا کو بالعموم اور چین کو باالخصوص خوفزدہ کر دیا ہے۔
اگرچہ یہ2019 میں پہلی بار نمودار ہوا تھا مگر اس پر تحقیق اب تک جاری ہے۔ چین کو ڈر تھا اس لئے چین نے بیماری سے متاثر ہونے والوں کیلئے ایک ہسپتال بنایا مگر اب وہ کم پڑ گیا۔ چین نے معاملے کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ایک نئے ہسپتال پر کام شروع کر دیا ہے جسے دس دن میں مکمل کیا جائے گا۔ 1000بیڈز کا یہ ہسپتال مریضوں کا علاج کرنے کے بعد فوراً مسمار کیا جائے گا تاکہ جراثیم اس کے اندر نہ پرورش پا سکیں۔ انگلستان اور امریکہ سمیت کچھ دیگر ممالک نے اپنے باشندوں کو کام تک محدود رہنے اور سفر سے اجتناب کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس کے علاوہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور ماسک کے ساتھ موومنٹ کی آگاہی مہم پوری دنیا میں جاری ہے چونکہ سر دست اس بیماری کا علاج کوئی نہیں، احتیاظ پر زور دیا جا رہا ہے۔
وائرس ایک جان لیوا جراثیم ہے جس نے بہت کم عرصے میں متاثرہ ہوسٹ کے اندر گھر بنا کر اپنے جیسے لاکھوں جراثیم چھوڑ کر جسم کو تباہ کرنا ہوتا ہے۔ وائرس کا بدن دو پرتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ باہر والا اور اندر کی پرت جس میں ایک کوٹ میں DNA اور دوسرا پروٹین کوٹ ہوتا ہے۔ کسی بھی جسم کے اندر داخل ہونے کے بعد پروٹین کوٹ باہر رہ جاتا ہے جبکہ ڈی این اے جسم کے اندر داخل ہونے کے بعد اپنی طرح بے حساب جنریشن پیدا کرتا ہے۔ وائرس کی مشہور بیماریوں میں فلو کی بیماری، HIV/AIDs,Small pox,Ebola Marburg, Lessa, Dengue,i influenza, شامل ہیں۔
وائرس صرف انسانوں کا قاتل نہیں بلکہ انسانوں کے علاوہ مختلف قسم کے پودوں اور جانوروں میں بھی یہ وائرس بیماریاں پیدا کرتا ہے۔ پودوں کے وائرس کو mosaicکہتے ہیں۔ بیماری کا آنا قدرت کی طرف سے امتحان ہوتا ہے۔ یورپ اور افریقہ کے اندر اس قسم کی وباء جب بھی پھوٹ پڑی اس کے نتائج بہت خطرناک نکلے۔ بشپ، انگریزوں کے پوپ اور گرجا گھروں کے اندر ان بیماریوں کیلئے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ ہمارے ہاں جب ڈینگی، جو کہ ایک وائرل بیماری ہے، ہر سال تازہ دم ہو کر آتی ہے جس سے ہزاروں لوگ متاثر ہوتے ہیں اور سینکڑوں مر جاتے ہیں، مریض کی تکلیف دیکھی نہیں جا سکتی جبکہ مریض کو بالکل ہسپتال کے کمرے میں الگ ڈالنے کے بعد بہت ہی حساس قرار دے کر اس کا علاج کروایا جاتا ہے۔ اگرچہ ڈینگی وائرس جان لیوا ہے مگر اس کا علاج موجود ہے مگر کورونا بالکل نیا وائرس ہے اور اس کا علاج کوئی نہیں۔
انسان کے زمین پر آباد ہونے کے بعد سے لے کر آج تک انسان کسی نہ کسی مشکل میں پھنستا رہتا ہے، بیماریوں سے تنگ آنے کے بعد وہ علاج پر زور دیتا ہے مگر احتیاط پر نہیں۔ اب دیکھیں ناں چین میں اس وائرس کا پھیلنا گوشت مارکیٹ کے ساتھ نتھی ہے جہاں مچھلیاں بھی بکتی ہیں۔ مچھلیاں اور گوشت کی مارکیٹ کے ساتھ ساتھ چین میں زیادہ کھائے جانے والے سانپ کے اندر یہ جر ثومہ یا چمگادڑ میں پایا جاتا ہے جہاں سے انسان کے اندر داخل ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ چونکہ آج کل سائنس کا دور ہے، ہر چیز پر تحقیق ہو رہی ہے مگر بیماری کی تہہ تک پہنچنا مشکل کام ہے ورنہ کب سے سائنسدان AIDS اور سرطان جیسے موذی مرض پر ریسرچ کر رہے ہیں مگر اب تک کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا جبکہ روزانہ نئی قسم کی بیماریوں نے انسان اور اس کی زندگی کو بہت مشکل میں ڈال دیا ہے۔
پرانے زمانے میں بھی یہی بیماریاں عام تھیں مگر کسی کو اس کی سمجھ نہیں تھی۔ امریکہ کے صدر کالن کولج کا صرف ایک بیٹا تھا جو فٹ بال کھیلتے ہوئے زخمی ہوا، اس کے پاؤں کے انگوٹھے سے اتنا خون بہا کہ پورے گراؤنڈ کا رنگ بدل گیا مگر اس وقت تک Antibiotic ایجاد نہیں ہوئے تھے اس لئے وہ بیچارہ امریکہ کے19ڈاکٹروں کے بیچ موت کو گلے سے لگا بیٹھا۔ طاعون کے علاوہ انتہائی خطرناک بیماریوں میں کبھی ملیریا کا نام بھی شامل رہا جس کی پھیلنے کی وجہ مادہ مچھر نکلی۔ اب بھی ملیریا سب سے خطرناک بیماری ہے جس سے دنیا میں لاکھوں لوگ ہر سال مرتے ہیں۔ اس طرح ٹی بی موذی مرض ہے جسے کسی زمانے میں غربت یا آسیب زدہ لوگوں کی بیماری کا نام دیا گیا تھا حالانکہ یہ بیکٹرئیل ٹیوبر کولسیس سے لگنے والی بیماری ہے جو پہلے لا علاج تھی مگر اب آٹھ مہینے کے کورس کے ساتھ اس کا علاج موجود ہے۔ وباء کی کوئی بھی صورت جب غضب خدا وندی بن کر بجلی کی طرح انسانوں پر گرے تو تباہی مچاتی ہے۔ 431 ق م میں ایتھنز یونان میں ایک وباء پھیلی جس نے اہل سپارٹا کو جینے کا موقع نہیں دیا۔
گھر، کوچے، پانی، زمین کے اندر کوئی جگہ ایسی نہیں رہی جہاں لاشیں بکھری پڑی نہ ہوں۔ یہ مرض پھر وباء بن کر ایتھوپیا میں پھیلا اور پھر مصر اور لیبیا میں لاکھوں لوگ اس کے شکار ہوئے۔ یہ ایسی بیماری تھی جو 9 دن کے اندر انسان کا خاتمہ کرتی۔ اس بیماری کے اندر لوگوں کا بچنا ایک معمہ ہوتا تھا تاہم ایسی صورت میں زندہ بچ جانے والے لوگوں کے ہاتھ، پاؤں کی انگلیاں، انگھوٹے اور اعضاء تولید و تناسل کھو بیٹھتے، کچھ لوگ بینائی سے محروم ہو جاتے، یاداشت کا کھونا بھی عام تھا۔ لاشوں کی بد بو کی وجہ سے پرندے بھی دور بھاگتے، طبیب بیچارے کسی کا علاج کرتے تو وہ بھی اس مرض کا شکار ہوتے۔ اس وقت وبائی مرض اپنی مرضی سے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو مارنے کے بعد کہیں جاکر اختتام پذیر ہوتا۔
مغرب کے اندر تاریخ دان اس کو پھیلنے والا پہلا گلٹی والا طاعون کہتے ہیں جس نے ایتھنز کی آبادی کا تیسرا حصہ تباہ کیا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ کیلئے دنیا کے اندر خاموشی رہی لیکن اچانک ایک بار پھر قسطنطنیہ میں 542 عیسوی میں جو وباء پھیلی۔ اس نے سیاہ موت کا نام پایا۔ اس طرح انگلستان میں طاعون کی وجہ سے ایک لاکھ لوگ مرے۔ پس اس بیماری نے ملکوں کے ملک لتاڑ لیے۔ اس بیماری سے صبح و شام اتنے لوگ مرتے تھے کہ قبرستانوں میں جگہ ختم ہوگئی پھر لاشیں شہروں سے باہر لے جا کر خندقوں کے اندر ڈالی جاتیں، تین لاکھ لوگ لقمہ اجل بنے جبکہ اس وباء کا آغاز مصر سے ہو اتھا۔
اس کے بعد فلسطین اس کے زیر اثر آیا جس کے بعد جزیرے اور ممالک اس کی زد میں آتے گئے۔ اس وقت اس بیماری کے پھیلنے کی وجہ مصر سے غلہ لانے والے وہ بحری جہاز تھے جو چوہے اور ان کے پسو اپنے ساتھ قسطنطنیہ سے لے آئے تھے۔ اب تو سائنس کا زمانہ ہے، ٹیکنالوجی کا دور ہے مگر بیماری اور صحت کی کنجی اللہ تعالی کے پاس ہے۔ اتنی پوری دنیا صرف ایک مچھر اور نامعلوم بیماری کا حل نہیں نکال سکتی کیونکہ بیماری کو لانے والی اللہ کی ذات ہے اور بیماری سے چھٹکارا اور شفاء دینے والا بھی اللہ ہی تو ہے۔ چین کو چاہیے کہ یغور میں مسلمانوں پر ظلم و ستم بند کرے اور اللہ کی ذات اقدس کو مان کر اس سے التجا کریں ممکن ہے یہ بیماری اور اس کے جراثیم طاعون اور تباہی بننے سے پہلے خود تباہ ہو جائیں۔ انشا اللہ!