ایڈوکیٹ نصیراللہ
صاف و شفاف چشموں، نالوں، خوڑوں، دریاؤں، کوہساروں اور جنگلات کی سرزمین میں پانی کا قحط ہے۔ ہے ناں حیران کر دینی والی بات……! سوات میں پانی کا قحط پڑنے والا ہے۔ اس کا محض ایک دہائی پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔
مستقبلِ قریب میں پانی سوات کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ واسا ضلع سوات کے چیئرمین کی ایمرجنسی اور بیانات آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔ ایسا بھی ایک وقت تھا کہ سوات میں دس فٹ کھدائی میں زمین سے پانی حاصل ہوتا تھا۔ اب سوات کی کئی تحصیلوں میں واٹر ٹیبل ایک خوف ناک اور ناقابلِ یقین حد تک گر چکا ہے۔ اب بورنگ، ڈرلنگ مشین کے ذریعے تقریباً 300 فٹ تک زمین کی کھدائی کی جاتی ہے۔اس کے بعد پانی کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ اب اہلِ سوات اور خاص کر مینگورہ کو پانی تک پہنچنے کے لیے کچھ علاقوں میں 300 فٹ اور کچھ میں 300فٹ سے زیادہ گہری بورنگ کرنا پڑتی ہے۔ یاد رہے بورنگ مشین ہر کسی کے دسترس میں نہیں بلکہ دس بیس فی صد لوگوں کو یہ سہولت نصیب ہے۔
قارئین! اس پر افسوس ہوتا ہے کہ مخصوص لوگوں کو بورنگ مشینوں کے ذریعے ڈرلنگ کی اجازت ہے۔ یہ آج کل سوات کا سب بڑا مسئلہ ہے۔ اس بات کا کوئی ڈیٹا اور ثبوت نہیں کہ کتنے گھروں کے پاس اپنی بورنگ اور مفت پانی نکالنے کی سہولت موجود ہے۔
مستقبلِ قریب میں زیرِ زمین پانی کی شدید کمی پیدا ہونے جا رہی ہے۔ کیوں کہ ضلع سوات میں شہری آبادی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر سوات میں لوگوں کو پانی کہاں سے پہنچ رہا ہے؟ تو جواباً عرض ہے کہ حکومتی ٹیوب ویلوں اور بعض جگہوں میں دریا، نالوں، خوڑوں اور چشموں سے پانی کی کمی کو پورا کیا جاتا ہے۔ ماضیِ قریب میں سوات ایک ایسا علاقہ ہوتا تھا جہاں سال کے بارہ مہینے وقفے وقفے سے بارشیں ہوتی تھیں۔ سرد ہوائیں چلتی تھیں۔ ہر قسم پھلوں اور میووں کے لیے موزوں موسم فراہم تھا۔ زمین ہر قسم غلے کے لیے موزوں تھی۔ دریائی پانی وافر مقدار میں موجود تھا۔ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ یہ تمام باتیں اب قصۂ پارینہ ہوگئی ہیں۔
بڑھتی ہوئی شہری آبادی اور مینگورہ سٹی، تحصیل بابوزئی و ملحقہ علاقہ جات میں درختوں کی کمی کی وجہ سے جڑواں تحصیلوں میں بارش کی مقدار مستقبل قریب میں مزید کم ہو جائے گی، جس کی وجہ سے روز بہ روز گرمی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
پاکستان کے ساتھ الحاق ہونے کے بعد سوات کی جنت نظیر وادی گویا دوزخ بن کر رہ گئی ہے۔ آج اس حالت کے حکومت اور عوام دونوں ذمے دار ہیں۔ حکومت کی ذمے داری بہتر انفراسٹرکچر نہ ہونے کی حد تک ہے۔ کوئی نالہ، خوڑ، چشمہ اور دریا کو محفوظ کرنے کی حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔ پشتے (جنہیں ہم پشتو میں وٹہ کہتے ہیں) بنائے گئے، تاکہ بعض علاقے سیلاب سے محفوظ ہوسکیں۔ اس پر سارا سال کام ہوتا رہتا ہے۔ اس کا فایدہ کچھ بھی نہیں۔ حکومتی ادارے بلا جھجھک ’’سولیڈ ویسٹ‘‘ دریا میں پھینکتے ہیں۔ حالاں کہ ان کے لیے ڈمپنگ سائٹ مقرر کیے گئے ہیں۔
ایک اہم مسئلہ جس کی طرف کم ہی دھیان جاتا ہے، وہ ہے بورنگ…… جدید بورنگ مشینوں کے ذریعے زمین کو جگہ جگہ کھدائی کے ذریعے زخمی کردیا گیا ہے۔ بورنگ مشینوں کا کلچر یورپ میں کہیں بھی موجود نہیں۔ مثال کے طور پر کینیڈا، برطانیہ اور دیگر کئی یورپیائی اور امریکی ریاستوں میں تالابوں اور دریاکے پانی کو صاف کرکے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ مہذب دنیا میں بورنگ مشین کے ذریعے بنائے گئے ٹیوب ویل کنوؤں کا کہیں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔
قارئین! پانی کی فراہمی دراصل حکومت کی ذمے داری ہے۔ یہ ہمارا قانونی اور بنیادی آئینی حق ہے۔ کیوں کہ پانی کی وجہ سے زندگی قایم و دایم ہے۔
دوسری طرف عوام انفراسٹرکچر نہ ہونے کے سبب اپنی مدد آپ کے تحت پانی کا حصول ممکن بناتے ہیں۔ اس طرح بچے ہوئے پانی کو گندا کرتے رہتے ہیں۔ ٹائلٹ، ماربل، پیسٹی سائڈ، زرعی اسپرے کیے ہوئے پانی کو صاف پانی میں چھوڑ دیتے ہیں۔ کوئی اور چارہ بھی تو نہیں۔
آبی گندگی ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ روانہ ہزاروں لاکھوں کیوسک پانی عبث طور پر سمندر برد ہورہا ہے۔ اس سے زراعت کا کام لیا گیا اور نہ ہی پینے وغیرہ کے کام آیا۔
عوام اس ضمن میں ذمے دار ہیں کہ انھوں نے بھی پانی کا بے دریغ غیر ذمے دارانہ استعمال کیا ہے۔ پانی کو گندا کیا ہے۔ پانی کی بے توقیری کی ہے۔ کفایت شعاری سے کام نہیں لیا ہے۔
پانی کا ختم ہونا، ایکو سسٹم کے ساتھ متعلق ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ ایکو سسٹم کیا ہے؟ ایکو سسٹم کے ذریعے کیڑے مکوڑے، درخت، پانی اور ہوا ایک دوسرے کے ساتھ ایک مربوط قدرتی نظام میں جڑے ہوتے ہیں۔ اس نظام میں خرابی کیسے آتی ہے؟ اب جنگلات ہی کو لے لیں، اس کی کٹائی سے دوسرے نظام بھی متاثر ہوتے ہیں۔ قدرت اس کو ازخود درست کرتا رہتا ہے۔ اور انسانی مداخلت کی وجہ سے اس کی مجموعی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے، جس سے ایکو برقرار رہتا ہے۔
اب آتے قدرتی سسٹم میں مداخلت کی طرف……! جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے ہمارا ایکو سسٹم متاثر ہوچکا ہے۔ بارشیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ برف باری اور گلیشیرز کی وجہ سے پانی کی فراوانی ہوتی تھی۔ اب گلیشیرز پگھل گئے ہیں۔ پانی ختم ہونے کو ہے۔ نالے، چشمے اور خوڑ پہلے ہی سوکھے پڑے ہیں۔ اب دریا کے پانی میں کافی حد تک کمی واقع ہوچکی ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا، تو وہ وقت قریب ہے کہ دریائی پانی بھی خشک ہوجائے گا۔
زمین کی ساری ترقی پانی پر انحصار کرتی ہے۔ اگرچہ سوات کی بارش سے آبی ذخایر ازخود دوبارہ چارج ہوتے ہیں، لیکن بارش کا پانی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے کہیں زیادہ تیزی سے استعمال ہو رہا ہے۔ ضلع سوات میں اس سلسلے میں کوئی نیا منصوبہ نہیں بنایا گیا ہے۔ سوات، پاکستان میں اضافی آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ضلع ہے۔ اس کے مین شہر مینگورہ اور ملحقہ علاقہ جات میں پانی کی کم یابی ایک سروے کے مطابق واٹر ڈائنگ سٹیز میں شمار ہوتی ہے۔ تحصیل بابوزئی، نیک پی خیل اور تحصیل مٹہ میں بھی زیرِ زمین پانی ختم ہو رہا ہے۔
سوات؛ جس پر جنت کا گمان ہوتا تھا) لیکن حکومتی بے توجہی کی وجہ سے اس میں مسایل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ ضلع سوات میں جگہ جگہ جنگلات کاٹے گئے۔ اب کچھ جنگلات آگ کی نذر ہوئے۔ دریائے سوات کے ملحقہ علاقوں میں جہاں سے خوڑ (نالہ) نکلتا ہے، میں کئی ایک جگہوں پر چھوٹے ڈیموں کے لیے قدرتی طور پر وسیلے موجود ہیں، لیکن ڈیم تو چھوڑئیے، چیک ڈیم بھی نہیں بنائے جاسکے ہیں۔ سوات کے مختلف علاقوں میں مختلف جگہوں پر چھوٹے چھوٹے تالاب، چیک ڈیم بنانے سے واٹر ٹیبل پھر سے اپنی جگہ پر واپس آسکتا ہے۔ بورنگ کنوؤں کی کھدائی کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جانی چاہیے۔ پانی جیسے دیگر قیمتی وسایل کے موثر استعمال کی حوصلہ افزائی کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔
حکومت، غیر سرکاری تنظیموں اور اپنی مدد آپ کے تحت عوام اپنے علاقوں میں پودے اور درخت لگائیں۔ اس کے لیے حکومتی تعاون اور رابطہ ضروری امور ہیں۔
سوات میں راستے، روڈ وغیرہ کنکریٹ کے طور پر بنائے گئے ہیں جس سے گرمی بڑھتی ہے۔ بارش ہونے کی صورت میں پانی زمین میں جذب ہونے کی بجائے سیدھا دریا میں گرتا ہے اور زمین کے سیرابی نہیں ہوتی۔ اس لیے راستوں کو کچے بلاک کے ذریعے بنایا جانا چاہیے۔
صوبائی حکومت کی طرف سے گاشکوڑ کے علاقے سے ’’واٹر فلٹر پلانٹ منصوبے‘‘ پر کام جاری ہے۔ پائپوں کو مینگورہ تک لانے کے لیے بچھانا زیرِ تجویز ہے۔ اس لیے مجوزہ پائپ لائن کو دریا کے کنارے ساتھ لانا چاہیے، تاکہ قیمتی اراضی بچی رہے۔
آٹو جنریٹر، گاڑیاں، پٹرول، بجلی کے تار وغیرہ کا غلط استعمال موسم میں گرمی پیدا کرتا ہے…… اور جس سے بارشیں نہیں ہوتیں۔ اس وجہ سے موسم میں خلافِ معمول تبدیلی آنا شروع ہوچکی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے انتظامات کرے…… اور اس نسبت عوام میں آگاہی لانے کی بھرپور کوشش کرے۔