فضل محمود روخان

جب صبح صبح میں کتابوں کا بستہ گلے میں لٹکا کر سکول پڑھنے جایا کرتا تھا، تو راستے میں دکان کے سامنے سڑک کنارے دو دیوانوں پر میری نظر پڑتی تھی۔ ایک دیوانہ ’’ممو‘‘نام کا تھا، جو ایک طرح سے گوشت کا پہاڑ تھا۔ عموماً لیٹا ہوا نظر آتا تھا۔

دوسرا دیوانہ ’’جوہر‘‘ لمبا تڑنگا مضبوط جسم کا مالک تھا۔یہ ’’ممو‘‘ کے پاس بیٹھا نظر آتا تھا۔ دونوں دیوانے تھے، لیکن جوہر، ممو کا رکھوالا، نگران اور خدمت پر مامور دکھائی دیتا تھا۔ جوہر، ممو کا اپنے بچوں جیسا خیال رکھتا تھا ۔ یہ نظارہ میں ہر روز صبح جاتے اور دوپہر کو واپسی کے وقت دیکھا کرتا تھا۔ وقت گزرتا گیا۔ ممو دیوانہ اُٹھنے بیٹھنے اور چلنے کے قابل ہوا، تو جوہر اور ممو ایک ساتھ چلتے دکھائی دینے لگے۔ ممو سفید کپڑوں میں اور جوہر ٹاٹ سے بنے ہوئے لباس پہنے ہوئے دکھائی دیتا۔ جوہر کو ممو کی خدمت کرنے کے بدلے میں اللہ تعالا نے مکمل صحت سے نوازا۔ اب وہ دیوانہ نہیں رہا، بلکہ عام لوگوں کی طرح رہنے لگا اور آہستہ آہستہ وہ میرے ذہین کے پردے سے بھی غائب ہوگیا۔

ایک اور دیوانہ تھا، شریر بچے اُسے تنگ کرنے کے لیے ’’نیم پہ سو‘‘ کَہ کر پکارتے تھے اور وہ پتھر اُٹھا اُٹھا کر بچوں کو مارنے لگ جاتا۔

ایک دن معمول کے مطابق بچے اُسے تنگ کرنے کے لیے ’’نیم پہ سو‘‘کَہ کر پکارنے لگے اور وہ پتھر مارتا جاتا۔ مَیں نے بچوں کو بھگایا اور ’’نیم پہ سو‘‘کو اپنے پاس بلا کر بٹھایا۔اس سے اس کا نام نام پوچھا۔ اس نے اپنا نام خائستہ خان بتایا۔ پھر وہ مجھ سے یوں گویا ہوا: ’’مَیں کورلغ ہزارے کارہنے والاہوں۔‘‘

یہ نام مَیں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا، جس سے میں نے چھچ ہزارہ مراد لیا۔ وہ مزید کہنے لگا کہ میں کراچی والیکا مِل میں کپڑامشین پر کام کر رہا تھا کہ فور مین نے مجھے گالی دی۔ میں نے ایک چیز اس کے سر پر دے ماری، جس سے اس کاسر پھٹ گیا اور وہ خون میں لت پت گرگیا۔ اس دوران میں مِل میں سائرن بجنے لگا۔ تمام مشینیں روک دی گئیں۔ مِل مینیجر میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ فور مین کو کیوں مارا؟ مَیں نے جواب دیا کہ اُس نے مجھے گالی دی ہے۔

یوں خائستہ سے میری راہ و رسم بڑھ گئی۔ ایک دن صبح سویرے فجر کی اذان کے بعد پشاور جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوا۔ قذافی کباب کڑاہی کے اہل کار سوختنی لکڑیاں اٹھائے کباب خانہ کو کھولنے آئے، تو دیکھا کہ خائستہ سخت سردی سے بچنے کے لیے کڑاہی کے نیچے راکھ میں ایسے لیٹا ہوا تھا کہ اُس کے پاؤں کڑاہی سے باہر آویزاں تھے۔ ایک ملازم آگے بڑھ کر ’’خائستہ خان دلہ، پاسہ!‘‘ کے تحقیر آمیز الفاظ استعمال میں لاتے ہوئے اُسے ٹانگوں سے کھنچنے لگا۔ خائستہ خان کڑاہی سے باہر آیا۔کھڑے ہوکر اپنے کپڑوں کو جھاڑا۔ سریلی آواز میں ’’یا قربان……!‘‘ کی صدا سے ٹپہ گایا اور اپنی صبح کا آغاز کرتے ہوئے جانے لگا۔

اُس نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی تکلیف تک گوارا کی، نہ اُس نے گالی کا کوئی نوٹس ہی لیا۔

ایک دن میں اپنے مہمان شبیر خان صاحب کے ساتھ زمین دار ہوٹل میں بیٹھا تھا۔ رات کے کھانے کے لیے مَیں نے تکہ تیار کرنے کا کَہ دیا اور ہم آپس میں باتیں کرنے لگے۔ اتنے میں میری نظر خائستہ خان دیوانے پر پڑی، جو میرے قریب ہی میز پر بیٹھا تھا۔ مَیں نے اپنا رُخ اس کی طرف موڑ دیا۔ اُسے چائے پینے کے لیے پیسے دیے۔ پھر مَیں شبیر خان صاحب کی جانب متوجہ ہوا۔ کچھ دیر بعد میری نظر پھر خائستہ پر پڑی۔ مَیں نے اُس سے چائے کے بارے میں پوچھا، تو اس نے جواب میں کہا کہ ’’سیام یان غوخہ نہ خوری!‘‘ مَیں بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔ تھائی لینڈ کا پرانا نام ’’سیام‘‘ ہے اور اس ملک میں بدھ مت والے رہتے ہیں۔ بدھ مت والے گوشت نہیں کھاتے۔ مَیں سمجھ گیا کہ یہ یار اپنے پیسوں سے چائے نہیں پیتا۔اب مَیں نے خود ہوٹل والوں کو اپنی جانب سے خائستہ خان کے لیے چائے لانے کا کَہ دیا اور دوبارہ اپنی جیب سے پیسے ادا کیے۔

ایک دیوانہ امیر الرحمان تھا۔ امان کوٹ مینگورہ سے اس کا تعلق تھا۔ امیر الرحمان کراچی میں آدم جی مِل میں کاری گر تھا۔ ایک دن وہ چھٹیاں لے کر اپنے گھر امان کوٹ آیا ہوا تھا کہ ایک صبح سکول کے طلبہ تانگے پر سوار سکول جا رہے تھے۔ پردے کے لیے تانگے پر کپڑا آویزاں تھا کہ اس اثنا میں ہوا نے پردے کو سرکا دیا اور امیر الرحمان کی نظر ایک لڑکی پر پڑی، جس کے حسن کی تاب امیر الرحمان نہ لاسکا۔ یوں ایک بھلا چنگا آدمی کسی کی زلف کا اسیر ہوکر دیوانہ بن گیا۔ پھر وہ ہر صبح سکول جانے والے تانگے کے پیچھے وصل کے لیے دوڑ لگانے لگا۔ یوں اُس سے آدم جی مِل کی کاریگری چھوٹ گئی اور وہ محبت کا قیدی بن گیا۔ دیوانگی کے عالم میں میری اس سے جان پہچان ہوگئی۔ مَیں نے اُس پر اپنی کتاب ’’ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘‘ میں ایک مضمون تفصیل سے لکھا ہے ۔

امان کوٹ مینگورہ ہی کا ایک دیوانہ عمر خان بھی تھا، جس کو انگریزی بولنے سے شغف تھا۔ وہ جب میرے پاس آتا، تو وہ مجھے پیار سے ’’دادا‘‘ کَہ کر مخاطب کرتا۔ اس نے ایک روز آکر مجھے بتایا: ’’دادا! مَیں نے فُلاں دکان دار کے مال سے بھرے ہوئے ٹرک سے کچھ مال اُتارا۔ اُس کے ذمے میرا 500 روپیا بنتا تھا، مگر وہ پیسے دینے میں ٹال مٹول کررہا تھا۔ دادا! اُس سے میرے پیسے لاکر دے دو۔‘‘

مَیں اس کی بات پر یقین نہیں رکھتا تھا ۔ وہ فر فر انگریزی بولنے لگتا تھا۔ مجھے سمجھانے کے لیے ایک ایک لفظ کی سپیلنگ تک کردیتا۔

2007ء تا2009ء سوات میں دہشت گردوں کا راج تھا۔ بے گناہوں کا خون بے دردی سے بہایا جارہا تھا۔ جب حالات آرمی کے قابو سے باہر ہوگئے، تو آر می نے دہشت گردوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے اہلِ سوات کو نقلِ مکانی کرنے کا کہا۔ فضا میں توپ کے گولے پھٹنے لگے۔ یہ اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ پُرامن شہریوں کو اب سوات چھوڑنا پڑے گا۔ ریڈیو پر سوات چھوڑنے کے اعلانات نشر ہونے لگے ۔ چوں کہ میری ماں بیمارتھی، اس وجہ عام ہجرت سے 15 دن بعد یعنی 21 مئی کو ہم نے سوات کو خدا حافظ کہا اور نوشہرہ چلے گئے۔ ہمیں ہمارا ٹھکانا معلوم نہ تھا، لیکن پھر بھی نوشہرہ کے مضافاتی گاؤں نودیہہ میں ایک سکول میں ہم نے ڈیرا ڈال دیا۔ وہاں ہم زندگی کے روز و شب گزارنے لگے۔

ایک دن میرے دوست شمشیر احمد (مرحوم) سے فون پر رابطہ ہوا، تو مَیں نے اُس سے امیرالرحمان دیوانے کا پوچھا کہ وہ کس حال میں ہے؟ شمشیر نے بتایا کہ وہ خیریت سے سوات میں ہے، لیکن عمرخان کو مار دیا گیا ہے۔ وہ یوں کہ سیکورٹی والوں کو راستے میں عمر خان دیوانہ مل گیا۔ اُنھوں نے عمرخان سے پوچھا کہ طالب کہاں ہے؟ اُس نے جواب انگریزی میں دیا: ’’یو آر طالب!‘‘ اُس سے دوبارہ یہی سوال پوچھا گیا۔ عمر خان نے پھر کہا: ’’یو آر طالب!‘‘ تیسری بار پھر وہی جواب سننا تھا کہ اُسے گولی مار کر شہید کردیا گیا۔

اب امیر الرحمان دیوانے کی کہانی بھی سنیں۔ امیر الرحمان مسجد سے باہر آ رہا تھا کہ ایک سیکورٹی والے نے اس کا نشانہ باندھا۔ دور سے ایک چرواہے نے آواز دی، ’’سر! اس کو مت ماریں، یہ تو پاگل ہے۔‘‘ یوں وہ بچ گیا۔ اب امیر الرحمان سے سیکورٹی والوں کا سامنا ہوا۔ امیرالرحمان نے اُنھیں فوجی انداز میں سلوٹ کیا اور ترانہ مترنم انداز میں پڑھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ ان میں سے ایک نے اسے مارنے کے لیے تھوڑی دیر پہلے نشانہ لیا تھا۔

قارئین! اب میرا واسطہ بہت کم دیوانوں سے پڑتا ہے۔اصل میں ہم سب دیوانے ہیں، لیکن ہمیں خود اپنا حال معلوم نہیں۔