فضل رازق شہاب
جناب نعیم اختر کی ایک پوسٹ سے شہ پاکر آپ سے چند یادیں شیئر کرتا چلوں، جس میں اُنھوں نے سوات کے ایک مایہ ناز آرٹسٹ مراد کا ذکر کیا تھا، جو سنیما کے لیے سائن بورڈ بناتے تھے۔ خاص کر نئی فلم کے بارے میں مختلف سائز کے بورڈ تیار کرتے تھے۔
جیسا کہ نعیم اختر نے بتایا کہ سوات سنیما میں پہلی فلم ’’آبِ حیات‘‘ کی نمایش ہوئی تھی۔ ہم نے والئی سوات کے ہال سے رخصت ہونے کے بعد ہی دوسرے شو کے ٹکٹ لیے تھے اور اُن کی افتتاحی شو ختم ہونے کے بعد روانگی ہوئی، تو ہم ہال میں داخل ہوگئے اور فلم آبِ حیات سے لطف اندوز ہوگئے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ "First impression is the last impression”ہم آج تک پریم ناتھ اور ششی کلا کے سحر سے نہ نکل سکے۔
بل بورڈ لکھنا ایک الگ آرٹ ہے اور ’’ٹرک آرٹ‘‘ کی طرح اُس کے اپنے فن کار ہیں جو نام ور ہوگئے۔ سنیما بورڈ، ٹرک آرٹ سے بہت پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔ کیوں کہ اُن میں انسانوں اور جانوروں کی اُوورسائز تصویریں بنانی پڑتی ہیں۔ اس میں مثال کے طور پر دو فٹ ناک اور ایک فٹ کان بھی اس توازن سے بنانے پڑتے ہیں کہ اداکار یا اداکارہ کی صورت نہ بگڑے اور تاثر بھی برقرار رہے۔
سنیما ہال کے فرنٹ کے لیے کئی ٹکڑوں پر مشتمل 70 یا 80 فٹ لمبا اور 8 یا 10 فٹ چوڑا بورڈ تیار کرنا ایک الگ ہنر ہے۔ اس کے علاوہ پبلسٹی کے لیے 4 فٹ یا 3 فٹ مربع کے بورڈ تیار کرنا اور ہر بورڈ میں لیڈنگ کیریکٹر کی تصویریں اور فلم کے ایک آدھ سین کی جھلک دکھانابھی ایک باریک بینی چاہتی ہے۔ یہ چھوٹے سائز کے بورڈ تانگوں یا رکشوں کے تین اطراف باندھ کر بازاروں اور ارد گرد کے قصبوں میں گھمائے جاتے تھے۔ اکثر تانگے میں ایک ڈھول بجانے والا بھی بٹھا دیا جاتا، تاکہ وہ ڈھول بجا کر لوگوں کی توجہ حاصل کرسکے۔
سوات سنیما میں ہم نے کئی فلمیں دیکھیں۔ میری، عبدالقیوم اور خلیفہ کی مشترکہ پسند ہوا کرتی تھی۔ ہم تینوں کو اُن دِنوں کی ایک مشہور اداکارہ ’’رخسانہ‘‘ بہت اچھی لگتی تھی۔ اس کی کوئی فلم ہم نے مس نہیں کی۔ کبھی کبھی تو ہم تینوں شو مسلسل دیکھتے۔ اُس کی ایک فلم ’’نیلم‘‘ تو ہم نے کئی بار دیکھی، جس میں اُس کے ساتھ ایک بھاری بھر کم ہیرو ’’سدھیر‘‘ نامی اداکار تھا، جو عمر میں اس کا باپ لگتا تھا۔ خیر، یہ تو پاکستانی فلموں کا ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ بات بورڈ کے آرٹسٹ سے شروع ہوئی تھی اور ’’نیلم‘‘ تک آگئی۔
اب ودودیہ ہائی سکول کے بارے سنیے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ودودیہ سکول 1923ء میں قائم ہوا تھا۔ میرے پاس اُس دور کے بارے میں کچھ خاص یادیں نہیں، کیوں کہ میری پیدایش 5 اپریل 1943ء ہے۔
پرائمری تک میں شگئی ہائی سکول کا طالب علم تھا۔ طلبہ کی تعداد زیادہ ہونے اور سیدو شریف کی آبادی بڑھنے کے پیشِ نظر والئی سوات نے دارالخلافہ میں ایک اور ہائی سکول کے اجرا کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے کالج کے مضافات میں واقع سنٹرل جیل کے مضبوط اور کشادہ عمارت کو مناسب تغیر وتبدل کے بعد ہائی سکول بنا دیا۔ اس کو ودودیہ ہائی سکول کا نام دیا گیا۔ یہ 1923ء میں قائم شدہ ودودیہ سکول کا دوسرا جنم تھا۔ اس میں پڑھائی کا باقاعدہ آغاز یکم اپریل 1952ء کو ہوا۔ والئی سوات کی ہدایات کے مطابق سیدو خوڑگئی (چھوٹی ندی) کو حدِ فاصل قرار دیا گیا۔ جنوبی سائیڈ والے لڑکے شگئی سکول میں رہ گئے اور شمالی سائیڈ والے نئے اجرا شدہ ودودیہ ہائی سکول منتقل کردیے گئے۔
اس کی عمارت بہت مضبوط تھی۔ موٹی موٹی دیواریں پتھر کی بنی ہوئی تھیں۔ چاروں طرف روشنی اور ہوا کے لیے کھڑکیاں بنا دی گئیں۔ دیواروں کا بیرونی رنگ سادہ سیمنٹ کا پلستر کا تھا، جس کے اوپر ردہ وار سفید لکیریں ڈال دی گئی تھیں۔ ہم اس کے نئے جنم کے اولین طلبہ تھے۔کیوں کہ ہمارا گھر افسرآباد میں ۴تھا اور مَیں اور میرا بھائی فضل وہاب 5 منٹ میں سکول پہنچ جاتے تھے۔
سوشل میڈیا پر مَیں نے ایک تصویر اس لیے دی ہے کہ اس میں ہمارے ایک قابل ترین ہیڈ ماسٹر جناب حسین خان، والئی سوات سے اپنی کارکردگی کے اعتراف کے طور پر ایک مہینے کی تنخواہ بونس کے طور پر وصول کر رہے ہیں۔ باقی انعام یافتہ اساتذہ لائن میں کھڑے اپنی باری کے منتظر ہیں۔ اس امر کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ والئی سوات ریاستی سکولوں کے اساتذہ کو اچھی پرفارمنس پر ایک مہینے کی تنخواہ اور تعریفی سند عطا کرتے تھے۔