فضل محمود روخان

قارئین، والیِ سوات بحیثیتِ حکمران، قانون سے بالا نہیں تھا۔ اس کی واضح مثال آپ اس ایک واقعہ سے خود لگالیجیے کہ والیِ سوات معمول کے مطابق سرِ شام سیر پر نکلے ہوئے تھے کہ اچانک اُن کی گاڑی کے سامنے فضاگٹ میں غلط سائیڈ پر ایک تانگہ آگیا۔ تانگے والے کو رکوایا گیا۔ غلطی کوچوان کی تھی۔ اس لیے سزا کے طور پر اُسے ایک چپت رسید کی گئی، ساتھ 25 روپے جرمانہ بھی کیا گیا۔ چند دن بعد خدا کی کرنی والیِ سوات حسب معمول سیر پر تھے۔ ان کی گاڑی کا سامنا اُسی تانگے والے کوچوان سے ہوگیا۔ کوچوان نے والیِ سوات کی گاڑی روکوا دی اور والی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”حضور، آپ کی گاڑی غلط سائڈ پر ہے۔ آپ نے چند دن پہلے مجھے اس غلطی کی پاداش میں 25 روپیہ جرمانہ کے ساتھ ساتھ ایک چپت رسید کی تھی۔“ والیِ سوات نے اپنے مصاحب کو حکم دیا کہ گاڑی تک سڑک کی لمبائی ماپ لیں۔ فاصلہ ناپا گیا، تو پتا چلا کہ والی صاحب کی گاڑی صرف چھے انچ غلط سائڈ پر تھی۔ انہوں نے اسی وقت کوچوان کو جرمانہ کی رقم واپس کر دی۔ اس پر کوچوان نے عرض کیا کہ ”حضور، میری اور آپ کی حیثیت میں فرق ہے۔ میں ایک غریب کوچوان ہوں اور آپ سوات کے حکمران۔ اس فرق کو آپ ذہن میں رکھ لیں۔“ والیِ سوات سمجھ گیا کہ کوچوان کیا کہہ رہا ہے۔ اس لیے انہوں نے کوچوان کو 100 روپے دے دیے۔ یوں والی صاحب نے خود قانون کی عملی طور پر پاس داری کی اور ثابت کیا کہ قانون کے سامنے کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں۔ اس کی نظر میں سب برابر ہیں۔
اس حوالہ سے ایک اور واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔ ایک دن معمول کے مطابق والی صاحب سیر پر نکلے ہوئے تھے۔ ایک آدمی پر ان کی نظر پڑی۔ وہ شخص سڑک کے کنارے پیشاب کے لیے بیٹھا ہوا تھا۔ جب مذکورہ شخص کی نظر والی صاحب کی گاڑی پر پڑی، تو وہ ڈر کے مارے بھاگ کر ایک قریبی مسجد میں گھس گیا۔ اتفاق سے مسجد میں نماز باجماعت کی غرض سے لوگ کھڑے تھے۔ اس لیے وہ بھی نمازیوں کے ساتھ صف میں کھڑا ہوگیا۔ والی صاحب کے باڈی گارڈ نے مسجد تک اُس کا پیچھا کیا، لیکن بعد میں نمازیوں کے بیچ اسے پہچان نہ سکا۔ اس لیے وہ واپس ناکام لوٹ آیا۔ باڈی گارڈ نے والی صاحب کو سارا ماجرا سنایا۔ والی صاحب نے کہا کہ نمازیوں میں جس کے پاؤں گندے اور میلے ہوں، وہ مجرم ہوگا۔ اس لیے کہ وہ بغیر وضو کے صف میں نماز کے لیے کھڑا ہوا ہوگا۔ یوں والی صاحب کے باڈی گارڈ نے بڑی آسانی سے مجرم کو پکڑ لیا۔
قارئین، سڑک کنارے کوئی شخص پیشاب نہیں کرسکتا تھا۔ یہ اس وقت کا قانون تھا۔ اس لیے خلاف ورزی پر اُسے سزا دی گئی۔ تاکہ وہ پھر ایسا نہ کرے اور مہذب زندگی گزارے۔
ایک اور واقعہ بھی رقم کرنے کے لائق ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن والی صاحب سیر پر نکلے ہوئے تھے کہ سڑک پر ایک شخص کی لاش پڑی دیکھی، جسے کسی نے مارا تھا۔ قانون کے رکھوالے قاتل کی کھوج میں لگے ہوئے تھے۔ والی صاحب نے کہا کہ قاتل دور نہیں گیا ہوا ہے۔ وہ یہی کہیں قریب ہوگا۔ کیوں کہ قاتل کے پاؤں بھاری ہوتے ہیں اور وہ عام لوگوں کی طرح دوڑ نہیں سکتا۔ والی صاحب کی بات درست ثابت ہوئی۔ قاتل کو چند گز کے فاصلے سے گرفتار کیا گیا۔ اسی وقت فیصلہ سنایا گیا اور قاتل و مقتول دونوں کی تجہیز و تکفین میں لوگ لگ گئے۔ انصاف اور وہ بھی فوری طور پر، یہ والیِ سوات کا خاصا تھا۔