سمرین سبحان
سوات:کچھ بیماریاں خوف اور شرم دونوں کو جنم دیتی ہیں جن میں ایڈز سر فہرست ہے۔ اس بیماری میں مبتلا افراد اکثر نہ صرف سماجی بے دخلی کا سامنا کرتے ہیں بلکہ اپنے رشتہ دار بھی ان سے خوف کھاتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک پریشان کن صورتحال پیدا ہوتی ہے۔
سماجی اور سائنسی طور پر ترقی کے باوجود ایڈز لاعلاج ہے اور پاکستان جیسے ممالک میں اس کا پھیلاو بڑھ رہا ہے۔ تاہم، ملک میں اس موذی مرض کے علاج اور کنٹرول کے مراکز کی مناسب تعداد کا فقدان ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں ایسی سہولیات عملی طور پر موجود نہیں۔ یہ کمی ایڈز کے مریضوں کو درپیش چیلنجوں کو بڑھا دیتی ہے۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق ملک بھر میں 53 ہزار 718 رجسٹرڈ ایچ آئی وی پازیٹو افراد ہیں۔ تاہم ایک اندازے کے مطابق ملک میں یہ تعداد دو لاکھ سے بھی زیادہ ہے جن کی اب تک رجسٹریشن نہیں ہوئی۔
صوبے میں رجسٹرڈ ایچ آئی وی پازیٹو افراد میں 4 ہزار 865 مرد، ایک ہزار 573 خواتین، 107 ٹرانس جینڈر اور 421 بچے جن میں 260 لڑکے اور 161 لڑکیاں شامل ہیں۔
بد قسمتی سے پاکستان میں ایڈز کے حوالے سے علاج اور کنٹرول کے مراکز کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے اس مرض کے مریضو ں کی تعدا میں کمی کے بجائے اضافہ ہورہا ہے۔
صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق خیبر پختونخوا میں 13 اے آر ٹی مراکز کام کررہے ہیں۔ ان میں پشاور میں دو کے علاوہ کوہاٹ، بنوں، بٹ خیلہ، ڈی آئی خان، ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد، صوابی، مردان، باجوڑ، کرم اور شمالی وزیرستان کے مراکز شامل ہیں، جہاں ٹیسٹ، آگاہی اور علاج کی سہولت مفت فراہم کی جاتی ہے۔
اےڈز کا شمار اُن امرض میں ہوتا ہے جو ایک وجو دے دوسرے کو منتقل ہو سکتا ہے۔ اسطرح کے سیکڑوں کیس موجود ہیں جن میں بیوی کو اپنے شو ہر سے یہ مرض منتقل ہوا ہے۔
سوات میں ایچ آئی وی مرض میں پچھلے 9 سال سے مبتلا ایک خاتون نے کہا کہ میرے خاوند ایڈز کا شکار تھے۔ ہمیں معلوم نہیں تھا۔ جب وہ اس مرض کے باعث جاں بحق ہوگئے، تو ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ آپ اپنے بچوں سمیت ایچ آئی وی کے ٹیسٹ کرائیں ۔ ڈاکٹر نے میرے اور میرے تین بچوں کے ٹیسٹ کرائے۔ نتیجتاً میرا ور ایک بچے کا ٹیسٹ پازیٹو آیا، جبکہ دو بچوں کاٹسٹ نیگٹیو نکلا۔
خاتون کے مطابق انہیں اور اسکے بچے کو کسی قسم کی تکلیف نہیں تھی، مگر ان کے چہروں کا رنگ کالا پڑگیا تھا اور ساتھ ہی سر بھی چکراتاتھا۔
خاتون نے کہا کہ شروع میں ان سے محلے کے لوگ کتراتے تھے اور ان کے بچوں کے ساتھ محلے میں دوسرے بچے کھیلنے سے بھی خوفزدہ تھے، جس سے انھیں بہت تکلیف پہنچتی تھی اور بچے روتے بھی تھے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور آگاہی بڑھنے کی بدولت اب پڑوسی اورشتہ دار ان سے آزادانہ ملتے ہیں۔
. متاثرہ خاتون نے مزید کہا کہ ان کا علاج جاری ہے جس میں حکومت مدد فراہم کرتی ہے اور ساتھ ساتھ خوراکی اشیا بھی فراہم کرتی ہے۔
صحت کے ماہرین کے مطا بق اےڈز ایک ایسا مرض ہے جو کہ جنسی رابطے کے ذریعے، آلودہ خو ن کے ساتھ براہِ راست رابطے کے اور حمل کے دوران میں ماں سے بچے میں منتقل
ہوتا ہے۔
ایڈزیک ایسی بیماری ہے جو انسانی جسم کی قوت مدافعت کو اتنا کم زور کر دیتی ہے کہ معمولی بیماریاں بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس کامکمل علاج ابھی تک ایجاد نہیں ہوا اور معمولی اثر کرنے والی ادویہ ہیں، لیکن وہ ابھی پاکستان جیسے ممالک میں فراہم نہیں۔
ضلع سوات میں ایڈز کنٹرول پروگرام پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عوامی ویلفیئر سوسائٹی کی ایگزیگٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر یاسمین گل کہتی ہیں کہ زیادہ تر کیسوں میں مریضوں کو ایڈز سے متعلق آگاہی نہیں ہوتی کہ یہ مرض انہیں کیسے لاحق ہوا اور اس سے بچنے کے لئے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ ڈاکٹر یاسمین خواتین مریضو ں کے حوالے سے کہتی ہیں کہ زیادہ تر کیس ایسے ہیں کہ انہیں ان کے شوہر کی وجہ سے ایڈز کی بیماری لگی ہے۔ تاہم متاثرہ مرد کو یاد نہیں ہوتا کہ انہیں یہ بیماری کس وجہ سے لگی؟ ڈاکٹر یاسمین مزید کہتی ہیں کہ ہمیں ایسے کیس بھی ملے ہیں کہ جسم فروشی سے وابستہ خواجہ سرا بھی اس مرض میں مبتلا ہیں جبکہ بعض نشے کے عادی افراد بھی اس مرض میں مبتلا پائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر یاسمین گل کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم کے تعاون سے بٹ خیلہ کے مقام پر ایک سنٹر بنایا گیا ہے جہاں پر ایڈز کے مریضوں کو لایا جاتا ہے۔ وہاں پر انھیں طبی سہولیات دی جار رہی ہیں۔
ایڈز مرض کے اعدادو شمار کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ امسال ان کے پاس تقریباً تین سو کیس سامنے آئے ہیں جبکہ وہ کہتی ہیں کہ یہ اعداد وشمار اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم عوامی حلقوں میں ایڈزکی آگاہی کے لئے مختلف سیمینار اور ورکشاپ منعقد کرتے ہیں، لیکن حکومت کو چاہیے کہ اس کی روک تھام کے لئے خصوصی مہم چلائیں۔
بدقسمتی سے سوات کی تقریباً 27 لاکھ آبادی کے لئے اب تک ایک بھی علاج اور کنٹرول کا مرکز موجود نہیں اور یہاں کے مریض علاج کی خاطر بٹ خیلہ یا پشاور جاتے ہیں۔
محکمۂ صحت سوات کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (ڈی ایچ اُو) ڈاکٹر سلیم کا کہنا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ضلع سوات میں اب تک 265 افراد میں ایچ آئی وی ایڈز پازیٹیو کیس سامنے آئے ہیں ۔ انھوں نے مزید کہا کہ سوات میں ایڈ ز بیماری کیلئے کوئی سنٹر موجود نہیں، تاہم انہوں نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت سوات میں
ایڈز کنٹرول سنٹر کا قیام عمل میں لائیں،تاکہ انھیں ٹسٹ کرانے میں آسانی ہو۔
ڈاکٹر سلیم نے مزید کہا کہ معاشرے میں آگاہی کے لئے عوام میں شعور اُجاگر کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ عوام بروقت اپنے ٹیسٹ کراکر اس مرض کی روک تھام کو ممکن بنائیں۔
آپریشن میں استعمال آلات سے متاثرہ جوان کی ایچ آئی وی کے باعث منگنی ٹوٹ گئی۔ اپنوں نے دوریاں اختیار کیں، لیکن اب وہ صحت مند ہے۔
بلال ( فرضی نامی) شخص نے بتایا کہ 2015ء میں ایک سرجری میں جو آلات استعمال ہوئے، کچھ عرصے بعد اس کا پیٹ خراب ہوتا۔ درد محسوس ہونا شروع ہوتا۔ ڈاکٹروں نے کئی بار معائنہ کیا۔ ’’2017ء میں اُس وقت مجھے اپنی بیماری کا پتا چلا جب درد حد سے زیادہ ہوگیا۔ پھر معلوم ہوا کہ اس وقت آپریشن میں استعمال ہونے والے آلات سے ایڈز کی بیماری لاحق ہوگئی ہے۔‘‘
کچھ عرصے تک بلال نے بیماری کو خفیہ رکھا،جن کو اس کی بیماری کے بارے میں علم ہوتا، وہ اُس سے دوری اختیار کرتے۔ اُس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے، لیکن اُس کا علاج جاری تھا۔ پھر جب اُس کے رشتہ داروں کو اس مرض کے بارے میں جان کاری ہوئی۔ انہوں نے رشتہ دینے سے انکار کیا اور منگنی ٹوٹ گئی۔
بلال نے کہا کہ منگنی اسی ایچ آئی وی مرض کی وجہ سے ٹوٹی۔ اس کے باعث اپنوں نے بھی منھ پھیر لیا۔
بلال نے کہا: ’’آج کل صحت مند ہوں اور اپنے آپ کو بہتر محسوس کرتا ہوں۔ کیوں کہ مَیں نے علاج صحیح طریقے سے کیا ہے اور اب بھی احتیاط کے طور پر میڈیسن استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ میڈیکل کورس جاری رکھے ہوئے ہوں