ضیاء الرحمان
پاکستان عالمی افق پر ”بائی پولر وار“ کے بعد ”پراکسی وار زون“ کے اثرات کے زیر سائے ایک ترقی پذیر ملک کا وجود رکھنے والا ملک ہے۔ اسی ”سٹرٹیجک پوزیشن“ کی وجہ سے یہاں کے عوام کا مستقبل کے دیکھنے کا عدسہ ہمیشہ دھندلاھٹ کا شکار رہتا ہے۔ اسی لیے فطرتِ انسانی کے زیرِ اثر وسیلہئ معاش کے انتخاب کا پہلا معیار ”محفوظ مستقبل“ ٹھہرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عموماً اور شمال مغربی خطے میں خصوصاً بہتر مستقبل کی خاطر والدین کا جھکاؤ میڈیکل کے شعبے کی طرف زیادہ رہا ہے۔ چوں کہ موجودہ دور میں ”ڈاکٹر“ حضرت انسان کے لیے مسیحا کی خدمات سرانجام دیتا ہے، اس لیے معاشرے میں اس شعبے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ج
ان وجوہات کی بنا پر اس شعبے میں نسبتاً ”کریم آف سوسائٹی“ کا اچھا خاصا تناسب موجود ہے۔ یوں ترقی پذیر اور نسبتاً مخدوش حالات رکھنے والا ملک ہونے کے باوجود پاکستان دنیا میں، میڈیکل کے شعبے میں اپنا لوہا منواتا ہے، جو کہ حوصلہ افزا ہے۔ پاکستان میں بہت کم ایسے شعبے ہوں گے جو بین الاقوامی سطح پر ملکی پذیرائی کا باعث ہوں۔
بد قسمتی سے گذشتہ پانچ سالوں سے قوم کے مسیحاؤں کا یہ شعبہ ”برائے نام تبدیلی“ والی سرکار کے زیرِ عتاب رہا ہے۔ اب چوں کہ ایک دور مکمل کرنے بعد جب ان سے ڈھنگ کی کوئی سرگرمی نہ ہوسکی، تو وقتی شہرت کے لیے قوم کا جذباتی ”اتیاچار“ کرتے ہوئے اس شعبے میں نت نئے تجربات کا آغاز کر دیا گیا، اور پچ پر کھیلنے کے لیے عمران خان صاحب کے کزن کا انتخاب کیا گیا، جس کی ”ایم ٹی آئی ریفارمز“ کے نتائج کا پانچ سالوں سے شدت سے انتظار کیا جا رہا ہے۔
جدید طب کے ارتقا پر نظر رکھنے والے غالب اذہان کا خیال یہی ہے کہ یہ تجربہ شدید ناکامی کی طرف جاتا ہوا نظر آرہا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق ڈاکٹر نوشیروان برکی صاحب کو بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ سسٹم امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بے شک کامیاب ہوگا۔ اس لیے کہ وہاں ادارے سیاست اور کرپشن جیسے موذی بیماریوں سے پاک ہیں۔ 2013ء میں ریفامز کے نام پر ٹیچنگ انسٹیٹیوٹس کا مکمل اختیار کُل سات (7) بندوں کو دیا گیا جو اپنے ہر قسم کے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔ یہ ایک طرح سے کرپشن اور اقربا پروری کے لیے نیا، آسان اور قانونی راستہ فراہم کیا گیا۔ اس لیے دنیا میں جب کبھی ایک ملک دوسرے کا ماڈل اپنے ملک میں رائج کرتا ہے، تو اس سے پہلے اس ملک کے سیاسی حالات، معاشی آزادی، معاشرے کی تعلیمی اور شعوری جہتوں کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ تب کہیں جاکر ایسی تبدیلیاں بار آور ثابت ہوتی ہیں۔
لیکن ہمارے ہاں، تو بی آر ٹی جیسے میگا پراجیکٹ میں وہ ڈنڈیاں ماری جا چکی ہیں جنہیں چھپاتے چھپاتے تمام تر توانائیاں ضائع ہوکر رہ گئیں۔ اسی لیے اس قسم کی تعمیری امید رکھنا محض خام خیالی ہی ہوسکتا ہے۔ یعنی بقول شاعر
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
”تبدیلی سرکار“ کے طریقہئ واردات کے مطابق ہر پراجیکٹ کے پی سی ون کے ساتھ نعروں، دلکش وعدوں اور ایمان و یقین کی حد تک تذکروں کا خاص پیکیج تیار کیا جاتا ہے۔
2013ء کو ایم ٹی آئی ریفارمز کے وقت، ڈاکٹرز دیگر عوام کی طرح اس آفاقی حقیقت سے بے خبر تھے، اس لیے ایم ٹی آئی ریفامز کو ظاہری نوک پلک سنوارنے کے بعد بخوشی قبول کیا۔ لیکن ”تبدیلی سرکار“ نے اس پر اکتفا نہیں کیا اور وہی سسٹم ”ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی“ کی صورت میں اضلاع تک توسیع دینے کا سکیم بنایا۔ جس کے مطابق ضلعی سطح پر ایک کمیٹی متعلقہ ضلع میں صحت کے شعبے کی اختیار مند ہوگی۔ اس میں مقامی حکومت اور سوشل ورکرز کے ساتھ ڈاکٹرز شامل ہوں گے۔ اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس سسٹم میں میرٹ کی پامالی کے لیے اچھا خاصا خلا موجود ہے۔ اس طرح کرپشن کی خاطر قانونی طور پر غیر قانونی راستوں کے لیے آسان اور محفوظ بنیاد میسر آجائے گی۔ دوسری طرف ڈاکٹر کی حیثیت ایک پرائیوٹ ادارے میں نوکری کرنے والے ملازم کی رہ جائے گی اور وہ ”سول سرونٹ رائٹس“ سے محروم ہوجائے گا۔ یہ اختیار بالواسطہ یا بلاواسطہ اسی کمیٹی کے پاس آجائے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ پھر فیصلوں کا مجموعی مینڈیٹ صرف سیاسی اپروچ ہی ہوگا۔
قارئین، یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ڈاکٹرز سراپا احتجاج ہیں۔ اس میں نہ قوم کی بھلائی ہے اور نہ ڈاکٹرز کمیونٹی کی۔ جہاں بھی میرٹ کی پامالی رواج بن جائے، وہاں پر لائق اور اہل لوگوں کے آگے آنے کے مواقع بتدریج کم ہونے لگتے ہیں جس کا نتیجہ اداروں میں بدانتظامی، وسائل کا فضول استعمال اور کاہل قسم کے رویوں کی صورت میں نکلتا ہے۔بڑی حد تک اس کا بری طرح شکار آج کل حکومتی نظام بھی ہے۔
یہ حکومت چوں کہ کام کی بجائے پروپیگنڈا کرنے پر زیادہ یقین رکھتی ہے۔ اس لیے انفارمیشن میڈیا پر حقیقت سے زیادہ خیالی پلاؤ پکانے اور کھانے والے حضرات کی گونج موجود ہے۔ اس لیے شائد میری یہ تحریری کاوش، نقار خانے میں توتی کی آواز کے مصداق ہی ثابت ہوگی۔
قارئین، جاتے جاتے مَیں یہی دعا کرسکتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں حق دیکھنے، سننے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!