فضل رازق شہاب

ہمارے ایک بونیری دوست تھے، اگر زندہ ہوں، تو اللہ اُنھیں خوش رکھے۔ یہ دوستی چوں کہ ایک طرح کی کاروباری نوعیت کی تھی، وہ ٹھیکے دار تھے اور مَیں سب انجینئر۔ اس لیے ہمارے تعلقات ہمیشہ کھچاو کا شکار رہے۔ ویسے بدقسمتی سے میرے کبھی کسی ٹھیکے دار سے نہ نبھ سکی اور شکست ہمیشہ مجھے ہی ہوتی رہی۔ کیوں کہ مَیں ہمیشہ بڑے شخص کو مبارزت کی دعوت دیتا تھا۔ چھوٹوں کو نظر انداز کرتا تھا۔
تو مذکورہ بونیری دوست پاچا کلے کے رہنے والے تھے۔ پیشہ کے لحاظ سے گاڑیوں کے مستری تھے اور اپنے فن میں بے مثال تھے۔ کسی منحوس نے اُن کو ٹھیکے داری کی طرف راغب کیا۔ اے کلاس کا لائسنس چور دروازے سے بنوایا۔ مشینری تو اُس کے ورک شاپ میں ہر وقت کھڑی رہتی۔ بلڈوزر، محکمے کے پرانے روڈ رولر وغیرہ۔
خیر، یہ تو بر سبیل تذکرہ بات چلی۔ ابھی مَیں فضل مولا (خان جی) کی تبلیغی رپورتاژ پڑھ رہا تھا، تو مجھے مذکورہ ٹھیکے دار یاد آگئے۔
ایک دن بتارہے تھے کہ وہ چند دوستوں کے ساتھ لاہور گئے تھے۔ ایک ہوٹل میں کھانا کھانے بیٹھے، تو اُن کے ایک ساتھی نے کہا کہ تم سب لوگ اَن پڑھ ہو۔ مستری خانے کے شاگرد قسم کے چھوکرے ہو۔ اس لیے آرڈر میں دوں گا۔
جب بیرا آیا اور آموختہ حسبِ معمول دہرایا، تو اُن صاحب نے آرڈر دیا: ’’تمام گوشت لے آؤ!‘‘
بیرا بے چارا حیرت زدہ ہو کر کھڑا رہا۔ دراصل ہمارے ٹھیکے دار اَن پڑھ دوست کے کہنے کا مقصد تھا کہ ’’سب کے لیے آلو گوشت لاؤ!‘‘
رات کو ہم غلطی سے ون وے روڈ پر مڑ گئے۔ پولیس نے وِسل بجا کر رُکوا دیا، تو یہ تعلیم یافتہ صاحب اُتر کر پولیس کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگا کر کہنے لگا:
’’بھائی صاحب! ہم تبلیغی لوگ ہیں، ہمیں جانے دو!‘‘
مگر پولیس اہل کار کب مانتا تھا۔ ناچار ہمارے ٹھیکے دار دوست اُترے اور پولیس کو ایک نسبتاً تاریک کونے لے جاکر اُس کی جیب میں دس کا نوٹ ٹھونستے ہوئے بات ختم کروادی۔
بہ قولِ خواجہ میر دردؔ
وائے نادانی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا