سجاد علیگرامہ
وادیِ سوات، پاکستان کے شمال میں واقع وہ خوب صورت وادی ہے، جسے قدرت نے حسن، پانی، پہاڑوں اور زرخیز زمین سے نوازا ہے۔ اسی سرزمین پر ایک ایسے شخص نے جنم لیا، جسے ’’ون مین آرمی‘‘ کہا جائے، تو مبالغہ نہ ہوگا۔
یہ کہانی ہے محمد ہلال کی، جو ضلع سوات کے مشہور قصبے ’’علیگرامہ‘‘ تحصیل کبل کے رہایشی ہیں۔
محمد ہلال ایک سادہ دل، باہمت اور جذبۂ خدمت سے سرشار سوشل ورکر ہیں، جنھوں نے محدود وسائل کے باوجود اپنی خدمات سے پورے علاقے کا دل جیت لیا ہے۔ محمد ہلال ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن علیگرامہ کی گلیوں میں گزرا، جہاں غربت اور محرومی نے ہمیشہ اُن کے ذہن پر نقش چھوڑے۔ بچپن ہی سے اُن میں خدمتِ خلق کا جذبہ تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ دیگر نوجوانوں کی طرح ملازمت یا بیرونِ ملک جانے کے خواہش مند ضرور تھے، لیکن ایک دن اُن کے ضمیر نے اُنھیں جھنجھوڑا کر کہا کہ ’’اگر سب چلے گئے ، تو ہمارے علاقے کی حالت کون سنوارے گا؟‘‘
یہ وہ لمحہ تھا جب محمد ہلال نے اپنے لیے ایک مختلف راستہ چناسوشل ورک کا۔ اُس وقت اُن کے پاس کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی این جی اُو کا سہارا اور نہ حکومتی سرپرستی ہی تھی۔ صرف یہ یقین تھا کہ اگر نیت صاف ہو، تو راستے خود بہ خود بننے لگتے ہیں۔
محمد ہلال نے اپنی مہم کا آغاز چھوٹے کاموں سے کیا۔گلیوں کی صفائی، یتیم بچوں کی مدد، بیماروں کے علاج کے لیے چندہ جمع کرنا، نالیوں کی مرمت اور اسکول سے باہر بچوں کو واپس تعلیمی میدان میں لانا۔ شروع میں لوگ اُن کا مذاق اُڑاتے اور کہتے کہ یہ کیا کرلے گا ایک اکیلی جان!
لیکن جب ان کا کام بولنے لگا، تو وہی زبانیں خاموش ہو گئیں اور دلوں میں عزت نے جگہ لے لی۔
محمد ہلال کا مشن سادہ ہے، لیکن پُرعزم کہ ہر شخص کو جینے کا حق ہو، صاف ماحول ہو، تعلیم عام ہو اور غریب کو سہارا ملے۔
اُن کا وژن ہے کہ علیگرامہ، جو ضلع سوات کا دریا پار ایک گاؤں ہے، اسے ایسا ماڈل ویلج بنایا جائے، جہاں دوسرے علاقوں کے لوگ بھی آکر سیکھیں کہ ترقی محض حکومت کے منصوبوں سے نہیں، بل کہ عوام کے تعاون اور خدمت سے بھی ممکن ہے۔
جب محمد ہلال نے اپنے سوشل ورک کا آغاز کیا، تو وسائل کی کمی سب سے بڑا چیلنج تھی۔ گلیوں میں صفائی کے لیے جب کوئی ورکر دست یاب نہ ہوتا، تو وہ خود جھاڑو اٹھاتے۔ اسکول کے لیے جب چندہ نہ ملا، تو وہ گھر گھر جا کر والدین کو قائل کرتے اور پرائیویٹ اساتذہ کے ساتھ مل کر ٹیوٹورنگ پروگرام کا آغاز کرتے۔ ان کے اس جذبے نے نوجوانوں میں بھی ایک نئی روح پھونکی۔
دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کی قلت ایک مستقل مسئلہ ہے۔ محمد ہلال نے جب یہ دیکھا کہ لوگ معمولی بیماریوں کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، تو اُنھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت میڈیکل کیمپس لگانا شروع کیے۔ بعد ازاں، کئی موبائل کلینکس بھی اُن کی کوششوں سے متعارف ہوئے، جو دور دراز کے علاقوں میں جا کر سیکڑوں مریضوں کو مفت طبی امداد فراہم کرتے تھے۔
محمد ہلال صرف انسانوں سے ہی محبت نہیں کرتے، بل کہ وہ فطرت، درختوں، پرندوں، پانی اور زمین سے بھی گہرا ربط محسوس کرتے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ ماحول کی حفاظت صرف ایک اخلاقی فریضہ نہیں، بل کہ زندہ رہنے کی ضمانت ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ اگر ہم زمین کو سانس لینے کا موقع نہ دیں، تو آنے والی نسلیں صرف آکسیجن کے لیے تڑپیں گی۔
سوات جیسے خوب صورت علاقے میں ماحولیاتی توازن کا بگڑنا انھیں بے حد تکلیف دیتا ہے۔ پہاڑوں کی کٹائی، بے دریغ درختوں کی چنائی، گندگی اور ندی نالوں میں پھیلتا آلودہ پانی اُنھیں بے چین کیا کرتا، مگر صرف تکلیف محسوس کرنا ان کی فطرت نہیں، وہ عمل پر یقین رکھتے ہیں ۔
ہلال نے علیگرامہ اور ارد گرد کے دیہات میں ’’سبز سوات، محفوظ سوات‘‘ کے نام سے ایک مربوط شجرکاری مہم شروع کی۔ مذکورہ مہم کا مقصد صرف درخت لگانا نہیں، بل کہ عوام میں شعور پیدا کرنا، بچوں کو فطرت سے جوڑنا اور ماحول کو دوبارہ زندہ کرنا ہے۔ اُن کی قیادت میں سالانہ بنیاد پر ہزاروں درخت لگائے گئے جن میں مقامی اقسام جیسے چیڑ، دیار، بید اور پھل دار پودے شامل تھے۔ وہ یہ خیال رکھتے کہ ہر درخت مقامی ماحول سے ہم آہنگ ہو، تاکہ وہ تیزی سے بڑھ سکے اور فطری نظام کا حصہ بنے۔
محمد ہلال کی ان مہمات کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو آگے لاتے ہیں۔ مقامی اسکولوں میں جا کر بچوں کو پودا لگانے کے طریقے سکھاتے ہیں، ماحولیاتی فلمیں دکھاتے ہیں اور صفائی کے مقابلے منعقد کرواتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ماحول کو بچانا صرف حکومت کی ذمے داری نہیں، ہر ہاتھ اگر ایک پودا لگا دے، تو سارا ملک ہرا ہوجائے۔‘‘
شجرکاری کے علاوہ وہ پانی کے تحفظ، کچرے کے نظم اور پلاسٹک سے بچاو جیسے موضوعات پر بھی عملی کام کرتے رہے۔ کئی مقامات پر اُنھوں نے رضاکاروں کے ساتھ مل کر ندی نالوں کی صفائی کی۔ اُن کی کوششوں سے علاقے میں ماحولیاتی آلودگی میں کسی حد تک کمی دیکھنے کو ملی۔ جانوروں اور پرندوں کی پرانی اقسام واپس آنے لگیں، زمین کی زرخیزی بہتر ہوئی اور مقامی موسم میں قدرے بہتری دیکھی گئی۔ اُنھوں نے ماحولیاتی کام کو صرف نعرے یا تقریروں تک محدود نہیں رکھا، بل کہ اسے معاشرتی خدمت، تعلیمی مہم اور عملی جد و جہد کا حصہ بنا کر دکھایا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ محمد ہلال سوات کی سرزمین کے وہ بیٹے ہیں، جنھوں نے پہاڑوں، درختوں اور دریاؤں سے ویسا ہی سلوک کیا، جیسا انسانوں سے محبت، احترام اور حفاظت۔
سوات ایک ایسا علاقہ ہے جو زلزلوں، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کی زد میں آتا رہتا ہے۔ محمد ہلال نے ہر آفت کے وقت اپنی جان کی پروا کیے بغیر لوگوں کی مدد کی۔ 2010ء کے سیلاب کے دوران میں اُن کی قیادت میں کئی امدادی ٹیمیں تشکیل دی گئیں، جنھوں نے کھانے، پانی، کپڑے اور پناہ گاہیں متاثرین تک پہنچائیں۔ اُن کی ہنگامی حکمت عملی کو کئی سرکاری و غیر سرکاری اداروں نے سراہا۔
2022ء کا سال پاکستان کی تاریخ میں ایک الم ناک سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس برس ملک کے کئی حصے شدید بارشوں اور تباہ کن سیلاب کی لپیٹ میں آئے۔ خیبر پختونخوا، خاص طور پر سوات اور اس کی تحصیل کبل، بھی اُن علاقوں میں شامل تھا، جہاں تباہی نے تقریباً ہر دروازے پر دستک دی۔ لوگ بے گھر ہوئے، راستے بہہ گئے، خوراک کا بحران پیدا ہوا اور بیماریاں پھیل گئیں۔ ایسے میں محمد ہلال ایک بار پھر اس انسانی بحران کے درمیان اُمید کی کرن بن کر اُبھرے۔ سیلاب کی پہلی اطلاع ملتے ہی محمد ہلال نے اپنے تمام دیگر منصوبے روک دیے اور فوری طور پر ایک ایمرجنسی رضاکار ٹیم تشکیل دی۔ وہ خود بھی متاثرہ علاقوں میں جا کر حالات کا جائزہ لیتے رہے۔ اُن کی راہ نمائی میں ’’خدمت یوتھ نیٹ ورک‘‘ کے سیکڑوں نوجوانوں نے متاثرہ خاندانوں تک امداد پہنچائی۔ اُن کی ٹیم نے پہاڑی راستوں، کچے علاقوں اور بہتے نالوں کو عبور کر کے متاثرین تک اشیائے ضروریہ پہنچائیں۔ گھروں کے منہدم ہونے کے بعد، لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے تھے۔ محمد ہلال نے اسکولوں، مسجدوں اور کمیونٹی سینٹرز کو عارضی رہایش گاہوں میں تبدیل کیا۔ نہ صرف خیمے، بستر اور کپڑے فراہم کیے، بل کہ ان مقامات پر صاف ستھرا اور باعزت ماحول مہیا کرنے کو ترجیح دی۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں کی ضروریات کا خاص خیال رکھا گیا۔ خواتین کے لیے الگ بیت الخلا، بچوں کے لیے کھیلنے کا سامان اور بزرگوں کے لیے طبی معاونت فراہم کی گئی۔
2022ء کا سیلاب محمد ہلال کے عزم، رحم دلی اور تنظیمی صلاحیت کا امتحان تھا اور وہ اس میں سرخرو نکلے۔ ان کی خدمات نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر دل میں خلوص ہو، تو ایک شخص بھی ہزاروں لوگوں کی زندگی بدل سکتا ہے۔ وہ صرف ایک سماجی کارکن نہیں تھے، بل کہ آفت کے وقت اللہ کی مدد کا ذریعہ بن کر آئے ۔
اُس موقع پر ایک مقامی بزرگ کا کہنا تھا کہ جب ہر طرف پانی تھا اور امید ڈوب چکی تھی، تب محمد ہلال آئے۔ وہ کشتی نہیں لائے، مگر دل کا سہارا بن گئے۔
ایک نوجوان خاتون کا کہنا تھا، مَیں دو بچوں کے ساتھ بے گھر ہو گئی تھی۔ ہلال صاحب نے مجھے خیمہ دیا، کھانا دیا اور سب سے بڑھ کر عزت دی۔
27 جون 2025ء کے سانحۂ سوات میں نے پوری انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ شدید بارشوں کے باعث ضلع سوات میں رفتہ رفتہ پانی میں اضافہ ہوا، خاص طور پر دریائے سوات کے کنارے بسنے والے سیاح اور مقامی افراد سیلابی ریلے میں پھنس گئے۔ ان مشکل حالات میں، جہاں حکومتی اداروں کی جانب سے امدادی کارروائیاں تاخیر کا شکار رہیں، ایک شخص محمد ہلال بغیر کسی سرکاری مراعات کے مبینہ طور پر سب سے آگے نظر آیا۔ سیلاب کی پہلی اطلاع ملتے ہی محمد ہلال نے اپنی تمام جاری سرگرمیاں معطل کر دیں اور ’’خدمت یوتھ نیٹ ورک‘‘ کے رضاکاروں کی ایک ٹیم فوری طور پر تشکیل دی۔ اُنھوں نے خود پانی میں اُتر کر متاثرہ علاقوں، خاص طور پر مینگورہ بائی پاس اور فضاگٹ جیسے سیاحتی مقامات کی بابت فوری طور پر زمینی سطح پر جائزہ لیا۔ وہ آگے بڑھ کر لوگوں کو سکھاتا اور پانی سے نکالتا، جب کہ حکومتی ریسکیو کی کمی کے باعث ہلال کے اقدامات نے کئی زندگیاں بچائیں۔
محمد ہلال کی زیرِ نگرانی ’’خدمت یوتھ نیٹ ورک‘‘ کی ٹیم نے مل کر 120 سے زائد افراد ریسکیو کیے، جن میں سیاح اور مقامی لوگ شامل تھے۔
اس حوالے سے ایک چشم دید گواہ کا کہنا تھا کہ ’’محمد ہلال نے بپھرے ہوئے پانی میں رہتے ہوئے تین افراد کو بچایا۔‘‘ یہ منظر انتہائی متاثر کن تھا۔ ایک شخص اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر دوسروں کو بچا رہا تھا۔ ایسے ہی لوگ اصل ہیرو ہوتے ہیں۔
2025ء کے سوات سیلاب میں محمد ہلال نے یہ ظاہر کیا کہ ایک شخص کا عزم، خلوص اور اجتماعی جذبہ کسی بھی بڑے ادارے سے زیادہ موثر ہوسکتا ہے۔ وہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر لوگوں کی مدد میں مصروف رہے۔
محمد ہلال صرف لوگوں کی جان نہیں بچا رہے تھے، بل کہ وہ ’’ون مین آرمی‘‘ تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد ہلال ایک متوازن، شایستہ اور بااخلاق شخصیت ہیں۔ ان کی سادگی، دیانت داری اور عاجزی نے اُنھیں ہر دل عزیز شخصیت بنا دیا ہے۔ وہ دوسروں کی مدد کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ وہ نہ شہرت کے متلاشی ہیں نہ دولت کے، بل کہ اُن کا مقصد صرف اور صرف انسانی خدمت ہے۔
محمد ہلال کی خدمات کا دائرۂ کار اب صرف سوات تک محدود نہیں رہا۔ اُن کی سوچ اور طریقۂ کار کو ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اپنایا جا رہا ہے۔ کئی نوجوان اُن کی سوچ سے متاثر ہو کر عملی میدان میں اُتر چکے ہیں۔
اگرچہ محمد ہلال کی کوششیں مقامی ہیں، مگر اُن کی گونج ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی سنائی دے رہی ہے۔ کئی غیر ملکی تنظیموں نے ان کے ماڈل کو سراہا۔ بعض اداروں نے اُنھیں کانفرنسوں میں مدعو کیا، مگر وہ ہمیشہ سادگی سے انکار کر دیتے اور کہتے: ’’میری جگہ یہاں ہے، ان لوگوں کے درمیان، جن کے لیے میں کام کرتا ہوں۔‘‘
تاہم اُن کے کام کو ڈاکیومنٹریز، رپورٹس، اور تحقیقی مقالوں میں شامل کیا گیا۔ کچھ این جی اُوز نے اُن کے طریقۂ کار کو ’’پائیدار ترقی کے مثالی ماڈل‘‘ کے طور پر پیش کیا۔
محمد ہلال نے خود کو خدمت کے لیے وقف کیے رکھا۔ اُنھوں نے مالی لحاظ سے کئی قربانیاں دیں۔ اپنے کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ وہ فلاحی منصوبوں میں صرف کرتے رہے۔ کئی بار اپنے اہلِ خانہ کے آرام اور ضروریات کو پیچھے رکھ کر دوسروں کی مدد کو ترجیح دی۔ اُنھوں نے ایک خاموش انقلاب برپا کیا۔ اُن کی شخصیت واقعی ایک ’’ون مین آرمی‘‘کی سی ہے…… ایک فرد، جو بہ ظاہر تنہا ہے، مگر اپنے ایمان، جذبے اور خلوص کی طاقت سے پورے معاشرے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
محمد ہلال جیسے لوگوں کے لیے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں، مگر اُن کی مثال ہمیشہ مشعلِ راہ کا کام دیتی ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم محمد ہلال کی سوچ کو زندہ رکھیں، اُن کی خدمات کو جاری رکھیں اور اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے وہی بنیں، جو محمد ہلال اپنے علاقے کے لیے ہے…… ایک خدمت گزار، بے لوث اور حقیقی ہیرو۔
میں حکومتِ پاکستان سے پُر زور اپیل کرتا ہوں کہ محمد ہلال کو اُن کی بے لوث سماجی خدمات اور ایک تنہا سپاہی ہونے کے ناتے صدارتی ایوارڈ سے نوازا جائے۔
ون مین آرمی ’’محمد ہلال‘‘
