وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی میزبانی میں پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں صوبائی کابینہ کے اراکین، اراکین اسمبلی، مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان، تاجر برادری، اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔
کانفرنس کا مقصد صوبے میں امن و امان کی مجموعی صورتحال، ممکنہ فوجی آپریشنز، وفاقی حکومت سے متعلق معاملات، وسائل کی تقسیم، بارڈر سیکیورٹی اور قبائلی اضلاع کی صورتحال پر مشاورت اور متفقہ لائحہ عمل طے کرنا تھا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ وہ ان تمام سیاسی رہنماؤں کے مشکور ہیں جنہوں نے کانفرنس میں شرکت کی، اور جو جماعتیں شریک نہیں ہوئیں ان کے لیے بھی دروازے کھلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ وقت سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر خیبر پختونخوا کے اجتماعی مفادات کے لیے اکٹھے ہونے کا ہے۔
آپریشنز اور سیکیورٹی کا مؤقف واضح
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ صوبے میں کسی بھی نئے فوجی آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کے بقول، "آپریشنز سے ہمیشہ سیکورٹی فورسز اور عوام دونوں کا نقصان ہوا ہے، اور یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے”۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف ڈرون حملے بند کئے جائیں کیونکہ ان سے بے گناہ شہریوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ "صوبے میں کسی بھی قسم کے گڈ طالبان کے لیے کوئی گنجائش نہیں” اور یہ کہ "گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی تفریق ختم کر کے، تمام شدت پسند عناصر کے خلاف یکساں پالیسی اپنانا ہوگی۔”
ضم اضلاع، بارڈر، اور مذاکرات
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ضم اضلاع میں متعلقہ قبائل سے نوجوانوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے تاکہ مقامی سطح پر امن قائم رکھا جا سکے۔ بارڈر کی سیکیورٹی کو وفاقی حکومت کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "یہ بارڈر کو سنبھالیں، نیچے ہم خود مقابلہ کریں گے۔”
ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں مقامی جرگوں کی مدد سے نہ صرف امن قائم کیا جائے گا بلکہ افغانستان سے مذاکرات کے لیے بھی قبائلی روایات کے مطابق قبائلی جرگے ہی مؤثر ذریعہ ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے ساتھ خیبر پختونخوا کی نمائندگی کے بغیر جرگے کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ "یہ سوال بنتا ہے کہ اسحاق ڈار کس حیثیت سے افغانستان سے خیبر پختونخوا کے امور پر بات کرتے ہیں؟” وزیر اعلیٰ نے کہا۔
وسائل، این ایف سی، اور صوبائی خودمختاری
کانفرنس میں این ایف سی ایوارڈ، وفاق سے واجبات، معدنی وسائل اور ٹیکس معاملات پر بھی کھل کر بحث ہوئی۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ "این ایف سی ہمارا آئینی حق ہے، فوری اجلاس بلایا جائے اور خیبر پختونخوا کے بقایاجات فوری کلیئر کیے جائیں۔”
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "صوبے کے منرلز ہمارے ہیں اور ہمارے ہی رہیں گے” اور فاٹا اور پاٹا میں وفاقی ٹیکسز کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان کے مطابق، "فیڈرل فورسز کو صوبے میں کارروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی، صوبائی خودمختاری کا احترام کیا جائے۔”
مشترکہ لائحہ عمل اور جرگہ سازی کا اعلان
کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ ضلعی سطح پر پارلیمنٹرینز کا جرگہ قائم کیا جائے گا اور ان کے بعد ایک بڑا گرینڈ جرگہ منعقد کیا جائے گا تاکہ سیاسی و قبائلی اتفاق رائے سے امن قائم رکھنے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
کانفرنس کے شرکاء کو امن و امان کے حوالے سے صوبائی حکومت کی کوششوں اور اقدامات پر بریفنگ بھی دی گئی۔
سیاسی رہنماؤں کی شرکت
اس آل پارٹیز کانفرنس میں پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم، قومی وطن پارٹی کے ہاشم بابر، اور جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ عبدالحق ثانی سمیت دیگر سیاسی رہنما شریک ہوئے۔