تحریر:سلیمان ایس این
پاکستان کہ صوبہ خیبر پختون خواہ ضلع سوات وہ وادی جو کبھی حسن، امن اور مہمان نوازی کی علامت تھی، آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں امید کے چراغ بجھتے اور مسائل کے اندھیرے پھیلتے جا رہے ہیں۔ یہاں کے لوگ روز صبح نئی امید کے ساتھ جاگتے ہیں، مگر شام مایوسی کے ساتھ ڈھلتی ہے۔
صوبائی حکومت نے حال ہی میں سوات کو دو اضلاع میں تقسیم کر دیا — دعویٰ سہولت کا، مگر نتیجہ الجھن کا۔90 فیصد عوام اس سے ناخوش دیکھائے دیتے ہیں
سیدو ٹیچنگ ہسپتال کو ایم ٹی آئی نظام میں لانے سے علاج عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہونے کو ہے۔سرکاری کالجز کی نجکاری نے تعلیم کو کاروبار بنا دیا۔جنرل بس اسٹینڈ بائی پاس کی بندش سے شہری روز مرہ کی مصیبتوں میں گھر گئے۔حالیہ تباہ کن سیلاب سے متاثرہ عوام آج بھی امداد کے منتظر ہیں۔
تجاوزات کے نام پر کارروائیوں میں درجنوں دکانیں، ہوٹل اور کاروبار بلڈوز کیے گئے، مگر کوئی متبادل روزگار نہیں دیا گیا۔ان سب کے بیچ سب سے خطرناک مرض کرپشن ہے۔سوات میں ہر جگہ رشوت اور سفارش عام ہو چکی ہے۔ عوام کا جائز کام بھی اب “قیمت” مانگتا ہے۔
اور ان سب کے باوجود سوات کے 11 ایم پی ایز اور 3 ایم این ایز کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ ان کی کارکردگی صفر کے برابر ہے۔عوامی نمائندے عوام سے غائب ہیں۔ اسمبلیوں میں ان کی آواز خاموش، میدان میں ان کا وجود ناپید۔یہ وہ نمائندے ہیں جو گذشتہ 13 سالوں سے سوام کا خون چوس رہے ہیں ۔
سوات کے لیے اب سب سے بڑا اور تشویشناک مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی کی لہر دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔نامعلوم افراد، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دوسرے علاقوں یا ملکوں سے آ کر سوات کے پہاڑوں میں چھپ جاتے ہیں، ایک بار پھر خوف کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔عوام سوال اٹھا رہے ہیں کہ:
“یہ کون لوگ ہیں جو صرف سوات کے پہاڑوں میں ہی کیوں نظر آتے ہیں؟
اور ریاستی ادارے کہاں ہیں جو ان کے خلاف کارروائی نہیں کر پا رہے؟”
سوات کے لوگ پہلے بھی قربانیاں دے چکے ہیں۔انہوں نے امن کے لیے اپنے پیاروں کو کھویا، اپنے گھر بار چھوڑے، اور پھر بڑی مشکل سے معمول کی زندگی حاصل کی۔
اب اگر وہی دہشتگردی دوبارہ واپس آرہی ہے، تو یہ نہ صرف ریاستی ناکامی ہے بلکہ عوامی صبر کا امتحان بھی۔
آزاد کشمیر میں جب ظلم، کرپشن اور ناانصافی اپنی انتہا کو پہنچی، تو عوام نے احتجاج کے ذریعے اپنا حق چھین لیا۔پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (JAAC) کی قیادت میں عوام سڑکوں پر نکلے۔
ان کے مطالبات سادہ مگر بنیادی تھے ۔آٹے پر سبسڈی، بجلی کے بلوں میں رعایت، اشرافیہ کے مراعات ختم کرنا، کرپشن کا خاتمہ، اور عوامی حقوق کی بحالی۔احتجاج نے شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی شکل اختیار کی۔حکومت نے دبانے کی کوشش کی، مگر عوام ڈٹ گئے۔
آخرکار، حکومت کو جھکنا پڑا — 90 فیصد مطالبات منظور کیے گئے۔یہ وہ لمحہ تھا جب ایک کمزور سمجھی جانے والی قوم نے اپنی طاقت پہچان لی۔کشمیر نے دنیا کو دکھا دیا کہ جب عوام متحد ہو جائیں، تو وہ تخت و تاج ہلا سکتے ہیں۔
اب سوات کب جاگے گا؟
سوات اور کشمیر: دونوں وادیاں، دونوں حسین، دونوں تاریخی — مگر دونوں کی قسمتوں میں فرق صرف ایک ہے:
کشمیر کے عوام جاگ چکے ہیں، سوات کے عوام ابھی خاموش ہیں۔
اگر سوات کے عوام اب بھی بیدار نہ ہوئے،تو وہ وقت دور نہیں جب خاموشی بھی ایک جرم سمجھی جائے گی۔“عوام کی خاموشی ظالم کی طاقت بن جاتی ہے۔”وقت کا تقاضا ہے کہ سوات کے لوگ اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں،
کیونکہ تاریخ ہمیشہ اُنہی کو یاد رکھتی ہے جو اپنے حق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں —
نہ کہ اُنہیں جو ظلم سہتے رہے اور خاموش رہے۔
سوات اور کشمیر کا تقابلی منظر













