ساجد ابوتلتان
جانچ پرکھ ہی شخصیت جاننے کا بہترین فارمولا ہے۔ خود ساختہ تجزیے اور اٹکل اندازے اس میدان میں کار آمد ثابت نہیں ہوتے۔ تحقیق کیے بغیر شخصی خاکہ کھینچنا خود کو تختۂ مشق بنانے کے برابر ہے۔ اس کے لیے کسی شخص کے ساتھ طویل رفاقت اور لمبا عرصہ گزارنا پڑتا ہے۔ اوپر سے شخصیت نگاری وقت اور مہارت دونوں کا تقاضا کرتی ہے، جس کے بغیر لکھنے والا مداح یا مدح سرا اور شخص مخصوص ممدوح بن جاتا ہے۔ مگر ان تمام باتوں کے باوجود راقم نے کرنل (ر) عبدالغفار خان کا خاکہ کھینچنے کا قصد کر ہی لیا ہے۔
قارئین، پہلی بار موصوف کا دیدار 1988ء کے انتخابات میں نصیب ہوا، جب آپ فوج میں ’’حاضرِ سروس‘‘ میجر تھے۔ اُس وقت راقم کم سِن تھا۔ شائد اس لیے اُن کے خد و خال اور اُن کے چلنے پھرنے، اُٹھنے بیٹھنے کا انداز یاد کرنا مشکل ہے۔ بعد میں اُن کو کبھی کبھار انتخابات اور اجتماعات میں جلوہ نما ہوتے دیکھا، تاوقت یہ کہ 2014ء کو خواہ خیلہ میں سوات ریڈیو کے زیرِ سایہ تعلیمی اداروں کے لیے بزم ادب کا پروگرام منعقد ہوا اور اُس میں اُن سے باضابطہ طور پر ملاقات ہوئی۔ موصوف ’’بَرسوات ماڈل سکول‘‘ کی نمائندگی اور پروگرام کے مہمان خصوصی کے فرائض انجام دے رہے تھے، جب کہ راقم ابدالی سکول اینڈ کالج مٹہ کے نمائندہ تھے۔ چائے کے بیس پچیس منٹ کے وقفے میں اُن کے ساتھ ایک بیٹھک ہوئی۔ بھاری بھرکم جسم، خوشنما داڑھی، پُرجلال آنکھیں، بھاری آواز، پُرنور چہرہ اور کمر میں ہلکا سا جھکاؤ اُن کی وجاہت کا ثبوت تھا۔ اس طرح اُٹھنے بیٹھنے میں تکلیف محسوس کرنا اُڈھیڑ عمر سے بزرگی میں داخل ہونے کی نشانی تھا۔ راقم اکثر شخصیات کا انٹرویو لیتا رہتا ہے، جن میں اکثر ڈپلومیسی سے کام لے کر حقائق چھپانے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ یہاں موصوف کی ہر بات ڈنکے کی چوٹ پر تھی۔ لہٰذا وہ تصویر جو ایک غصیلے اور تند و تیز مزاج والی شخصیت کی راقم کے ذہن کی سطح پر بنی تھی، آہستہ آہستہ دھلتی گئی۔ اُن کی راست گوئی اور کھرے پن نے حیرت کے ساتھ ساتھ رشک میں بھی مبتلا کیا۔ اس لیے تو یہ ملاقات ہر لمحہ دل میں خواہش پیدا کرتی تھی کہ اُن سے ایک طویل نشست ہو ہی جائے۔ پس 2 اگست 2017ء کو ایک اور ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ پہلی فرصت میں کچھ آرا لینے کی خواہش ظاہر کی اور آپ بلا تکلف راضی ہوئے۔
قارئین ! آپ کو اپنے بچپن اور جوانی کے اکثر واقعات، حادثات اور کھیل کود کا زمانہ یاد ہے۔ بچپن میں انگلی کا کٹ جانا، جوانی میں گھوڑے سے گر کر زخمی ہونا، یہاں تک کہ اپنے خاندان کا ریاست اور والیِ سوات کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور اُس کا ہر پہلو زبان یاد ہے۔ برہ درشخیلہ اور آس پاس علاقوں کے اکثر افراد کے تعاون کو سراہا۔ اس دوران میں آپ کے منھ سے ایک بھی جملہ ایسا ادا نہ ہوا جس میں خاندانی تفاخر کی طرف اشارہ تک موجود ہو، نہ خاندانی برتری ثابت کی اور نہ کسی شخص کی تذلیل ہی کی۔ بلکہ اپنے خاندان کے مقابلے میں بادشاہِ وقت کی طاقت اور حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے بڑوں کی بارہ سالہ جلا وطنی کی تکلیفوں کو بھی آزادانہ طور پر بیان کیا۔ حقیقت پسندی کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف ملیزوں (دیر) میں اپنی مصائب کا ذکر کیا بلکہ جلاوطنی سے واپسی کے بعد اپنے ڈلہ (پارٹی) پر ریاست کی طرف سے ڈھائے گئے مظالم بھی بغیر کسی لگی لپٹی کے بیان کیے۔ حقیقتاً سیاسی اختلافی مؤقف رکھنے کی وجہ سے آپ کا خاندان کئی بار جلاوطنی پر مجبور ہوچکا ہے، لیکن بہ قولِ موصوف: ’’ہمارے والد صاحب ہر معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹاتے تھے۔ کیوں کہ اُنہیں ہر بار بچوں کی تعلیمی سفر کی فکر لاحق رہتی تھی۔‘‘ اس ضمن میں موصوف ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ایک بار باچا صاحب کے غیض و غضب کی وجہ سے بے دخلی عین ممکن تھی۔ ہمارے والد صاحب نے اپنے بڑے بیٹے ڈاکٹر عبدالغفور خان کے ہاں کہلا بھیجا کہ وہ سوات نہ آئیں، تاکہ تعلیمی سلسلہ منقطع نہ ہو۔‘‘ اس واقعہ کو جاننے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے والد محترم محمد رسول خان المعروف بیدرے خان صرف تعلیم پسند ہی نہیں تھے بلکہ پورے خاندان میں تعلیم کا بیج بھی انہوں نے بویا تھا۔ اب کرنل عبدالغفار خان بھی اپنے والد کی طرح تعلیم کو ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنوں کو تعلیم کی بدولت اعلیٰ عہدوں پر براجمان دیکھنا چاہتے ہیں۔
آپ بچپن میں عام لڑکوں کی طرح دریا کے یخ پانی میں نہاتے تھے، اس وقت کے رائج مختلف کھیل کھیلتے تھے اور شکار کو مفید اور اہم مشغلہ بناتے تھے۔ آپ اپنے چچا ’’محمد افضل خان لالا (مرحوم)‘‘ سے زیادہ متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ آپ بریگیڈئیر (ر) محمد سلیم خان اور صلاح الدین خان کی رفاقت پسند کرتے ہیں۔ سوات کی طرف سے فوج کے اولین آفیسروں میں شمار ہوتے ہیں۔ فوج ہی میں کرنل کے عہدے تک ترقی پائی اور سبکدوش ہوئے۔ بعد میں کچھ عرصہ نیشنل ہائی وے سے بھی منسلک رہے۔ جب محمد افضل خان لالا (مرحوم) نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا، تو آپ نے اُنہی کی پارٹی کے ٹکٹ پر 2002ء میں الیکشن لڑا، لیکن ایم ایم اے کی ہوا چلنے کی وجہ سے آپ کو کامیابی نہ ملی، جس کے بعد آپ سیاست سے کنارہ کش ہوگئے اور ہونا بھی چاہیے تھا۔ کیوں کہ سیاست موقع شناسی کا کھیل ہے، جس میں ابن الوقت ہی کھیل سکتے ہیں۔ آپ کی طرح راست گو انسان کو سیاست راس نہیں آتی۔ شاید خاندانی دستور کے مطابق بڑے ہونے کی وجہ سے یہ دستار آپ کے سر پر سجا تھا، ورنہ آپ کے کھرے پن کی وجہ سے سیاست آپ کو سوٹ نہیں کرتی تھی۔
چوں کہ تعلیم کا شوق آپ کی گھٹی میں شامل تھا۔ اس لیے بچوں کی بہتر اور معیاری تعلیم کی خاطر ’’بَرسوات ماڈل سکول‘‘ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ کھولا، جو ابتدا میں بڑی تیزی سے ترقی کی طرف گامزن تھا، لیکن بعد میں آپ کو اپنی بیماریوں، مصروفیات اور ادارے کے سخت مراحل سے دِق ہوکر یہ ادارہ چھوڑنا پڑا۔ آج کل آپ جائیداد اور گھر بار کی نگرانی کررہے ہیں۔ لوگوں کی خوشی و غمی میں شریک ہوتے ہیں۔ اجتماعات میں جاتے ہیں۔ فیس بک استعمال کرتے ہیں اور کبھی کبھار سیر سپاٹے کے لیے باہر بھی جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل (ر) عبدالغفار خان
