انجینئر نوید خان
ویسے تو اس حکومت کا ہر نیا دن ایک نئے بحران کو جنم دیتا ہے، لیکن چند دن پہلے ایک قادیانی ماہر معیشت عاطف میاں کو اکنامک ایڈوائزری کاؤنسل میں شامل کرنے کے عمل نے تو جیسے سب کچھ پیچھے چھوڑ دیا۔ پاکستانی قوم کا تو ویسے ہر ایک معاملے پر رائے دینے کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا لیکن اس بحث نے تو پورے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ معیشت کا مذہب سے تعلق نہیں جب کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ’’مذہب پہلے (خاص کر قادیانیوں کے حوالے سے) اور باقی سب بعد میں۔
عام طور پر میں لبرل خیالات کا حامل شخص ہوں اور ہر انسان کو جتنے حقوق حاصل ہیں، جس میں پسند کا مذہب بھی شامل ہے، کا بھرپور دفاع کرتا ہوں، لیکن ختمِ نبوتؐ ایسا معاملہ ہے کہ اس پر کسی بھی صورت سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ پچھلے چند دنوں سے دوستوں کے ساتھ اس معاملے پر زبردست بحث و مباحثہ چلا۔ ایک دوست نے کہا کہ ہم اپنے ملک میں اقلیتوں کو حقوق نہیں دیتے، جب کہ پوری دنیا میں ان کی پارلیمنٹس میں مسلمانوں کی کامیابی کو سیلبریٹ کرتے ہیں، تو میں نے اسے جواب دیا کہ بات ایسی بھی نہیں کہ یہاں پر اقلیتیں پارلیمینٹ کا حصہ نہیں۔ آج بھی پورے ملک سے 37 غیر مسلم پارلیمینٹ کا حصہ ہیں۔ اس سال کرشنا کماری جب سینیٹر اور اب منیش کمار ملانی جب ایک لاکھ سے زائد ووٹ لے کر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے، تو اسے بھی پوری دنیا کے غیر مسلموں نے سراہا۔ پاکستان اقلیتوں کو ان کے بھر پور حقوق دے رہا ہے، لیکن احمدی گروہ سے تعلق رکھنے والوں کا کیس بالکل مختلف ہے ۔
1974ء میں جب احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا، تو یہ راتوں رات کیا جانے والا فیصلہ نہیں تھا، بلکہ ایک لمبے مباحثے کے بعد پارلیمنٹ جس میں اکثریت سیکولر لوگوں کی تھی اور جہاں پر قادیانی خلیفہ مرزا ناصر کو بھرپور دفاع کا حق دیا گیا تھا، نے احمدیوں کو خارج از اسلام قرار دیا تھا۔ میں اپنے ٹویٹر دوست افتخار نوید کی وساطت سے آپ کو 1074ء کے حالات اور اس وقت پارلیمنٹ کی کارروائی کی روداد بتانا چاہتا ہوں، جس کے بعد آپ خود فیصلہ کریں کہ احمدیوں کے ساتھ یہ موجودہ رویہ ٹھیک ہے کہ نہیں؟
قادیانیوں کا اثر و نفوذ 1974ء تک بہت بڑھ چکا تھا۔ ہر اہم ادارے بشمول فوج، کلیدی اسامیوں پر قادیانی براجمان تھے۔ قادیانیوں نے زیادہ کام پنجاب میں دیہی علاقے میں کیا۔ جگہ جگہ انہوں نے اپنی ’’مساجد‘‘ قائم کر رکھی تھیں۔ دھونس، دھاندلی، لالچ اور جبر کے ہتھکنڈے استعمال کرکے روزانہ سیکڑوں لوگوں کو قادیانیت میں داخل کیا جا رہا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پنجاب کے علاوہ دیگر تین صوبوں کے لوگوں نے قادیانیوں کو منھ نہیں لگایا۔ البتہ پنجاب میں یہ خوب پھلے پھولے۔ 1974ء تک ان کی جرأت اتنی بڑھ چکی تھی کہ قادیانیوں نے مسلمانوں پر کھلے عام حملے شروع کر دیے۔ فیصل آباد کے طلبہ مئ 1974ء میں ٹرین میں جا رہے تھے جن پر ربوہ سٹیشن پر قادیانی نوجوانوں نے حملہ کر دیا اور بدترین تشدد کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی طلبہ کو شدید زخمی کر دیا۔ اس واقعے کے بعد ملک بھر میں قادیانیوں کے خلاف مظاہرے اور ہنگامے پھوٹ پڑے۔ آئے روز ہڑتالیں شروع ہوئیں۔ عوامی دباؤ اس قدر بڑھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے قادیانی ایشو قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔
قومی اسمبلی میں قادیانیوں پر مباحثہ 21 روز تک چلا۔ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر احمد کو بھی مؤقف پیش کرنے کی دعوت دی گئی اور 21 میں سے 13 روز تک انہیں وضاحت کے لیے دیے گئے۔ مسلمان لیڈروں میں سے مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی نے دلائل پیش کیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس وقت کی قومی اسمبلی مولویوں یا علما ہی پر مشتمل نہ تھی بلکہ زیادہ تر لوگ وکیل، بزنس مین، ٹیکنوکریٹس اور سیاست دان تھے۔ اکثریت سیکولر مزاج ارکان تھے۔ حکومت کی جانب سے سوال کرنے والے اٹارنی جنرل یحی بختیار تھے، جنہوں نے مرزا ناصر احمد سے سوالات کیے۔ قادیانیوں سے مکالمہ کی یہ تفصیل ویب سائٹ "Daleel.pk” کے پیج پرجناب آصف محمود نے قلمبند کی ہے۔ انہوں نے بڑا خوبصورت جملہ لکھا جس کی میں بھی تائید کرتا ہوں کہ ’’اس گفتگو کا خلاصہ نقل کفر، کفر نہ باشد‘‘ کے طور پر لکھ رہا ہوں۔ یہی الفاظ میری جانب سے بھی سمجھ لیں۔مکالمہ کی یہ کارروائی خفیہ قرار دی گئی۔
(جاری ہے)
جدا ہو دیں سیاست سے، تو بن جاتی ہے چنگیزی
