ڈاکٹر عبیداللہ
سنا تھا کچکول توڑ دیا جائے گا، سنا تھا پہلے دن چوروں اور لٹیروں سے ملک کا لوٹا ہوا دو سو ارب واپس لیا جائے گا، جس میں سو ارب آئی ایم ایف کے منھ پر مارا جائے گا اور سو ارب قوم پر خرچ کیا جائے گا، سنا تھا کہ خان صاحب کے حلف لینے کے دوسرے دن تمام کرپٹ لوگوں کی فائلیں منگوا کر ان کو لٹکانے کا حکم دیا جائے گا، سنا تھا کہ کوئی ٹیکس نہیں لگے گا، سنا تھا کہ ایک مہینے کے اندر تمام گریجویٹس کو روزگار دیا جائے گا اور یہ بھی سنا تھا کہ ’’بجلی زمونگ، مرضی زمونگ‘‘ ( یعنی بجلی ہماری، مرضی بھی ہماری)
لیکن کشکول ٹوٹا نہیں، بلکہ اسے مزید مضبوط کرنے کے لیے مزید تہیں لگائی گئیں۔ چوروں اور لٹیروں کے ساتھ مفاہمت کرکے حکومت میں شامل کیا گیا۔ فائلیں منگوانے اور کُھلوانے کی بجائے شاید انہیں جلایا گیا۔ بجلی ٹیلی فون کے بلوں میں تو ٹیکس شامل بھی ہوگیا اور اس کے علاوہ استعمال کی سیکڑوں اشیا پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ روزگار دینا کیا ریٹائرڈ ملازمین سے بڑھاپے میں پنشن ختم کرنے کی صورت میں نوالہ اور دوائی چھیننے تک کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ نئے پاکستان میں ترقیاتی فنڈز کو کم کردیا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا جس کو نیا بنانے کا عمل مکمل ہوچکا ہے، کے ہسپتالوں میں زندگی بچانے والی ادویہ ناپید، ایمرجنسی اور تشخیصی آلات میسر نہیں۔ عوام کو سہولت، صحت، تعلیم اور روزگار دینے کے نعرے کے تحت عوام سے ووٹ لینے والی حکومت آج تک عوام کی حالت بہتر بنانے کے لیے کوئی ایک بھی فیصلہ نہیں کرسکی۔ سرکاری دفاتر میں بیٹھے عوامی خدمت کے نام پر تنخواہ لینے والوں کی کارکردگی میں کوئی ’’تبدیلی‘‘ نظر نہیں آرہی۔ برائے نام بجلی کے نرخ میں فی یونٹ اضافہ اور گیس کے جلتے چولہے کو بجھا دیاگیا ہے۔
مدینے کی ریاست میں پاکستانی محکمہ نشرواشاعت نے فلم، ڈرامہ اور تفریح و تماشے کو ترجیحِ اول رکھ دیا ہے۔ اور سادگی کا نعرہ تو ہیلی کاپٹر فی کلومیٹر پچاس روپے میں پورا کر دیا گیا ہے۔
قارئین، یہ پوری کہانی دراصل ایک دکھ بھری داستان ہے۔ ایک دو دہائیوں سے عالمی طاقتوں، ملکی اداروں، ملکی و بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے کافی زور و شور کے ساتھ نئے پاکستان کا شوشہ چھوڑا گیا اور پاکستان کے عوام نے بغیر سوچے سمجھے مل کر تبدیلی کے خوش کن نعرے کی حمایت کی۔ انہیں سبز باغ دکھائے گئے، نعرے، وعدے اور دعوے کیے گئے، جس کے پیچھے ذاتی اور اجتماعی کارکردگی کا کوئی عملی نمونہ موجود نہیں تھا۔ نعرے، وعدے اور دعوے سنے گئے اور بنا سوچے سمجھے قبول بھی کیے گئے، بے جا اور بے تحاشا توقعات باندھی گئیں اور منزل اس وقت سراب ثابت ہوئی جب پانی سر سے گزر چکا۔ محسوس یہی ہو رہاہے کہ شاید معاملات ان کے اختیار میں اب نہیں رہے، ہماری گزارش تو بس یہی ہے کہ ترقی، عوامی سہولت اور آسان زندگی اور نیا پاکستان آپ کو مبارک ہو، مگر ہمارے اسلامی نظریاتی پاکستان کی پہچان کو خدارا! نہ مٹانا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو مایوسی اور اندھیروں میں دھکیلا جا رہا ہے، اے اللہ تو اس ملک کا حامی وناصر ہو، آمین!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔