فضل مولا زاہد

حرفِ مدعا بیان کرنے سے پہلے 14 جون 2020ء کی اُس بابرکت محفل کا ذکر ضروری ہے، جو اپنے سوات کی خوبصورت وادی کوکارئی میں منعقد ہوئی، جس کے تین واضح مقاصد تھے۔ اول، زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمتِ خلق میں مصروف کامیاب افراد کی خدمات و تجربات کا نچوڑ عام لوگوں کے سامنے لایا جائے، تاکہ سماج کے ان معماروں کی سرگرمیوں سے متعلق معاشرے میں عمومی آگاہی پیدا ہو۔ دوم، نوجوان طبقہ میں احساس پیدا کیا جائے کہ وہ اِن تجربات کو مشعلِ راہ بناکراُن کے قدم سے قدم ملا کر چلنے کے گُر سیکھیں۔ سوم، لیکن سب سے اہم یہ کہ اُن شخصیات کو خراجِ عقیدت پیش کیا جائے، جو ہر قسم کی تکلیف سے ماورا بڑی بے نیاز ی اور خاموشی کے ساتھ فلاح و بہبود کے کام میں ایسے منہمک ہیں، گویا وہ اس کام ہی کے لیے پیدا ہوئے ہوں، اور دُنیا و مافیہاکی رنگینیاں اُن کے لیے ہیچ ہوں۔ اگرچہ وہ شہرت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں نہ نام و نمود کی، تاہم ایسا کرنے سے شائد اُن کی کچھ حوصلہ مندی اور دلجوئی ہو۔ ابتدائی طور پر چار ایسی شخصیات کو دل کی بات کہنے پر قائل کیا گیا تھا جو اسی دشتِ کارزار میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں اور اُن کا سفر اب بھی اُسی انداز میں جاری ہے۔ وہ کیسے اور کیوں کر اس میدان میں کودے، کن مصائب ومشکلات سے گذرے، کیا قربانیاں دیں اور کس قدر تسکین حاصل کرتے ہوئے آگے بھی بڑھتے رہے؟
مذکورہ نشست کا انتظام ”خپل کلی وال کارواں“ کے پلیٹ فارم سے کیا گیا تھا۔ خصوصی مہمانوں میں ”خپل کور فاؤنڈیشن“کے نگران حاجی محمد علی صاحب بیماری کی وجہ سے پروگرام میں شرکت نہ کرسکے، جب کہ ”پرورش“ کے منتظم محمد نعیم اللہ صاحب، ”مہر فاؤنڈیشن“ کے روحِ رواں محمد عالم خان صاحب اور ممتازصحافی، مصنف اور پبلشر جناب فضل ربی راہیؔ صاحب نے نشست کو رونق بخشی۔ دیگر حاضرینِ محفل میں تنظیم کے مشاورتی کونسل کے ارکان کے علاوہ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے، اساتذہ کرام، کاروباری شخصیات، کاشتکار، طلبہ اور علاقے کی چیدہ چیدہ شخصیات شریک ہوئیں۔ مہمانانِ گرامی نے بڑے دلچسپ، عام فہم اور فی البدیہہ اپنے دُکھی دل کی داستانیں سنا کر میرؔ جی کی طرح حاضرین کا خون گرمایا۔
روتی ہے شمع اتنا ہر شب کہ کچھ نہ پوچھو
میں سوزِ دل کو اپنے مجلس میں کیوں کہا تھا
یہ سرگذشت میری افسانہ جو ہوئی ہے
مذکور اِس کااُس کے کوچے میں جا بجا تھا
سننے والے اُن کی زندگی کے نشیب وفراز کی کہانیاں سن کر جس قدرمتاثر ہوئے، اِس کا اندازہ الفاظ سے نہیں اُن کے چہروں کے بدلتے رنگوں سے لگایا جا سکتا تھا۔ اُن کے کام کو جس انداز سے سراہا گیا، اُس سے بڑی تشفی ملی کہ معاشرے میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کی باتوں میں بڑی مٹھاس ہے، رشد و ہدایت ہے اور اُن میں اتنا جادوئی اثر بھی ہے جو عام لوگوں کواپنے حلقہئ اثر میں لے کر اُن کی سوچوں کے دھارے تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ پروگرام کے نتیجے میں طے یہ ہواکہ ایسی محفلیں تسلسل کے ساتھ جاری رکھیں گے، تاکہ سماجی ناہم واری، قدرتی آفات اور بدترین وبائی بیماریوں کے پھیلاؤ کے اس پُرآشوب دورمیں لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے ازخود کمر بستہ ہو جائیں اورحکومتوں پر تکیہ کرنے کی روِش ترک کی جائے، ورنہ یہ زندگی اجیرن ہوجائے گی۔
ازاں بعد دوسرے تیسرے دن اپنے کارواں کے دوستوں کے اجلاس میں ہم نے برخوردار اختر علی خان، جو خود بھی اسی دشت کا سیاحِ پیادہ ہے،کو اگلے پروگرام میں گاؤں شین فتح پور کے آزادے بابا کو دعوت دینے کی فرمائش کی۔ حیرت ہوئی کہ وہ اُن کے نام سے ناواقف تھے۔ سوچا کہ ایک ایسا فرد جو اپنے علاقے کی دوردراز بستیوں اور بانڈہ جات میں آٹھ عددسکول قائم کر چکا ہے، جہاں لگ بھگ ہزار بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ کتابیں، یونیفارم اور ضروریات کی دوسری چیزیں آزادے بابا کے دم قدم سے مہیا ہوتی ہیں اور جو علاقے کے غریبوں کے لیے ایک عرصے سے فری ڈسپنسری چلا رہے ہیں، جہاں کوالی فائیڈ ڈاکٹر اور معاون سٹاف کی سہولت کے ساتھ مفت ادویہ تک دستیاب ہوتی ہیں، لیکن اِن منصوبوں کے پس پردہ شخصیت کو لوگ جانتے تک نہیں اور وہ بذاتِ خودکسی شہرت کا طالب ہے نہ نام و نمود کا۔ سو ہم نے فیصلہ کیا کہ بہت جلد ایک خصوصی نشست منعقد کریں گے جس میں اُن کو ”اپنی کہانی، اپنی زبانی“ سنانے کے لیے مائل کیا جائے گا، لیکن انسان کی اپنی مرضی قدرت کا اپنا مزاج۔
16 جون کو فیصلہ ہوا کہ بہت جلد اُن کی شان میں ایک محفل کا اہتمام کریں گے اور17 جون کو ایک بجے دوپہر اختر علی خان کے موبائل فون پرپیغام آیا کہ آزادے بابا دنیا سے کوچ کر گئے۔ دِل کو بڑا دھچکا لگا۔ زندگی کی یہ ڈوری کتنی کچی،سستی اور کتنی بے وقعت اور عارضی ہے۔ یہ سوچ کرکہ ایک ایسی ہستی، جن کی بے لوث خدمات کی وجہ سے علاقے کی سماجی زندگی میں مثبت تبدیلی آتی رہی، وہاں علم کا نور پھیل رہا تھا اور جن کی وجہ سے معاشرے کے دھتکارے ہوئے کئی لوگ فکرِ معاش سے آزاد تھے، ہم اُن کو جیتے جی محض شاباش تک دینے کے روادار نہ ہوئے، اور اُن کو ایسی خاموشی کے ساتھ لحد میں اُتار دیا گیا، جیسے کچھ ہو ا ہی نہیں۔ ہم کتنے بے حس و بے پروا اور غافل ہیں۔
بہرحال اُن کے اچانک انتقال نے ہمیں ایک سبق ضرور سکھایا اور وہ یہ کہ خدا کے کسی اچھے بندے کی خدمات کا اعتراف کرنا ہو، تو اُ س کے جیتے جی کیا جائے۔ کسی کے مرنے کے بعد فضول کا رونا دھونا اور کاغذوں کے سیاہ کرنے کا عمل بند کیا جائے۔ سو، اسی تناظر میں ”خپل کلی وال کارواں“ کے مشاورتی کونسل نے فیصلہ کیا کہ اپنے سوات کے اُن تمام ہیروز کا جو کسی نام و نمود اور دُنیاوی لالچ کے بغیر فلاحِ انسانیت کے کاموں میں بڑی خاموشی کے ساتھ اپناکردار ادا کر رہے ہیں، اُن کی کہانیوں پر مشتمل ایک ایسی کتاب لکھی جائے، جس میں اُن کی معاشرتی خدمات کا اعتراف ہو، اُس سے لوگ سبق بھی سیکھیں اور وہ تاریخ میں ایک حوالے کے طور پر بھی یاد رہے۔ اِس سلسلے کی پہلی کاؤش ”آزادے بابا“ کے نام سے منسوب ہوگی، اِن شاء اللہ!
کام تو ہے بڑا نازک کہ ہر کسی ایسی شخصیت کی پہچان بھی مشکل ہے اور تمام متعلقہ لوگوں تک پہنچنا اور اُن کے کام کو سامنے لانابھی ایک چیلنج ہے، لیکن ہم نیک نیتی سے شروعات کر رہے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ مستقبل میں اس کام کوآگے بڑھانے کے لیے کئی ذمہ دار لوگ سامنے آئیں گے، جو اِس خلا کو پُر کریں گے۔ اللہ تعالی توفیق دے، تو یہ ایک سلسلہ ہوگا جو رواں دواں رہے گا اور پوری وادی کی زندہ جاوید شخصیات کے کام کو تاریخ کے اوراق کے سپرد کیا جائے گا۔
حرفِ مدعا یہ ہے کہ ایسی کئی شخصیات کے پاس تو ہم خود جا کر اُن کو اپنی کہانیاں بیان کرنے پر مائل کرنے کی کوشش کریں گے، تاہم اِس میدان میں مصروف خواتین و حضرات اگر اپنی کہانی لکھ کر ہمیں بھیجیں، تو ہمارے کام میں بڑی آسانی پیدا ہوگی۔ علاوہ ازیں ایسے لوگوں کے بارے میں کوئی بھی نیک نیتی کے ساتھ لکھ کر ہمیں ای میل کرے، تو یہ بھی ایک خدمت تصور ہوگی۔ تفصیل میں اُن شخصیات کی ابتدائی زندگی کے خد و خال بیان کیے گئے ہوں، کچھ علاقائی پس منظر کی بات ہو، کچھ ذکر اُس شعبے کا ہو جس سے وہ وابستہ ہوں اور اُس سے معاشرہ کے کسی طبقے کو فوائد پہنچ رہے ہوں۔ ایک ایڈیٹوریل بورڈ ہر کہانی کے سماجی و معاشرتی اثرات کی گہرائی کا جائزہ لے کر اشاعت کا فیصلہ کرے گا اورمقرر کردہ معیار پر پورا نہ اترنے والی کہانی کے شائع نہ ہونے پر معذرت کرے گا۔
جاتے جاتے ڈاکٹر نگہت افتخار صاحبہ کا فرمان یاد دلاؤں کہ
جانے کس وقت کوچ کرنا ہو
اپنا سامان مختصر رکھیے
بات ہے کیا یہ کون پرکھے گا
آپ لہجے کو پُراثر رکھی