خشک میوہ جات کے خاندان میں اخروٹ کی اہمیت کو کسی طرح سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ غذائی اعتبار سے یہ ایک بھر پور غذا ہے جس کے اندر قدرتی ذخائر وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ زیتون کے بعد اخروٹ کے درخت کو سب سے قدیم درخت کہا جاتا ہے۔ اس کے استعمال کی ابتدائی تاریخ سات ہزار قبل مسیح بتائی جاتی ہے۔ ابتدا میں اخروٹ رومیوں کے شاہی خاندان کے لیے مخصوص سمجھا جاتا تھا۔ چوتھی صدی عیسوی میں قدیم رومیوں نے اسے کئی یورپی ممالک میں متعارف کرایا۔ اخروٹ کے دو فلیور دنیا میں سب سے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ فارسی یا انگریزی اخروٹ فارس میں شروع ہوا اور سیاہ اخروٹ شمالی امریکا سے آیا۔ سیاہ اخروٹ ذائقہ میں سب سے زیادہ اعلیٰ اور معیاری سمجھا جاتا ہے۔ اس کا خول زیادہ سخت ہوتا ہے اور اس کی پیداوار زیادہ نہیں کی ہوتی۔ اس کی پوری دنیا میں بیس اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سیاہ اور سفید اخروٹ سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اخروٹ درخت پچاس فٹ تک اونچا ہو سکتا ہے۔ اس کے پھل کا بیرونی حصہ خاصا موٹا اور ریشہ والا ہوتا ہے اور اس کے سخت ٹھوس خول کو اگر توڑا جائے تا اندر گری آڑی ترچھی صورت میں رکھی ہوتی ہے۔ اخروٹ کے درخت پاکستان، ہندوستان اور افغانستان کے بعض پہاڑوں پر کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ دسمبر سے مارچ تک نئے پتے اور گچھے لگتے ہیں اور جولائی میں پھل لگنا شروع ہو کر اکتوبر تک پک جاتے ہیں۔ اخروٹ اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کے حصول کا انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ سو گرام اخروٹ میں 691 کیلوریز پائی جاتی ہیں اومیگا فیٹی ایسڈ دمہ، جوڑوں کی سوزش، درد ایگزیما اور چنبل جیسی بیماریوں سے حفاظت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اخروٹ میں ارجینین نامی ایسڈ دل کی صحت کے لیے نہایت فائدہ مند ہوتا ہے۔ اخروٹ کی تازہ گری اور اس گری سے نکلنے والے تیل کے استعمال سے دوران خون بہتر ہوتا ہے اور کیونکہ اس میں پوٹاشیم کی مقدار بھی کافی حد تک پائی جاتی ہے اسی لیے دل کی صحت کے لیے بھی اخروٹ کا استعمال مفید ثابت ہوتا ہے۔ سو گرام اخروٹ میں پروٹین 15.2 گرام، چربی 65.2 گرام اور غذائی ریشہ 6.7 گرام پایا جاتا ہے۔ اخروٹ پروٹین کے علاوہ نہایت اہم امینو ایسڈ بھی جسم کو فراہم کرتا ہے۔ اخروٹ کے تیل کو اگر سبزیوں اور سلاد میں استعمال کریں تو پیٹ کی ممکنہ بیماریاں جیسے بدہضمی، مروڑ، بھاری پن وغیرہ کو دور کرتا ہے۔ پیٹ میں اگر کیڑے ہوں تو اس کا استعمال ان کو ختم کرتا ہے۔ اخروٹ کی خشک گری کو توانائی کا خزانہ کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی کسی لمبی بیماری سے شفا یاب ہوا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ روزانہ ایک یا دو اخروٹ کھائے اس سے کمزوری دور ہو گی اور جسم کو طاقت اور توانائی ملے گی۔ جن علاقوں میں اخروٹ کی پیداوار سب سے زیادہ ہوتی ہے وہاں کے لوگ اخروٹ کی چھال کو دانتوں کی صفائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ دانتوں سے خون کے اخراج کو روکتا ہے اور اس کی چھال دانتوں پر رگڑنے سے مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں اور مسوڑھوں کی سوزش بھی دور ہوتی ہے۔ جوڑوں اور پٹھوں کے درد میں مبتلا افراد اگر اخروٹ کے چھلکے کو پانی میں ڈال کر اس سے غسل کریں تو ان کی تکلیف میں حیرت انگیز طور پر کمی آئے گی۔ اخروٹ کے درخت کی پتیاں گھروں میں رکھیں تو کیڑے مکوڑے نہیں آتے اگر گھر میں کوئی پالتو جانور ہے تو اس کی کھال پر اس کے پتے رگڑنے سے مکھیاں اور مچھر وغیرہ اس کے قریب نہیں آتے۔ دودھ پلانے والی مائیں اس کا استعمال زیادہ نہ کریں کیونکہ اس کی زیادتی سے دودھ میں کمی پیدا ہو سکتی ہے۔ اخروٹ میں وٹامن بی ون، ٹو اور تھری کے علاوہ وٹامن ای بھی اچھی خاصی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ یہ خارش سے بچاتا ہے اس کے لیے دن میں دو چمچ اخروٹ کا تیل پینے سے اس مرض میں کمی ہوتی ہے۔ اخروٹ کا گاہے بگاہے استعمال پروسٹیٹ کینسر، دل کی بیماریاں، ذیابیطس سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ ، مردوں کی تولیدی صحت کے لیے مفید ہے۔ یہخون میں اضافہ اور وزن میں کمی کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ بالوں کی افزائش اور ان کی مضبوطی کے لیے اخروٹ کے تیل کو اگر زیتون کے تیل کے ساتھ ہفتے میں دوبار استعمال کریں تو اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوں گے