روح الامین نایابؔ
وزیرِاعظم8 عمران خان نے صاف اور سرسبز پاکستان مہم کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں تقریباً 40 ہزار بچے گندگی سے مرتے ہیں۔ اس اہم مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ ہم امیر لوگ اپنے گھروں کو تو صاف کرلیتے ہیں، لیکن ملک کے بارے میں نہیں سوچتے۔ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پورے ملک کے عوام کو صفائی میں شامل کروانا ہے۔ اس حوالہ سے امیر، غریب، بچے، بوڑھے سب صفائی میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔
قارئین، عمران خان صاحب کی یہ سوچ اور اعلان لائقِ تحسین ہے اور مہم کا آغاز قابلِ قدر ہے، لیکن اس پر عمل کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ صفائی کی مہم چلانا صرف حکومت کا کام نہیں۔ اس کے لیے عوام کا باشعور ہونا ضروری ہے کہ ہر شہری اپنے اپنے مقام پر اپنے آپ کو صفائی کے لیے ذمہ دار سمجھے۔ صفائی کے طریقے اپنائے۔ نیز اپنے ماحول کو صاف رکھنے کے لیے ایک دوسرے کو احساس دلائیں۔ اس کے لیے ایک قدم آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
عمران خان صاحب کے اعلان کے بعدمیں یہ سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ اِن شاء اللہ اگلے دن یعنی 9 اکتوبر کو تحریک انصاف کے کارکن مختلف گاوؤں اور شہروں کی گلیوں میں نکلے ہوں گے۔ چھوٹی بڑی جھاڑوؤں کو ہاتھوں میں لے کر زور شور سے صفائی مہم چلا رہے ہوں گے۔ تبدیلی کا آغاز ہوچکا ہوگا۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران خود آگے بڑھ کر جھاڑو مار رہے ہوں گے۔ ایک شور برپا ہوگا۔ جذبے موجزن ہوں گے۔ کیوں کہ عمران خان صاحب کا ہر فرمان اُس کے کارکن حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔ اُس کے ہر حکم پر عمل کرنا گویا جزِ ایمان گردانتے ہیں اور بلا چوں و چرا فوراً حرکت میں آجاتے ہیں، لیکن اگلے دن تو کچھ بھی نہ ہوا، ہم اس انتظار میں ہی رہے کہ کب ’’انصافین‘‘ صفائی کے لیے نکلتے ہیں اور ہم دل و جان سے اُن کا ساتھ دیتے ہیں!
قارئین کرام! ہم ہر بات پر بلاوجہ اختلاف کے قائل نہیں۔ اچھی بات جو بھی کرے، ہم اُسے قابلِ ستائش سمجھتے ہیں۔ خواہ وہ ہمارا ذاتی یا نظریاتی مخالف کیوں نہ ہو، لیکن اس ملک میں صرف باتیں کرنے اور اعلانات کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ بازی وہ جیتے گا جو میدان میں اُتر کر عملی قدم اٹھائے گا۔ خالی شور شرابے اور اُچھل کود سے کوئی فائدہ نہیں۔ اس ملک کے بدقسمت عوام سنتے بہت آئے ہیں، اب کچھ دیکھنے کی تمنا کرتے ہیں اور خود بھی کچھ کرنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔
سوات جیسی جنت نظیر وادی کو گندگی سے جہنم بنایا گیا ہے۔ گندگی نے اس کا خوبصورت چہرہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ گلیوں میں، بازاروں، دکانوں، سکولوں اور اداروں کے سامنے گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف تعفن پھیلی ہوئی ہے۔ خوشبو کی بجائے بدبوکا راج ہے۔ دنگرام مینگورہ کا خوڑ (ندی) سوات کے دامن پر گویا ایک داغ بن کر دکھائی دے رہا ہے، جب کہ فضاگٹ پارک سے مینگورہ کی جانب وہ خوش نما دریائے سوات سے نکالا ہوا نہر اب ایک گندے نالے میں تبدیل ہوچکا ہے، جو ماحول میں گندگی پھیلانے اور بیماری کا باعث بنتا جارہا ہے۔ اور تو اور دریائے سوات کو بھی ہر قسم کی گندگی سے آلودہ کیا جا رہا ہے۔
قارئین کرام! صرف اعلانات سے کچھ نہیں ہوتا، ایک بھرپور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سوات کے عوام اپنے سوات کو صاف کرنے، اسے سرسبز بنانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ وہ ضرور صفائی مہم میں ساتھ دیں گے، مگر مقامی انتظامیہ اور حکومتِ وقت کے ذمہ داران پہل تو کریں۔ سب سے پہلے ہماری صحافی برادری ساتھ دے گی، بلکہ چند قابلِ قدر صحافیوں نے تو آغاز کر بھی دیا ہے۔ اس عمل کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ اسے عوامی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ آئیں، آج اپنے سوات کو خوبصورت، سر سبز بنانے کے لیے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر عمران کی مہم کا آغاز اپنے گلی کوچوں اور گھروں کی صفائی سے کریں۔
ہم سب کو پتا ہے کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے۔‘‘ پورا اگر نہ سہی، تو نصف ایمان تو کہیں گیا ہی نہیں۔
سرسبز پاکستان
