روح الامین نایابؔ
زمانۂ قدیم سے منگلور ایک تاریخی گاؤں چلا آ رہا ہے۔ ’’جبریہ حکمرانوں‘‘ کا مرکز رہا ہے۔ محمود غزنوی کا گزر یہاں سے ہوا۔ ما قبل ریاست پختو کا دور یہاں پلا پھولا۔ ریاستِ سوات کے زریں دورِ حکومت میں اس گاؤں کو اہم مقام حاصل رہا۔ غرض ہر دورِ حکمرانی میں یہ جرگوں اور معرکوں کا مسکن رہا، لیکن آج کل یہ گاؤں مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ یہاں ڈھیر ساری تنظیمیں بنیں، مفادِ عامہ کے نام پر جرگے بنے، پارٹیاں وجود میں آئیں، گروپ بنے، سرکاری ادارے وجود میں آئے، این جی اوز تشکیل پائیں، لیکن کسی بھی ادارے کو دوام نہ ملا۔ افسوس! کوئی مستقل قائم نہ رہا۔ آپس کے اختلافات، بے اتفاقی، خود غرضی، اقتدار کی لالچ اور کرسی کے حوس نے سب کچھ کا خاتمہ کر دیا۔ یہ سب لوگ آئے اور گئے لیکن مسائل جوں کے توں ہیں۔
منگلور ویسٹ 2 میں پینے کے پانی کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ چشموں میں پانی خشک ہوچکا ہے۔ پانی کی رسد کم ہو رہی ہے اور آبادی بڑھنے کی وجہ سے طلب بڑھ رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج کل صرف 10 سے 15 منٹ تک پانی آتا ہے، پانی کا پرانا ٹینک اب چھوٹا پڑ رہا ہے۔ نیز ٹینک کی چھت خراب ہے۔ پانی میں آلودگی کی ملاوٹ سے منگلور میں پیٹ کی بیماریاں بڑھ گئی ہیں۔ یرقان بیماری نے شدت اختیار کی ہوئی ہے۔ ہر دوسرا فرد اس میں مبتلا ہے۔ تمام پائپ زنگ آلود ہوگئے ہیں۔ پچاس فیصد سے زیادہ پانی ’’لیک ایج‘‘ کے ذریعے ضائع ہورہا ہے۔ سڑکوں اور گلی کوچوں میں بے دریغ پانی بہہ رہا ہے۔ ’’لیک ایج‘‘ کی وجہ سے پائپوں میں باہر سے گلی کوچوں کی گندگی شامل ہونے سے تمام پانی آلودہ ہوجاتا ہے۔ تمام وال سلِپ ہوگئے ہیں، خراب ہوگئے ہیں۔ انہیں تبدیل کرانے کی ضرورت ہے۔ منگلور کے پانی کی ضرورت موجودہ چشموں اور ذرائع سے پوری نہیں ہوسکتی۔ اب کم از کم 2 عدد ٹیوب ویل نکالنے کی ضرورت ہے۔ نیز پانی کی تقسیم اور رسائی کا انتظام انتہائی ناقص ہے۔
قارئین، اب سوال یہ ہے کہ کس سے فریاد کریں، اور کس کے آگے روئیں؟ انصاف کے دورِ حکومت میں کس سے منصفی چاہیں؟ پانی کا محکمہ ہو یا محکمۂ صحت یا پھر پبلک ہیلتھ کے کرتا دھرتا ہوں،تو کیا یہ سب سو رہے ہیں؟ معلوم نہیں وہ کیا ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں اور وہ کب خوابِ خرگوش سے اٹھیں گے اور ہوش میں آئیں گے؟ وہ تب اٹھیں گے جب عوام دفتر کے اِرد گرد گھیرا ڈال چکے ہوں گے؟ علاوہ ازیں متعلقہ محکموں کو خبردار کرنے کے علاوہ ضلعی انتظامیہ خاص کر نئے ڈپٹی کمشنر سے درخواست ہے کہ وہ ان محکموں کو ان کے فرائض یاد دلائیں اور ان سب سے باقاعدہ پوچھ گچھ کریں کہ یہ صاحبان دن بھر دفتروں میں بیٹھ کر ملک و قوم کی کون سی خدمات سرانجام دے رہے ہیں؟
یہاں کا دوسرا بڑا مسئلہ صفائی کا ہے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر جمع ہوگئے ہیں۔ اس تریق یافتہ دور میں بھی منگلور میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر (ڈیران) نظر آ رہے ہیں۔ ان کا فوری خاتمہ ضروری ہے۔ بلدیاتی ادارہ صفائی کے لیے بجٹ پاس کر دیتا ہے، لیکن بعض مسائل بجٹ سے ماورا ہوتے ہیں۔ گاؤں میں مختلف جگہوں پر بڑے بڑے کوڑے دان رکھے گئے ہیں، لیکن یہ گندگی سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کو خالی کرانے اور پھر اُسے گاؤں سے باہر لے جانے کا کوئی انتظام نہیں۔ یہ کوڑے دان اوور لوڈ ہوجاتے ہیں۔ اوپر ڈھیر جمع ہونے کے علاوہ نیچے بھی گندگی کے ڈھیر جمع ہوجاتے ہیں۔ جب تک ان کو خالی کرنے اور باہر لے جانے کا انتظام نہ ہو، مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ صفائی نہ ہونے کے برابر ہے۔
حکامِ بالا سے درخواست ہے، جس میں ضلعی انتظامیہ کے علاوہ مینگورہ ٹی ایم اے کا عملہ بھی آتا ہے کہ کم از کم مستقل بنیادوں پر ہفتہ وار کچرا گاڑی کا بندوبست کیا جائے، جو ہر ہفتے آکر اپنی باری پر ہر محلہ سے کچرا اٹھائے اور نزدیک منگلور گراؤنڈ کے قریب بھرائی میں خالی کردے۔ یہ یاد رہے کہ منگلور گاؤں اور منگلور پلے گراؤنڈ کے درمیان فقط ایک کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اگر منگلور گاؤں کو انتظامیہ مینگورہ ٹی ایم اے کے ساتھ شامل نہیں سمجھتی، تو نہ سمجھے۔ منگلور خلا میں نہیں، ضلع سوات میں واقع ہے اور یہ پورے سوات میں مینگورہ کے بعد سب سے بڑا گاؤں ہے۔ مینگورہ اور منگلور کے باشندے ایک قوم قبیلہ کے ہیں۔ منگلور اور مینگورہ میں اب بھی ان سب کی مشترکہ جائیدادیں ہیں۔ لہٰذا جو حقوق مینگورہ کو حاصل ہیں، وہ منگلور کو بھی ملنے چاہئیں۔ یہاں صفائی کی حالت نہایت مخدوش ہے۔ پورا گاؤں پلاسٹک کے سیلاب میں ڈوب رہا ہے۔ لہٰذا مطالبہ یہ ہے کہ گاؤں سے گندے پانی کے نکاس کا معقول بندوبست کیا جائے اور فی الفور کوڑا لے جانے والی گاڑیاں مہیا کی جائیں۔ یہ کوئی ایک دن اور ایک دفعہ کا مسئلہ نہیں کہ قومی سطح پر حل کیا جائے۔ اسے مستقبل بنیادوں پر حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ضلعی انتظامیہ فوری طور پر منگلور کے بلدیاتی ممبران سے رابطہ کرے، اس مسئلے پر انہیں اعتماد میں لے اور مشترکہ طور پر اس کا کوئی مستقل حل تلاش کریں۔
قارئین، صفائی نصف ایمان ہے، پورا نہ سہی نصف ایمان تو کمانا چاہیے۔ موجودہ حکومت بھی صفائی کی مہم چلا رہی ہے اور وزیراعظم نے اگلے پانچ سال میں پورے پاکستان کو صاف ستھرا بنانے اور سر سبز دِکھانے کا وعدہ کیا ہے۔ صرف زبانی وعدوں سے صفائی نہیں ہوتی، لہٰذا منگلور کی تحریک انصاف کے تمام کارکنان سے اور حلقہ کے صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران سے درخواست ہے کہ وہ صفائی مہم میں آگے بڑھیں اور پہل کریں، اِن شاء اللہ منگلور قوم بھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اور قدم سے قدم ملا کر ساتھ دے گی۔ بس عمل کرنے اور ارادہ کرنے کی دیر ہے، مزید دیر نہ کی جائے۔
قارئین، منگلور کے حوالے سے فی الحال ذکر شدہ دو مسئلوں پر موجودہ تحریر کافی ہے۔ باقی مسائل پر آئندہ نشست میں بات ہوگی، اِن شاء اللہ!
منگلور کے مسائل
