ایڈووکیٹ نصیراللہ
وادئی سوات میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھانا کئی ایک حکومتوں کا دیرینہ خواب تھا۔ موجودہ حکومت بھی وادئی سوات کے مسائل کو حل کرنے کی خاطر اقدامات کر رہی ہے۔ باالفاظ دیگر صوبائی حکومت اپنے مقاصد کو تکمیل تک پہنچانے میں مخلص ہے، لیکن بیوروکریسی کی طرف سے ٹیکنکل وجوہات کی وجہ سے ترقیاتی اہداف التوا کا شکار ہیں۔ ترقیاتی کاموں کی فہرست درجِ ذیل ہے:
* سوات سیدو شریف گروپ آف ٹیچنگ ہاسپٹل میں پانچ سو بیڈز کے نئے تعمیر شدہ ہسپتال کی بلڈنگ، تمام ڈاکٹری آلات، لفٹ، ایچ ایف وی پلانٹ سمیت تقریباً سب جملہ لوازمات پورے ہیں۔ البتہ ڈاکٹروں، دیگر نرس سٹاف اور کلاس فور میں کچھ کی پوسٹنگ جاری ہے، لیکن زیادہ تر ڈاکٹروں کی اپوائنمنٹ تاحال باقی ہے ۔ اس لیے ان امور پر کام میں تیزی لانا ضروری ہے۔
* مینگورہ اور دیگر پہاڑی علاقوں میں واٹر ٹیبل گر چکا ہے۔دو ہزار دو کے ایم ایم اے کی حکومت میں ضلع سوات میں باغ ڈھیرئی کے مقام پر واٹر فلٹریشن پلانٹ کے لیے پی سی فور بنایا گیا تھا۔ پچھلی صوبائی حکومت نے اس کو پی اینڈ ڈی دو ہزار سترہ؍ اٹھارہ میں ڈالا تھا، لیکن اس پر تاحال کام شروع نہ ہوسکا۔ اس لیے اس منصوبے پر فی الفور کام شروع کرکے عوام کا دیرینہ مسئلہ حل کیا جائے۔
* مینگورہ سوات میں ٹریفک کا مسئلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ صوبائی حکومت نے انڈر پاسز اور اوور ہیڈ بریجز کا پلان ترتیب دیا ہے، اس لیے اس منصوبے پر کام مزید تیز ہونا چاہیے۔
* مینگورہ سے تحصیل نیک پی خیل اور دیگر تحصیلوں تک ٹریفک سے گزرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس لیے ٹریفک کنٹرول کرنے کی خاطر اوڈیگرام کبل اور چھوٹا کالام اور چار باغ کے پل بنانا انتہائی اہم کام ہے۔
* واسا صوبائی حکومت کا ذیلی ادارہ ہے، جس کاکام کوڑا کرکٹ اور گند کو اٹھانا ہوتا ہے۔ واسا گندگی کا کنٹینر دے کر کسی بھی کاروباری جگہ میں لگا کر اس کا کرایہ لیتا ہے، تاہم سیوریج اور انسانی فضلہ جات کے لیے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ گھروں کے کنوؤں پر ناروا ٹیکس لیا جا رہا ہے۔ ریاست کے دور میں سیوریج کا نظام کچھ نہ کچھ بحال تھا، لیکن اب وہ بھی ختم ہوچکا ہے۔ اس لیے مذکورہ ادارے یا جو بھی ادارہ اس کے لیے مناسب ہو، کو ہدایت کی جائے کہ وہ مینگورہ سوات کے سیوریج اور ڈرین ایج کے لیے منصوبہ بندی کرکے سائٹ وضع کرے، اور بعد ازاں اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچا کر دریائے سوات سے نکلے چینلز کو گندگی سے صاف کرنے کی ذمہ داری حوالہ کی جائے۔
* سوات میں سیاحت کے حوالہ سے گندھارا تہذیب کے آثارِ قدیمہ بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان کھنڈرات کو ملکی و غیر ملکی سیاح انتہائی دلچسپی کے ساتھ دیکھنے آیا کرتے تھے۔ سوات کے مختلف علاقوں میں یہ کھنڈرات اچھی حالت میں موجود ہیں، تاہم اس کے تحفظ کے لیے کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں۔ اس لیے اس کو محفوظ بنانے اور اس کے متعلق شعور و آگاہی اور تشہیری مہم لازمی امور ہیں۔
* ضلع سوات میں پکنک کے لیے کوئی سپاٹ نہیں اور نہ یہاں کے باسیوں کے لیے کوئی چھوٹے پارک یا طالب علموں کے لیے کوئی پلے گراونڈ ہی موجود ہے۔ اس لیے ان امور پر توجہ دے کر آنے والی نسلوں اور موجود نواجونوں کو ملکی ترقی کی صحت افزا سرگرمیوں کی طرف بلایا جاسکتا ہے۔
* پورے ضلع سوات میں بیسیوں جگہ پر ڈیموں کے لیے وسیلے اور توانائی موجود ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مذکورہ جگہیں قدرتی طور پر ڈیموں کے لیے موزوں ترین جگہیں قرار پائی ہیں۔ اس پر لاگت بھی کم آئے گی اور فائدہ دوگنا ہوگا۔ اس طرح اس سے اگر ایک طرف پورے خیبر پختونخواہ کے لیے صاف پانی اور زراعت کا پانی مہیا ہوسکتا ہے؟ تو دوسری طرف خود سو ات کو کتنا فائدہ ہوگا؟ کتنی بجلی پیدا ہوسکتی ہے، کتنا صاف پینے کا پانی مہیا ہوسکتا ہے؟یہ سوچنا ہوگا۔
* بالائی علاقوں میں کنوؤں کا پانی تقریباً خشک ہوچکا ہے۔ضلع سوات میں واٹر ٹیبل مسلسل گر رہا ہے۔ اگر ایک طرف اس میں لوگوں کو بورنگ کنوؤں کی اجازت ہے، تو دوسری وجہ غریبوں کے حصے کا پانی غیر قانونی طورپر اپنے نام کیا جاچکا ہے۔ کیا یہ انصاف ہے کہ یہ سب حکمرانوں کی نظروں سے اوجھل ہے؟ کیا مہذب دنیا میں بورنگ کنووں کی اجاز ت ہوتی ہے؟ کیا حکومتی سطح پر ٹیوب ویل اور ہینڈ پمپس لگائے جاتے ہیں؟قانون کے مطابق کوئی دریائے سوات کے دو سو گز میں آبادی نہیں کرسکتا، لیکن آبادی آپ سب کے سامنے ہے۔ اس ضمن میں دریائے سوات کی قریبی جگہوں میں ڈومیسٹک اورکمرشل ادارے بنانے کے لیے قانون موجود ہے، تاہم اس کونافذ کیا جانا چاہیے۔ جب کہ دریائے سوات سے ہماری سیاحت، روزگار اور سب کا رزق وابستہ ہے۔ باالفاظ دیگر میں دریائے سوات کو سواتیوں کی ماں سمجھتا ہوں۔ ہمیں اس کاخیال رکھنا ہوگا۔ دریائے سوات اور مختلف علاقوں میں خوڑیعنی ندیوں کے دونوں سائڈ پر درخت لگانا ہوں گے، تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کا اثر کم ہوسکے اور دریا اور نالہ کا تحفظ ہوسکے۔
* ضلع سوات میں منصوبہ بندی کرکے سٹریٹ لیولنگ کی جائے، اور جدید بنیادوں پر تعمیرات کے لیے منصوبے بنائے جائیں۔اس کے علاوہ ٹاؤن پلاننگ بھی انتہائی ضروری امر ہے۔
* ڈمپنگ سائٹ اور سالڈ ویسٹ کو ماحولیاتی طرز پر کھپایا جانا چاہیے۔ اس کے لیے سوات میں مناسب جگہوں کا انتخاب ضروری ہے۔
* صاف پانی کے منصوبہ پر جلد از جلد کام شروع کیا جانا چاہیے۔ یہ تصور محال لگتا ہے کہ دریائے سوات سے پینے کے لیے صاف پانی اور زراعت کے لیے کوئی ندی نکالی جاسکتی ہے۔ دریائے سوات میں آبی حیات کے تحفظ کے لیے اب تک کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ کیا ہمارے پاس یعنی صوبہ خیبر پختونخوا کے پاس اختیار نہیں کہ وہ یہاں کے پانی، آبی حیات اورجنگلات کو تحفظ دے سکے ؟
* سوات کی سرزمیں میں ہر قسم کے پودے، پھل اور سبزیوں کے لیے قدرتی طور پر زرخیزی موجود ہے۔ اگر کچھ نہیں ہے، تو وہ مارکیٹ تک رسائی اور جدید بنیادوں پر زراعت کی ٹریننگ ہے۔ ایک سروے کے مطابق سوات میں زیتون کے درخت جدید بنیادوں پر اُگانے کے لیے تمام ضلع سوات میں وافر مقدار میں جگہیں موجود ہیں۔ اگر اس طرف توجہ دی جائے، تو شائد سوات کے لوگوں کی تقدیر بدل جائے ۔
* شہری ایزادگی کی وجہ سے تقریباً تمام تحصیل بابوزئی مینگورہ میں زراعت کے لیے کوئی زمین باقی نہیں ہے۔ اس لیے زرعی زمین پر آبادی کے خلاف قانون بنانا اہم ہوگا۔
* سالڈ ویسٹ کے لیے ’’لینڈ فل سائٹ‘‘ واحد حل ہے کہ اسے ماحولیاتی نکتۂ نظر سے بنائے جانے کاپروگرام درکارہوگا۔ دریائے سوات کا پانی اگر ایک طرف سوات لنڈاکی سے مہو ڈنڈ تک آباد بارہ لاکھ آبادی اور تمام سوات چوں کہ خوڑ اور پہاڑی نالوں کے قریب واقع ہے، اس لیے اگر ایک طرف دریائے سوات انسانی فضلہ جات اور ٹھوس گندگی سے گندہ ہوتا جا رہا ہے، تو وہاں دوسری طرف تمام کمرشل کارباری اداروں اور انڈسٹریز، کیمیکل، سالڈ ویسٹ، گرد اور زرعی فرٹیلائزر کے استعمال سے آبی حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔کون اس کا خیال کرے گا؟ 
تو کوئی ہے جو دریائے سوات کا تحفظ کرے اور اس کے دونوں اطراف صاف پانی اور آبی حیات کے تحفظ کے لیے ایک ’’چینل‘‘ یا ’’ندی‘‘ جب کہ ’’دوسری ندی‘‘ یا ’’چینل‘‘ سالڈ ویسٹ اور انسانی فضلہ جات کو بہ حفاظت نکالنے کے لیے انتظام کرے؟