روح الامین نایابؔ
قارئین کرام! موجودہ صوبائی حکومت کی ہر تبدیلی جہاں بیماری کی شکل اختیار کرچکی ہے، وہاں این ٹی ایس (نیشنل ٹیسٹنگ سروس) بھی اب ایک وبال جان بن چکی ہے۔ اب یہ ایک علمی امتحان کا ادارہ نہیں بلکہ پیسے بٹورنے والا ایک خطرناک گروہ بن چکا ہے۔ ایک گول دائرے میں سب کچھ گھوم رہا ہے۔ ٹیسٹوں کے لیے امیدواروں سے کروڑوں روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ ٹیسٹ لینے کے بعد ایک ڈراما رچایا جاتا ہے کہ پیپر آوٹ ہوگیا ہے، لہٰذا پچھلا ٹیسٹ منسوخ کیا جاتا ہے اور دوبارہ ٹیسٹ کے لیے غریب، مجبور اور نادار طلبہ و طالبات کو دور دور سے آنا پڑتا ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ بھئی، پیپر کیسے اور کس نے آوٹ کیا ہے؟ کیا اس حوالے سے ابھی تک کوئی پکڑا گیا ہے؟ کسی کو سزا دی گئی ہے؟ یہ ذمہ داری غریب طلبہ یا امیدواروں کی تو نہیں ہے کہ انہیں بار بار سزا دی جاتی ہے۔ یہ تو امتحان لینے والے عملے اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ انہیں ذمہ دار قرار دے کر فراڈ اور دھوکا دہی کے الزام میں قرار واقعی سزا دی جائے۔ امیدوار یا طالب علم کو سزا دینا سراسر ظلم و زیادتی ہے بلکہ نا اہل عملے کو سزا دے کر ہمیشہ کے لیے نگرانی سے باہر کیا جائے۔
باشعور لوگوں کا شیوہ یہ ہے کہ وہ کسی ادارے کی کارکردگی، منصوبے یا پروگرام کو انا کا مسئلہ نہیں بناتے کہ وہ ادارہ بار بار اپنی کارکردگی میں فیل ہوجاتا ہے اور اپنا کام بہ حسن و خوبی نہیں چلاسکتا، تو انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اُسے بلا تاخیر ختم کیا جائے۔ جب یہ تبدیلی ایک بیماری کی شکل اختیار کرچکی ہے، تو بیماری کا علاج کیا جاتا ہے نہ کہ اُسے نظر انداز کیا جائے۔ این ٹی ایس ٹیسٹنگ کا طریقۂ کار ختم کرکے میرٹ کی بنیاد پر محکمانہ بھرتیاں اور امتحانات کے انتظامات کرنے چاہئیں۔
دراصل این ٹی ایس ایک ایسا ادارہ بن چکا ہے جس کامقصد زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا ہے جب کہ اس کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ امتحانی ہالوں میں امیدواروں کو خاطر خواہ سہولتیں نہیں دی جاتیں اور پیسے پورے کے پورے وصول کیے جاتے ہیں۔
قارئین کرام! حالیہ این ٹی ایس ٹیسٹ فروری اور مارچ میں ہوئے یا ہونے تھے لیکن بدانتظامی کی وجہ سے کچھ ہوئے اور کچھ تو شروع ہونے سے پہلے ملتوی کیے گئے۔ اس طرح اک آدھ ٹیسٹ کا پرچہ آوٹ ہوا۔ 11 فروری کو ایس ایس ٹی کا ٹیسٹ ہوا اور چوبیس فروری کو پی ای ٹی کے لیے ٹیسٹ لیا گیا جب کہ دو، تین اور چار مارچ کو پی ایس ٹی کا پرچہ شروع ہونے سے پہلے ہی ’’آوٹ‘‘ ہوا۔ اس لیے حفظ ما تقدم کے تحت دس مارچ کو سی ٹی کے لیے ہونے والا ٹیسٹ ملتوی کیا گیا جب کہ اس دوران میں یہ بھی معلوم ہوا کہ گیارہ فروری کو ایس ایس ٹی کے لیے ہونے والے ٹیسٹ کا پرچہ بھی آوٹ ہوچکا تھا۔ اب یہ ایک مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟ نگران عملہ یا پرچہ بنانے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات ہی اس فراڈ اور گھپلے کے ذمہ دار ہیں۔ پرچہ مفت میں آوٹ نہیں ہوتا بلکہ اس کام کے عوض لاکھوں روپے لیے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوس اور ظلم کی بات یہ ہے کہ انصاف کے نام پر سیاست کرنے والی سرکار اور کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنے والی قیادت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ وہ صرف اتنا کرسکتی ہے کہ امتحانات اور ٹیسٹ کینسل کرکے غریب اور نادار طلبہ اور طالبات کا وقت ضائع کرے اور انہیں بے شمار ذہنی اور جسمانی مشکلات میں ڈالے۔ ان میں خاص کر خواتین کو دور دور سے امتحانی مراکز میں آنے کے لیے گاڑی اور ٹرانسپورٹ کی بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈھیر ساری خواتین کے ساتھ بچے ہوتے ہیں، وہ ایک الگ ذہنی کوفت اور آزمائش کا مرحلہ ہوتا ہے۔ لہٰذا موجودہ حکومت، تمام متعلقہ اداروں اور محکموں سے درخواست ہے بلکہ ایک ہمدردانہ اپیل ہے کہ اس ’’این ٹی ایس‘‘ کے طریقۂ کار کا کوئی اچھا سا بندوبست کریں۔ اسے آسان، سہل اور منظم بنائیں یا پھر اسے ختم کریں۔ ایک بیماری کو تبدیلی کا نام نہ دیا جائے اور اپنے صوبے کے دگرگوں حالات کو سنبھالا جائے۔ اپنا آنگن گندہ ہو، تو دوسروں کے انگن میں جاڑو لگانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ پشتو کہاوت ہے کہ ’’خپل غولے خچن پردے جارو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔