فضل محمود روخان
پروگرام کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے میں نے احتیاطاً اپنے لیے تقریر پہلے سے لکھی ہوئی تھی، لیکن بعد میں، مَیں یہ بھول گیا تھا کہ لکھی ہوئی تقریر میری جیب میں پڑی ہوئی ہے۔ سٹیج سے جب مجھے تقریر کے لیے بلایا گیا، تو مَیں نے بھرے ہال میں سامعین پر نظر ڈالی۔ صدرِ محفل اور مہمانانِ گرامی کو مخاطب کیا اور السلام علیکم کہا۔ زبانی تقریر کرتے ہوئے محفلِ شمع سید طاہر بخاری کو خراج تحسین پیش کیا۔ اُن کی ادبی خدمات کو سراہا۔ اُن کے روحانی رتبے کی ایک جھلک ناظرین کو دکھائی۔ محترم سید طاہر بخاری اس وقت 90 سال کی عمر کے ہیں۔ پروگرام کے لیے صوابی کے علاقہ ’’چھوٹا لاہور‘‘ سے آئے ہوئے تھے۔ چلنے پھرنے سے قاصر تھے۔ پشاور بار روم کے پرانے ہال میں جب وہ بذریعہ کار پہنچے، تو وہیل چیئر میں ہال لائے گئے۔ وہ بابائے غزل امیر حمزہ خان شنواری کے خلیفہ ہیں۔ اپنے وقت کے ایک نیک سیرت اور خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں۔ ایک وسیع حلقۂ احباب رکھتے ہیں۔ اہلِ محفل اُن سے بڑی عقیدت سے ملے، جو بھی اُن سے مصافحہ کے لیے آیا، تو اُن سے ہاتھ ملانے کے بعد اُن کے پاؤں کو ہاتھوں سے مس کرنا ضروری سمجھا۔ وہ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ وہ اُن کے مریدوں میں شامل تھے، جب کہ یہ درجہ مجھے حاصل نہیں تھا۔ البتہ سادہ طریقے سے میں نے اُن سے مصافحہ کیا۔ مجھے اس ادبی پروگرام کا دعوت نامہ اکادمی ادبیات پشاور سے ملا تھا۔ اُنہوں نے فون پر بھی آنے کے لیے تاکید کی تھی اور بعد میں میسج کے ذریعے بھی آنے کا اصرار کیا تھا۔ آخر میں تحریری دعوت نامے سے کام لیا گیا تھا۔ اس لیے میں نے ان کا دل رکھنے کے لیے جانا ضروری سمجھا اور جب میں اکادمی ادبیات کے دفتر میں داخل ہوا، تو محترم خان بادشاہ نصرت اور محمد علی صاحب کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ انہوں نے جو میری عزت افزائی کی، وہ اُن کی اعلیٰ ظرفی تھی۔ اُس دن 15 مئی کو پشاور میں رم جھم پھوار پڑ رہی تھی۔ موسم خوشگوار تھا۔ میرے کچھ ضروری کام کلچر ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ تھے، اس لیے پہلے وہ نمٹائے۔ بعد میں اپنے ادبی دوست لائق زادہ لائقؔ سے ملنے کا اشتیاق ضرور تھا، لیکن وقت آڑے آرہا تھا۔ اس لیے اُن سے ملاقات نہ ہوسکی۔ پروگرام میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ منور وزیر ایڈوکیٹ مجھے اور چند دوستوں کو چائے پلانے کے لیے ’’کیفے ٹیریا‘‘ لے گئے۔ وہاں اُن کی ادبی باتوں سے کافی محظوظ ہوا۔ جب ہم بار روم کی جانب آئے، تو چند اور دوستوں سے ملاقات ہوگئی، جن میں سید ولی خیال مہمند سابق ریزیڈنٹ ڈائریکٹر بھی شامل تھے۔
قارئین، معروف افسانہ نگار، ادیب، محقق اور دانشور سید طاہر بخاری کی تخلیقات و تصنیفات پشتو ادب کے لیے ایک قابلِ فخر ادبی اثاثہ ہیں۔ اُن کی تعلیمات ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ جس پروگرام میں، مَیں شریک تھا ممتاز ترقی پسند شاعر اور محقق سلیم راز وہاں صدرِ محفل تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر یار محمد مغموم مہمانِ خصوصی تھے، جبکہ پروفیسر ڈاکٹر اباسین یوسف زئ اور پشاور بار ایسوسی ایشن کے صدر وکیل زمان خٹک اعزازی مہمانان گرامی تھے۔ اس تقریب کی نظامت ارشد اقبال ایڈوکیٹ نے کی۔ اس موقع پر پروفیسر قاسم محمود بنوری، ڈاکٹر حنیف خلیل، کلیم شنواری، پروفیسر امیر منگل، نورالامین یوسف زء، سید ولی خیال مومند، ڈاکٹر مسعود احمد زاہد اور اکادمی ادبیات پاکستان پشاور برانچ کے اسسٹنٹ ریزیڈنٹ ڈائریکٹر خان بادشاہ نصرت نے بھی سید طاہر بخاری کی ادبی خدمات کو سراہا۔
اس خوبصورت اور پُروقار ادبی پروگرام کا انعقاد اکادمی ادبیات پاکستان پشاور کے زیرِ اہتمام اولڈ بار روم ہال میں سید طاہر بخاری کے اعزاز میں کیا گیا تھا، جو ہر لحاظ سے ایک کامیاب پروگرام تھا۔