نیاز احمد خان
کیلاش قبیلے کے زیادہ ترلوگوں کا ذریعۂ معاش کھیتی باڑی اور مویشی پالنا ہے۔ کیلاش کے تقریباً ہر خاندان کے پاس مویشی ہوتے ہیں، جن میں زیادہ تربھیڑ بکریاں ہوتی ہیں۔ اس طرح جو کیلاشی مال دار ہیں، ان کے پاس گائیں بھی ہوتی ہیں۔ کیلاشی ان مویشیوں کے دودھ سے خوراک بناتے ہیں، جن میں پنیر اور چھاچھ زیادہ مشہور ہیں۔ پنیر کو کیلاشی لوگ کئی مہینوں تک محفوظ رکھتے ہیں۔ سردی کے موسم میں پنیر کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے۔ کیلاش کے لوگ گوشت کو بھی پسند کرتے ہیں اور لوبیا اور دالیں بھی شوق سے کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس پہاڑوں میں بڑے بڑے باغات ہیں جن میں خوبیانیاں، اخروٹ، سیب، ناشپاتی، انگور، توت بڑے مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ سیزن میں تازہ پھل خوب کھایا جاتا ہے۔ اس طرح سیب اور ناشپاتی کو سٹور کرکے سردیوں میں بھی کھایا کرتے ہیں۔ بطورِ ٓخاص توت اور خوبانیوں کو خشک کرکے استعمال کرتے ہیں جب کہ ڈرائی فروٹ کے طورپر اخروٹ، بادام، خشک توت اورخوبانیوں کو بڑی مقدارمیں فروخت بھی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ کیلاش قبیلے میں توت سے بنائی گئی شراب بھی بہت مشہورہے۔ یہاں انگورسے بھی شراب بنائی جاتی ہے۔ کیلاشی کہتے ہیں، انگور ان کے علاقے میں کم پیدا ہوتاہے۔ وہ بازار سے وائن بنانے کے لیے انگور خرید کر لے لاتے ہیں۔
بیشتر کیلاشیوں کی زندگی سادہ اور آسان ہے۔ ان کی ضروریات کم ہیں۔ اس وجہ سے ان کو معاشی مسائل کا بہت کم سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کیلاش قبیلے کے ڈھیر سارے مرد چترال سکاؤٹس اور ایف سی میں بھرتی ہیں۔ کئی جوان پولیس میں بھی سرکاری ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔اس وجہ سے بھی ان کی معاشی حالت ایک حد تک بہتر ہے۔ خواتین گھر اور باہر کے تمام کام خود سرانجام دیتی ہیں۔ اس وجہ سے مردوں پر گھروں کے کام کا بوجھ تھوڑا کم ہے۔ مرد حضرات گھریلو کاموں اور خواتین کے معاملات میں زیادہ دخل اندازی نہیں کرتے۔ اگر کسی کیلاشی خاتون کا اجنبی دوست ان کے گھر میں داخل ہوجائے، تو اس سے سخت سوال وجواب نہیں کیا جاتا۔ خواتین کو خاندان میں سربراہ کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ اپنے مردوں کے ساتھ وفادار ہوتی ہیں۔ خواتین مردوں کے کھانے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتی ہیں۔ گھر کے مرد مہمانوں کے لیے کھانا تیار کیا جاتا ہے اور ان کا خیال رکھا جاتا ہے۔
نئی ایجادات سے کیلاشی قبیلہ بھی متاثرہوئے بغیرنہیں رہا۔ زیادہ ترکیلاشی خواتین اور مردوں کے ساتھ سمارٹ موبائل فون موجود ہے، جس میں وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو ٹیکسٹ میسجز بھیجتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں۔ کئی لڑکیوں نے موبائل کے ذریعے دوستیاں بھی بنا رکھی ہیں، جس کا انجام بالآخر شادی ہوتا ہے۔
کیلاش قبیلے میں ڈش ٹی وی بھی پہنچ چکا ہے۔ بمبوریت گاؤں میں یورپی یونین کے تعاون سے ’’سرحد رورل سپورٹ پروگرام‘‘(ایس آر ایس پی) نے پانی سے بجلی بنانے والے چھوٹے ڈیم تعمیر کیے ہیں جن سے بمبوریت کے تمام گاؤں کو بلاتعطل بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ اس وجہ سے ڈش ٹی وی حتی کہ کیبل ٹی وی بھی بمبوریت پہنچ چکا ہے۔ پہلے کیلاشی لوگ سی ڈی کے ذریعے انڈین فلمیں دیکھتے تھے، اب ڈش ٹی وی کے ذریعے پاکستانی اور انڈین ڈرامے دیکھتے ہیں جس سے بڑی تعداد میں کیلاش کی نئی نسل متاثر ہو رہی ہے۔ نوجوان لڑکیاں بھارتی گانے گاتی ہیں۔ ان کی طرز پر رقص کرتی ہیں۔ اس طرح کیلاشی مرد انڈین فلموں کے ہیروز کی نقل اتارتے ہیں۔ انہی کی طرح لباس پہنتے ہیں، بال بناتے ہیں ، داڑھیاں رکھتے ہیں۔ کیلاش کا نوجوان طبقہ زیادہ تر شرٹ اور پتلون پہننا پسند کرتا ہے، جب کہ معمر افراد شلوار قمیص پہننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا کہ کیلاشی لوگ بہت زیادہ مہمان نواز ہوتے ہیں۔ مہمانوں کا احترام کرتے ہیں، مگر سیاحوں کی زیادہ آمد اور ان کے موبائل کیمروں کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔ جب ا ن کی اجازت کے بغیر تصویر اتاری جائے، یا ویڈیو کی جائے، تو ناراض ہوتے ہیں اور ناراضی کا اظہارمنھ چھپاکر کرتے ہیں۔ وہ مہمانوں کو غصہ نہیں ہوتے۔ باہر سے آئے ہوئے سیاح، کیلاشی بچوں کو ٹافیاں اور کچھ رقم دیتے ہیں، جس کی وجہ سے اب کیلاشی بچے سیاحوں سے رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر سیاح کے ساتھ کیلاشی گائڈ موجود ہو، تو پھر ان کے ساتھ تعاون کیا جاتا ہے۔ پھر فوٹویاویڈیو بنانے سے منع نہیں کیا جاتا۔
کیلاش میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ملکی اور غیرملکی سیاح ان کی طرزِ زندگی دیکھنے کے لیے چترال اور ان وادیوں کا رُخ کرتے ہیں، جس سے وہاں مقامی لوگ خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بمبوریت میں درجنوں ہوٹل بن چکے ہیں جو کہ زیادہ تر مسلمانوں اور دوسرے علاقوں کے رہنے والوں کی ملکیت ہیں۔ ان میں مقامی کیلاشیوں کے ہوٹل بھی ہیں۔ اب تو کیلاشیوں کے ساتھ لاہور، پشاور اور دیگر علاقوں کے سرمایہ دار کاروباری لوگ معاہدے کرکے ان کی زمین لیز پر لے رہے ہیں اور اس پر ہوٹل بنا رہے ہیں۔ کیلاشی اس کاروبار کوبھی نفع کا کاروبار سمجھتے ہیں۔ سیاحوں کی آمد سے مقامی کیلاشی نوجوانوں کوبھی روزگار کے مواقع ملتے ہیں۔ ان میں کئی کیلاشی ٹورگائیڈ کے طورپر کام کرتے ہیں جوکہ فی گھنٹا کے حساب سے اجرت لیتے ہیں۔ غیرملکیوں کی الگ شرح فیس ہے جب کہ ملکی سیاحوں کی الگ۔ ایک مقامی کیلاشی کے مطابق انہوں نے ایک تنظیم بھی بنا رکھی ہے، جو ٹورگائڈ سے رقم لیتی ہے۔ اس میں سے کچھ رقم کمیشن کے طورپر تنظیم کو دی جاتی ہے۔ یہی رقم بعد میں کیلاش قبیلے کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاتی ہے۔ (جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئیں، کیلاش کی سیر کریں (ساتواں حصہ)
