مہروز خان عیسیٰ خیل
قارئین کرام! یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دورِ جدید میں تعلیم کے حصول کے تقاضے یکسر تبدیل ہوگئے ہیں۔ دنیا میں جدید تعلیم کے حصول پر تحقیقات کی بھرمار ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے چاہے وہ جدید آلات کی صورت میں ہو یا انٹرنیٹ کی صورت میں، طلسم ہوش ربا کا کردار ادا کرتے ہوئے انسان کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے میں جدت اپنائی جا رہی ہے۔ سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے جدید تعلیم کے حصول کے لیے اپنے اپنے وسائل بروئے کار لارہے ہیں۔ استطاعت رکھنے والے والدین بھی خصوصی طور پر ایسے نجی اداروں کو ترجیح دیتے ہیں، جن میں اُن کے بچوں کو جدید تعلیم کے حصول کی سہولیات زیادہ ہوں۔ اس بارے میں سرکاری سطح پر شعبۂ تعلیم سے تعلق رکھنے والے ماہرینِ تعلیم طلبہ و طالبات کی بہترین تعلیم و تربیت میں حتیٰ الوسع کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد دورِ حاضر کے طلبہ و طالبات کو تھیوری کی بجائے عملی تعلیم سے آراستہ کرنا ہے۔ یہ ایک مستحسن فعل ہے اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے شعبۂ تعلیم سے وابستہ ماہرینِ تعلیم گاہے بگاہے سرکاری اور نجی اداروں میں ورکشاپس کا اہتمام بھی کر رہے ہیں۔ نیز انہوں نے ایک جامع پلاننگ کے تحت ماہرینِ تعلیم کی مدد سے خطیر رقم خرچ کرکے "Conceptual base” پر ایک نصاب ترتیب دیا ہے، جس کا مقصد تمام طلبہ و طالبات کو جدید تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسے ہی ایک ورکشاپ میں بیٹھنے کا موقع ملا ہے، جس انداز کے ساتھ یہ حضرات، لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کررہے تھے، اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ اس بارے میں سنجیدہ ہیں۔
قارئین، انسان فطری طور پر آرام پسند واقع ہوا ہے۔ اسی آرام طلبی نے انسان کو مجبور کیا ہے کہ وہ محنت طلب کام سے جی چراتا ہے۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ لکھاری لوگ اپنے ہاتھوں کی مدد سے کتابیں تصنیف کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں رونما ہوتی گئیں اور ہاتھوں کی بجائے ٹائپنگ مشین کے ذریعے لوگوں نے تحریریں لکھنے کا عمل شروع کر دیا۔ ابھی بہت کم عرصہ گزرا تھا کہ ٹائپنگ مشین کی جگہ کمپیوٹر مشین نے لے لی۔ وہ کام جو سالوں، مہینوں اور دنوں میں ہوتا تھا، کمپیوٹر کی بدولت دنوں، گھنٹوں اور منٹوں میں ہونے لگا۔
کسی بھی چیز کو کم وقت دے کر زیادہ فائدہ حاصل کرنا بھی انسانی فطرت میں شامل ہے۔ انسان کی اسی فطری کمزوری پر جدید ٹیکنالوجی مہربان نظر آرہی ہے۔ چناں چہ سمارٹ فون اور ٹبلیٹ سے لے کر کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ تک کے تمام جدید آلات انسان کی مدد کرنے پر کمربستہ ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ان جدید آلات کا مثبت استعمال کرکے اپنی جدید تعلیمی ضرورت کو پورا کیا جائے۔
یہاں قارئین کرام سے پاکستان میں پہلی بار بس سروس کے آغاز کا واقعہ شیئر کرتا چلوں۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں بیسویں صدی کی دوسری یا تیسری دہائی میں بس سروس کی بات کی گئی، تو ڈھیر سارے لوگ اس کے حق میں نہیں تھے۔ اُن کی دانست میں یہ ایک سہولت نہیں بلکہ زحمت تھی۔ اُن کے خیال کے مطابق بسوں کے چلنے سے حادثات واقع ہوسکتے ہیں اور لوگوں کی قیمتی جانیں جاسکتی ہیں۔ لوگ ذہنی طور پر اس تبدیلی کے تیار نہیں تھے، لیکن آج سفر کے لیے بس سروس ناگزیر ہے۔ ان گاڑیوں کے بغیر لوگ سفر کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اسی طرح آج جو لوگ جدید ٹیکنالوجی کو کم اہمیت دے رہے ہیں، وہ آنے والے وقتوں میں اس کی افادیت سے منھ موڑ نہیں سکیں گے۔ کیوں کہ آنے والے وقتوں میں ان جدید آلات کے بغیر زندگی گزارنا ناممکن نہ سہی دشوار ضرور ہوگا۔ اس لیے اپنے آنے والے کل کو زیادہ روشن اور تابناک بنانے کے لیے ذہنی طور پر جدید ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کے لیے تیار ہونا ہوگا۔ ان آلات کی بدولت ہم اپنی تعلیمی ضروریات کے ساتھ دیگر ضروریاتِ زندگی کو بھی پورا کرسکتے ہیں۔
قرآن مجید میں ارشادِ خداوندی ہے کہ غیر مسلموں کے مقابلے میں اپنے آپ کو مستحکم کرو۔ اس ارشادِ خداوندی سے صاف ظاہر ہے کہ اگر غیر مسلم سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں آگے ہیں، تو ہم مسلمانوں کو بھی مذکورہ بالا شعبوں میں ترقی حاصل کرنا ہوگی۔ ہمارا مذہب ہمیں جدید علوم کو سیکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس لیے فہم و ادراک رکھنے والے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ خود بھی ان جدید آلات سے استفادہ کریں، اور اپنی نگرانی میں اپنے بچوں کو بھی ان کے استعمال کے مواقع فراہم کریں اور دورِ جدید کے تعلیمی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اپنے بچوں کی بھرپور معاونت کریں۔ اگر ایسا کیا گیا، تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو جائے گا۔
ہمیں یہ بات ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنے مذہب کی مقررہ حدود میں رہ کر ان جدید آلات سے استفادہ کرنا ضروری ہے۔ بقول اکبر اِلہ آبادی
تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
پر ایک سخن بندہ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکیسویں صدی کے تعلیمی تقاضے
