تحریر: امبرین سکندر

ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع صدیوں پرانے رسم و رواج کے ساتھ جینے والے وادی کیلاش کے لوگ منفرد رہن سہن اور تہذیب کے باعث ملکی ثقافت میں ماتے کے جھمر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہیں کہ یہ قبیلہ زمانہ قبل از مسیح سے آباد چلا آ رہا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں واقع وادی چترال نہ صرف اپنے لازوال قدرتی حسن بلکہ تہذیب کے جداگانہ انداز کے باعث بھی آج بھی لوگوں خصوصاٍ غیر ملکی سیاحوں کا مرکز بنی رہی ہے، جہاں صدیوں پرانا کیلاش قبیلہ ہزاروں سال پہلے کی روایتوں کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے، تاہم نا مناسب حالات اور وسائل نے اس اقلیتی برداری کو ہر دور میں دہرے عذاب سے دوچار کیا ہے۔ مذہب کی بات کی جائے تو اس قبیلے کے لوگ میں اکثر بدھ مت، ہندومت اور زرتشت جیسے قدیم مذاہب کے اثرات کے زیر اثر ہیں۔

بمبوریت، رمبور اور بریر سمیت چھوٹی چھوٹی وادیوں پر مشتمل چترال کی اکثریت انہیں وادیوں میں آباد ہے، جو کئی عرصے تک اس وادی کا مرکز بھی رہے ہیں۔ قدیم ترین تہذیبی حیثیت رکھنے والا کیلاش قبیلہ بیک وقت مذہب اور ثقافت کا آمیزش ہے، جہاں چترالی اور گلگت بلتستان کے لوگ قدیم فارسی تہوار نوروز اب بھی جوش وخروش سے مناتے ہیں۔ بیشترمورخین کا خیال ہے کہ ان کا تعلق قدیم آریائی نسل سے ہے۔ تاہم وقت کی ضرورت ہے کہ اس قدیم روایت اور زندہ تہذیب کو آنے والے دنوں میں بھی زندہ رکھا جائے۔ انہیں خدشوں کے پیش نظر خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے وادی کیلاش کے تحفظ اور فروغ کیلئے بمبوریت، بریر اور رنبور میں گھروں کی تزئین و آرائش، بحالی اور عبادت گاہ کے قیام سمیت کیلاشی قبرستانوں سے متعلق ترقیاتی منصوبے کا اعلان کیا گیا، جس کے بعد صوبائی حکومت بمبوریت، بریر اور رنبور میں گھروں کی تزئین و آرائش، بحالی اور عبادت گاہ کے قیام سمیت کیلاشی قبرستانوں کو اپنی تحویل میں لے کر کی حفاظت صوبائی سطح پر کرے گی، جب کہ سیلاب سے متاثرہ عجائب گھر کی بحالی سمیت مذہبی رسومات کیلئے الگ مرکز بھی بنایا جائے گا۔

سالوں سے نظر انداز اس وادی پر کے پی کے حکومت کی زرا نوازی خوش آئند بات تو ہے، تاہم یہاں بسنے والے لوگ زیادہ پر امید نہیں۔ صوبائی حکومت کے مطابق وادی کی خوشحالی کیلئے منصوبے کا مقصد چترال اور شمالی علاقہ جات کے ہندو کش کے پہاڑی سلسلے میں آباد اقلیتی برادری کو بچانا اور غیر ملکی سیاحوں کو اس خطے کی جانب راغب کرنا بھی ہے۔

حکومتی اراکین کا کہنا ہے کہ محکمہ آثارقدیمہ خیبر پختونخوا کی جانب سے شروع کئے جانے والے اس منصوبے کی کل لاگت 6 کروڑ روپے ہے، جس میں سے رواں مالی سال میں ایک کروڑ روپے رکھے گئے ہیں، جب کہ مذکورہ منصوبے کے تحت کیلاش کی تینوں وادیوں بمبوریب، بریر اور رنبور میں دو دو مقانات کا تعین کر لیا گیا ہے، جہاں تمام چھ مقانات کو خرید کر محکمہ آثار قدیمہ ان کی بحالی اور تزئین و آرائش کا کام کرے گا، اسی طرح ان تینوں وادیوں میں مقامی آبادی کے قبرستان بھی خریدے جائیں گے اور ان قبرستانوں پر قابض ہونے والے تجاوزات کا خاتمہ بھی کیا جائیگا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ نئے منصوبے کے تحت کیلاشی عوام کیلئے نئے قبرستان بھی قائم کئے جائیں گے، جس کیلئے 5کنال سے زائد اراضی کا انتخاب بھی کر لیا گیا ہے۔ کیلاشی عوام کی عبادت گاہ ’’جستکان‘‘ بھی محکمہ آثار قدیمہ اپنی تحویل میں لے گا اور ان کے خوشی غمی اور تقریبات میں ہونے والے رقص کیلئے کمیونٹی ہال بھی تعمیر کئے جائیں گے جس کیلئے تینوں وادیوں میں اراضی کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق کیلاشی علاقہ غیر ملکی سیاحوں کیلئے منفرد اور پرکشش ہے اس منصوبے کی مدد سے اسے سیاحوں کیلئے مزید پرکشش بنانے سمیت سہولیات سے آراستہ کیا جائیگا۔ یقیناٍ اگر حکومت اس منصوبے میں کامیاب ہوجائے اور وادی کیلاش کو اس کا جئزہ حق مل جائے تو کوئی شک نہیں کہ اس وادی اور مرکز کا شمار بھی دنیا کے خوبصورت ترین سیاحتی حصے میں ہوگا، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کیلاش میں موجود تمام عارتیں لکڑی کے فن کے ساتھ ساتھ وہاں کی خواتین کے لباس اور ان کے طور طریقے سمیت رہن سہن غیر ملکی سیاحوں کو یہاں آنے کیلئے مجبور کرتے ہیں۔

محکمہ آثار قدیمہ نواز الدین کے مطابق ڈپٹی کمشنر چترال کی مدد سے 6گھروں، قبرستانوں، مذہبی مقام اور کمیونٹی ہال کیلئے اراضی کی خریداری کی جائیگی اور اس مقصد کیلئے ان مقامات پر سیکشن فور لوگو کر دیا گیا ہے انہوں نے واضح کیا کہ اس منصوبے کے آغاز کی بنیادی وجہ وہاں کی مقامی آبادی کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو کی جانے والی درخواست ہے جس پر عمل کرتے ہوئے اس منصوبے کو شروع کیا گیا ہے۔حکومتی منصوبہ وادی کیلاش میں بسنے والوں کیلئے بے شک تازہ ہوا کا جھوکا ہے ، جہاں لوگ منصوبے پر پر امید تو کچھ نہ امید ہیں، تاہم یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ حکومت اس خوبصورت ترین تہذیب اور علاقے کو کس حد تک محفوظ اور مزید پر کشش بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔