روح الامین نایاب اِک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ کی زندگی کو ہم تین "Dimension”میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
1:۔ سماجی پہلو، سماجی حوالے سے آپ اپنے تاریخی گاؤں منگلور میں ’’ادارہ ژوند‘‘ نامی فعال رجسٹرڈ تنظیم چلا رہے ہیں، جو گلی کوچوں کی صفائی سے لے کر صلح صفائی، تصفیوں اور تھانہ کچہری کے دیگر امور میں بھی اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ آپ اِک متحرک جنرل کونسلر بھی ہیں۔ نیز MDF یعنی منگلور ڈویلپمنٹ فورم (جو فلاحی، اصلاحی اور ترقیاتی کاموں میں اِک شہرہ رکھتی ہے) آپ اس کے بھی اِک فعال رُکن ہیں۔
2:۔ سیاسی پہلو، سیاسی حوالے سے آپ باچا خان کے فکر و فلسفے سے متاثر ہیں۔ عدم مساوات، طبقاتی کشمکش، معاشرتی نا ہمواری، غربت و افلاس بے روزگاری اور مزدور و محنت کش طبقے کی زبوں حالی کے ساتھ ساتھ موجودہ استحصالی نظام کے خلاف بھی آپ کا دِل کڑھتا اور تڑپتا ہے۔ یہی خلجان اور ہیجان آپ کی تقریروں اور تحریروں میں بھی جھلکتا نظر آتا ہے۔
3:۔ ادبی پہلو، ادب میں آپ ’’ادب برائے زندگی‘‘ کے قائل ہیں اور ’’ترقی پسند تحریک‘‘ سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ نظم و نثر کے علاوہ مختلف موضوعات پر آپ کے فیچر، کالم اور تبصرے ترقی پسندانہ سوچ ہی کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ دیارِ غیر سے لے کر پاکستان تک آپ مختلف ادبی تنظیموں میں اچھے عہدوں پر رہے۔ آپ نے کبھی کسی کی غلامی برداشت نہیں کی اور حق بات کے لیے بڑے بڑے پہاڑوں سے بھی ٹکرائے۔ آپ کا مطالعہ بڑا وسیع ہے۔ جو آج بھی جاری ہے۔ گھر میں نادر کتب کا اِک وسیع ذخیرہ رکھتے ہیں۔ شہر سے باہر جائیں، تو کتابوں سے لدے پھندے واپس آتے ہیں۔ اب تک آپ کی اردو پشتو، نظم و نثر کی پانچ کتابیں چھپ چکی ہیں۔ جن میں ’’شبے‘‘، ’’فریادِ وطن‘‘، ’’پشتون اور دہشت گردی‘‘، ’’گوہر نایاب‘‘ اور ’’زِندانِ زیست‘‘ شامل ہیں۔ آپ کے والد عبدالمتین استاد (جو ہٹلر ملا کے بھائی تھے) بائیں بازو کی سیاسی تحریک کا خاص حصہ تھے۔ بڑے سیاسی، سماجی اور انقلابی ذہنیت کے مالک تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں منگلور سے نکل کر سوبھاش چندر بوس کی فوج میں شامل ہوکر انگریزوں کے خلاف جرمن کے حق میں لڑے۔ جنگی قیدی بنے۔ نہرو نے مقدمہ لڑکر آزاد کرایا۔ 1947ء میں گھر واپس آئے اور مرتے دم تک بائیں بازو کی سیاست کرتے رہے۔ اُن کے انتقال پر کامران خان نے یہ جملہ کہا کہ ’’آج منگلور یتیم ہوگیا۔‘‘ لیکن نہیں، اُن کے دو بیٹوں محمد امین اور روح الامین نے منگلور کو یتیم نہیں ہونے دیا۔ آپ بھی اپنے والد کے نقش قدم پہ چلتے رہے۔ یہاں تک کہ ضیا دور میں دھرلیے گئے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد سوات بدر ہوئے۔ جہلم میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد سعودی عرب چلے گئے اور وہاں 29 سال تک صحرا نوردی کی اور ریگستانوں کی خاک چھانتے رہے۔
اب آتے ہیں آپ کی کتاب ’’زِندانِ زیست‘‘ کی طرف۔ دیارِغیر میں 29سال تک بال بچوں سے دور تنہائی اور کرب میں جو دِل پہ گزرتی رہی، رقم کرتے رہے۔ اس 29 سالہ مشقِ سخن کو انہوں نے ’’زِندانِ زیست‘‘ کا نام دیا ہے جس کے حوالے سے وہ خود لکھتے ہیں کہ: ’’زندانِ زیست‘‘ میں مسکراہٹیں بہت کم ملیں گی، اس میں سسکیاں اور آہیں ہیں، اس میں گلے شکوے بھی ہیں۔ اقرار و انکار بھی ہے۔ شبِ ہجراں بھی ہے اور غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ غمِ دوراں بھی ہے۔ ایک پٹھان کے لیے اردو بولنا اور لکھنا مشکل ہوتا ہے اور پھر اردو میں شاعری کرنا تو اور بھی مشکل بات ہے، لیکن یہ اپنے بس کی بات کہاں ہوتی ہے۔ جب دِل پہ چوٹ پڑتی ہے تو قلم چلنے لگتا ہے‘‘۔
جبکہ ڈاکٹر جواد اُن کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’روح الامین نایابؔ کو میں اپنے ادبی اور معاشرتی سفر کے پہلے انقلابی گھڑ سوارکے طور پر جانتا ہوں۔ جو غیر روایتی اسلوب کے مالک ہیں۔‘‘
پشتون معاشرے میں جہاں اردو کی کہیں دبے تو کہیں کھلے لفظوں میں مخالفت ہی نہیں مخاصمت بھی کی جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں قومی زبان میں نظم و نثر کے ذریعے اپنا اظہار کرنا بڑے دِل گردے کا کام ہے۔ روح الامین نایابؔ نے ’’زِندانِ زیست‘‘ میں اپنے داخلی و خارجی مشاہدات اور تجربات کو جس کمال ہنر مندی سے شعروں کے روپ میں ڈھالا ہے، یقیناًداد طلب ہے۔ چوں کہ زندگی کا طویل اور سنہری عرصہ آپ نے عرب کے ریگستانوں میں گزارا ہے، اس لیے آپ کی شاعری میں ریگستان، صحرا، ریت، جدائی اور وطن کی یاد وغیرہ جیسے الفاظ اور استعارے بکثرت ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی تو نوبت یہاں تک بھی آجاتی ہے کہ
کس سے اظہارِ بے بسی کرلوں؟
دِل یہ کہتا ہے خودکُشی کرلوں
’’کیڑے‘‘ نامی نظم میں آپ کی ترقی پسندانہ سوچ کھل کر سامنے آتی ہے، لکھتے ہیں:
یہ جو غربت میں پلتے بڑھتے ہیں
جن کی جھگیوں میں گھپ اندھیرے ہیں
کیا یہ انسان ہیں یا کیڑے ہیں؟
کس نے یہ نالیوں میں چھوڑے ہیں
اس مجموعے میں تحیر بھی ہے، درد بھی ہے، کسک بھی ہے اور رومان بھی۔ ذرا دیکھیے اس چھوٹی سی بحر میں انہوں نے محبوب کی بے اعتنائی کو کس چابُک دستی سے باندھا ہے:
میرا آنا تمہیں گراں گزرے
اس تصور سے شب کہاں گزرے
داخلی کرب کی ترجمانی کرتے اُن کے یہ اشعار بھی ملاحظہ ہوں:
زخمی زخمی سی اِک کہانی ہے
دکھ بھری اپنی زندگانی ہے
آج بھی دِل کو دکھی کرتی ہے
بات گر چہ بہت پرانی ہے
میرے بے ربط سے اشعار میں بھی
وہ یہ کہتے ہیں کیا روانی ہے
غالبؔ کی زمین پہ لکھے تضمین کے دو شعر ملاحظہ ہوں:
جانے کیوں ایسی پردہ داری ہے
کہاں کی جلدی یوں تمہاری ہے
راز کی بات راز رہنے دو
بات آپس کی یہ ہماری ہے
نظم’’اُس کی یاد میں‘‘ تو نایابؔ صاحب نے بات خود ہی راز نہ رہنے دی اور ڈنکے کی چوٹ پہ اپنی محبت کا برملا اظہار بھی کر ڈالا، ذرا دیکھیے:
وہ کہ ہم کار تھی میری
وہ اِک غمخوار تھی میری
میں بھی دلدار تھا اُس کا
وہ بھی دلدار تھی میری
میں اُمید دار تھا اُس کا
وہ اُمید وار تھی میری
مگر پھر کیا ہوا یارو
وہی جو ہوتا آیا ہے
کہ رشتوں کی رقابت نے
ہمیں دولخت کر ڈالا
میرے نایاب سے دل کو
بڑا ہی سخت کر ڈالا
بدلنے والی قسمت کو
بڑا بدبخت کر ڈالا
یہ اور اسی قبیل کی داخلی اور خارجی شاعری سے مزین ’’زندانِ زیست‘‘ جو حال ہی میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر مارکیٹ میں آئی ہے، اِک خاصے کی چیز ہے۔ ہوسکتا ہے اُن کی شاعری میں جھول، سقم اور دیگر فنی عوارض بھی ہوں۔ لیکن اہلِ نقد و نظر کو اُن کے جذبے، قلم دوستی، علم دوستی، ادب دوستی اور وطن دوستی کو بھی ملحوظِ خاطر رکھ کر کچھ رعایت دینا ہوگی۔