تصدیق اقبال بابو
حسبِ سابق ہر سال کی طرح اس سال بھی میں اور میرا ہم سفر پروفیسر سبحانی جوہر پنجاب یاترا کے لیے پر تول رہے تھے کہ روح الامین نایاب صاحب نے بھی ساتھ جانے کا عندیہ دے دیا۔ یوں تو پروفیسر ڈاکٹر انور علی، پروفیسر طاہر بوستان اور ایڈوکیٹ آفتاب حسین بٹ بھی اُمیدواروں کی فہرست میں تھے، لیکن چوں کہ ہمیں وہاں اپنے عزیز دوستوں سے ملنا ہوتا ہے، اس لیے اتنے جتھے کی بجائے صرف روح الامین نایاب ہی کا قرعۂ فال نکالا گیا کہ اِک تو بزرگ بھی ہیں۔ دوسرا یہ کہ پچھلے سال بھی تیار تھے، لیکن اچانک جگر کے عارضے میں مبتلا ہوگئے۔ جب جگر جورِ گردوں سے خون ہونے کے قریب ہوا، تو آپریشن کراکے رفوگیری کر ڈالی۔ یوں جنوں سے بچ گئے۔ 
حالاں کہ میرؔ نے تو کہہ دیا تھا کہ: 
جگر جورِ گردوں سے خوں ہوگیا
مجھے رکتے رکتے جنوں ہوگیا 
آپریشن تو کامیابی سے ہوگیا، لیکن ہاضمے میں گڑ بڑ ضرور چھوڑ گیا، جس کا ذکر پھر کبھی سہی۔ لیکن سرِدست یہ بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر صاحبان پیٹ کے اندر تولیہ چھوڑ گئے تھے جسے تین ماہ بعد پھر چیڑ پھاڑ کر نکالا گیا۔ 
قصہ کوتاہ! 17 فروری کو ہمارا سہ رُکنی قافلہ پو پھٹنے سے پہلے ہی سوات کو خیر باد کہتے ہوئے گوجرانوالہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ دن ڈھلنے سے کچھ ہی پہلے ہم تحصیل وزیر آباد کے ’’چوڑا‘‘ نامی خوبصورت گاؤں کی پگڈنڈیوں میں موڑ کاٹ رہے تھے۔ کار، لقمان گھمن کے ڈیرہ نما کھلے گھر میں کھڑی کی۔ جہاں ہمارا شریف النفس میزبان یاسر گھمن دیدہ و دِل فرشِ راہ کیے ہمارے انتظار میں دست بستہ کھڑا تھا۔ یہیں ہمارے کرم فرما چودھری ارشاد گھمن بھی ہوتے ہیں، جو شہد اور گھی کے گھڑے ہیں۔ انتہا کی مخلص، سنجیدہ اور حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنے والی اس نفیس شخصیت نے ہماری اطلاع پاتے ہی شام کے کھانے کی پیشگی بکنگ کرالی تھی۔ حسبِ روایت انہوں نے راجپوتوں والا دستر خوان سجا رکھا تھا۔ دیسی گھی میں پکے گجریلے کا تو کیا ہی کہنا تھا۔ رات گئے تک حالاتِ حاضرہ، سیاست، مذہب، تاریخ اور فلسفے پر نایاب صاحب کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا۔ ارشاد، چیمہ، ناصر، یاسر، حافظ، حسنین، اسد، شبیر، لقمان اور کلیم بہت محظوظ ہوئے۔ اگلی صبح دو گاڑیوں کا قافلہ ہمیں سیالکوٹ بارڈر پر لے جانے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ ہمیں خصوصی اجازت سے انڈیا کی سرزمین پہ بھی قدم رکھنے کا موقع ملا۔ تصاویر بنوائیں اور بہت سا مزہ لے کر واپس آگئے۔ اگلے دن ہم اِک شادی کے ولیمے میں مدعو تھے۔ ڈھول اور بینڈ باجے کی دُھنوں میں لڈی، بھنگڑا اور ہے جمالو کے ڈانس بھی دیکھے اور دس، بیس، پچاس، سو بلکہ ہزار روپے کے نوٹوں کو ہوا میں اُڑتے بھی دیکھا۔ اگلے دو دن بھی مختلف شادی ہالوں میں ولیمے کھاتے ہی گزرے۔ بالآخر بہت سی محبتوں، مٹھائیوں اور باسمتی چاولوں کی فرداً فرداً بوریوں کے تحفوں کے ساتھ ہم گوجرانوالہ کو خیر باد کہتے ہوئے ڈسکہ جا پہنچے۔ جہاں میری فیس بک کی ایک مخلص دوست ہمارا انتظار کررہی تھی۔ کھاتے پیتے گھرانے کی اس خاتون نے ہم تینوں کو محبتوں سے نہال کردیا۔ ڈسکہ کی مشہور مچھلی سے جاری ضیافت کی، فروٹ چارٹ اور کشمیری چائے بھی پلائی اور پھر ہمیں بائیس بائیس سو روپے کے تین سوٹ بھی خرید کر دیے۔ جب ہم وہاں سے رخصت ہوئے، تو میری اکڑ دیدنی تھی۔ سبحانی اور نایاب صاحب بھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ میرا اُن پہ کافی رعب جم چکا تھا۔ 
ہمارا اگلا پڑاؤ سیالکوٹ تھا۔ جہاں میرے کولیگ یوسف نے شام کے پُرتکلف کھانے کا بندوبست کررکھا تھا۔ اگلی صبح ہمیں پنجاب سپورٹس کے جاوید صاحب سے ملنا تھا۔ جو میرے دیرینہ دوست ہیں۔ دس بجے ہم اُن کے شو روم میں تھے۔ انہوں نے پُرتکلف چائے پلائی۔ پھر اپنے کارخانے میں لے گئے۔ واپسی پہ ہمیں کچھ کرکٹ بیٹ، بیڈمنٹن کے ریکٹس اور شٹل کے علاوہ ایک ایک فٹ بال بھی تحفے میں دیا۔ یہی نہیں بلکہ ہماری گاڑی سے چاول وغیرہ اُترواکر کہا: ’’یہ سب میں کل سوات بیلٹی کردوں گا۔‘‘
ہمارا اگلا پڑاؤ لاہور تھا۔ جہاں حنیف لالا جیسا بے مثال انسان رہتا ہے، جن کی تعریف میرا یہ ناتواں قلم نہیں کرسکتا۔ اُن کا لفظ لفظ موتی ہے۔ اُن کی سخاوت بے مثل ہے، تو اُن کا حسنِ اخلاق لاجواب۔ مجلس آرائی میں اُن کا کوئی ثانی نہیں۔ پنجابی ہونے کے باوجود پشتو میں دُر لنڈھاتے ہیں۔ ادب، فلسفہ، سیاست اور سماع کے ساتھ ساتھ تصوف پہ جو گرفت اُنہیں ہے، شاید ہی کسی کو ہو۔ ہم نے دو راتیں اُن کے ساتھ گزاریں۔ 
سرگودھا میں میری کلاس فیلو اور اُن کے شوہر مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ہم وہاں گئے۔ وہاں بھی اُن کے کسی عزیز کی شادی تھی۔ پھر شادی ہال میں دعوت تھی۔ جہاں کا وائٹ قورمہ لا جواب تھا۔ یہیں پہ مجھے ہر سال گھر کے بنے اچار کی ایک بالٹی ملتی ہے۔ 
ہمارا اگلا بسیرا بھلوال کے چودھری مبشر کا ڈیرہ تھا، جو میرے بھائیوں جیسا ہے۔ وہ ہمیں اپنے بڑے بڑے فش فارموں کی سیر کرانے لے گیا۔ ساتھ ہی تا حدِ نگاہ کینو، مالٹے اور مسمی کے باغات کی نارنجی بہار دل وجاں کو معطر کررہی تھی۔ ہم نے مالٹے کھائے نہیں بلکہ پیے۔ جھٹ جھٹ مسمی مالٹے کا جوس لبوں سے لگتا اور غٹا غٹ حلق سے اتر کر کلیجے میں ٹھنڈ ڈال دیتا۔ یوں قورمے، مچھلی اور بکرے کی چانپوں کی گرمی قدرے کم ہوتی۔ 
مونا، جوگھنے درختوں، باغوں اور نہروں سے گھرا اِک خوبصورت ریموٹ ایریا ہے، جہاں میرے والد (مرحوم) پاک آرمی میں جانوروں کے ڈاکٹر ہوا کرتے تھے، جہاں اُن کی ریٹائرمنٹ تک میرا بچپن گزرا، جہاں کی گلیوں، بازاروں اور بچپن کے یاروں کی یادیں ناگن بن کر مجھے آج بھی ڈستی ہیں، جہاں کے درخت، پرندے، نالے اور کھالے آج بھی خواب میں آکر کہتے ہیں: ’’بابو آجاؤ! ہم پھر سے لکی چھپی کھیلیں گے۔ بنٹے (بلور) اور گلی ڈنڈا کھیلیں گے۔ تتلیاں، مچھلیاں اور چڑیاں پکڑا کریں گے۔ کوئی فکرِ فردا، غمِ روزگار اور دیگر جھنجھٹ نہیں ہوں گے۔ بس تم آجاؤ، لیکن اس بار بوجوہ میں نہ گیا۔ کار میں گزرتے وقت جب بورڈ پہ نظر پڑی، تو آنکھیں ضرور ڈبڈبائیں۔ لاکھ آنسو چھپائے، لیکن نایاب صاحب اور سبحانی بھانپ گئے اور مجھے چمکارنے لگے۔ 
اب ہماری واپسی کا سفر شروع ہوچکا تھا۔ ہم براستہ منڈی بہاؤالدین کھاریاں پہنچے۔ جہاں میرے بانکے اور چھیل چھبیلے دوست اظہر گلزار کی مستیاں اور سر مستیاں عروج پہ تھیں۔ اگلی رات میرے کلاس فیلو اے ایس آئی عبدالجبار کے ہاں جہلم میں گزری۔ اُس سے اگلی رات میرے ہاسٹل کے روم میٹ صوفی پرویز شاکی کے خوبصورت گاؤں تھاتھی میں جو وادئی پوٹھوار کا سب سے خوبصورت گاؤں ہے۔ یہیں پہ مجھے (فیس بک کے ذریعے) بیس سال پہلے بچھڑے دوست کی کال آئی، جس سے اگلے دن ٹیکسلا میں ملاقات ہوئی۔ ہماری آخری رات اٹک میں گزری۔ 
یوں چودہ دن بعد ہم بہ راستہ سوات موٹر وے بونیر سے ہوتے ہوئے سوات تشریف لے آئے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔